ہندوستانی ثقافت کے آغاز و ارتقا کا مطالعہ کرنے والے حکومتی پینل میں دلتو، اقلیتوں اور خواتین کو شامل نہ کرنے پر کھڑے ہوئے سوال، ایم پی کنیموزی نے پوچھا ’’کیا وہ نااہل ہیں؟‘‘
نئی دہلی، ستمبر 16: ڈی ایم کے کی رکن پارلیمنٹ کنیموزی نے منگل کے روز مرکز سے پوچھا کہ اس نے ہندوستانی ثقافت کی ابتدا اور ارتقا کا مطالعہ کرنے کے لیے حکومت کے ذریعے تشکیل کردہ ماہرین کے ایک پینل میں اقلیتی برادریوں اور دلتوں کے کسی فرد کو کیوں شامل نہیں کیا؟
کنیموزی نے کہا ’’کیا اقلیتوں اور دلتوں کو ہندوستانی ثقافت کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے؟ یا وہ نااہل ہیں؟‘‘
இந்திய கலாச்சாரம் குறித்து ஆய்வு செய்ய மத்திய அரசு நியமித்துள்ள குழுவில் ஏன் ஒரு சிறுபான்மையினர் கூட இடம்பெறவில்லை ?
சிறுபான்மையினரோ, தலித்துகளோ, இந்திய கலாச்சாரம் குறித்து பேசக்கூடாதா ? அல்லது அவர்கள் தகுதியற்றவர்களா ? pic.twitter.com/JuM2NtYNUV
— Kanimozhi (கனிமொழி) (@KanimozhiDMK) September 15, 2020
پینل میں کوئی خاتون ممبر بھی شامل نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق پیر کو مرکزی وزیر پرہلاد پٹیل نے پارلیمنٹ کو ایک تحریری جواب میں بتایا تھا کہ ایک 16 رکنی کمیٹی ہندوستانی ثقافت کی ابتدا اور ارتقا پر غور کررہی ہے۔
پرہلاد نے کہا کہ یہ پینل ہماری تہذیب و ثقافت کے ’’دنیا کی ثقافتوں پر اثرات‘‘ کے بارے میں تحقیقات کرے گا۔
پینل کے ممبروں میں آثار قدیمہ کے ماہرین کے این دکشت، بی آر منی، آر ایس بشٹ اور ریٹائرڈ جج مکندکم شرما شامل ہیں۔ پینل میں کوئی خاتون بھی شامل نہیں ہے۔
اس کے علاوہ پینل میں شامل چھ دیگر ممبران پروفیسر یا ماہرین تعلیم ہیں جو سنسکرت زبان کے مطالعہ میں مہارت رکھتے ہیں اور وہ زیادہ تر راشٹریہ سنسکرت سنستھان اور لال بہادر شاستری سنسکرت یونی ورسٹی سے ہیں۔
اس پینل میں مکھن لال بھی شامل ہے، جو ایک متنازعہ مورخ ہے جو سن 2000 کی دہائی کے اوائل میں تاریخ کی درسی کتب کو بھگوا کرنے کی کوششوں میں سب سے آگے تھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ تھنک ٹینک سے منسلک تھا۔
متعدد دیگر شہریوں نے بھی پینل میں جنوبی ہند، شمال مشرقی ہند کے نمائندوں، خواتین محققین اور دیگر اقلیتی برادریوں کے ماہرین کو شامل نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
شہرت یافتہ گلوکار ٹی ایم کرشنا نے کہا کہ کمیٹی مرکز کے ’’تعصب، ذات پات، نسل پرستی‘‘ کا ثبوت ہے۔
This committee constituted by the Govt of India to study Indian Culture is proof if its bigoted, casteist, patriarchal nature. Culture is where the most damage is being done. We are ignoring it at our own peril. https://t.co/Jhcz5jKBVg
— T M Krishna (@tmkrishna) September 15, 2020