ہندوتو انتہا پسندی۔ نظریاتی کشمکش اور مسلمان
سید سعادت اللہ حسینی کے قلم سے بھارت میں ہندوتوا کے بیانیے اور نظام فکر کا ایک جائزہ
تبصرہ: شبیع الزماں( پونے)
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ہندوتوا فکر کو سمجھنا کئی دہائیوں سے دانشوروں اور صحافیوں کا مشغلہ رہا ہے، حالانکہ ماضی میں بہت زیادہ لٹریچر اس پر تیار نہیں کیا گیا لیکن حالیہ برسوں میں، جیسے ہی سنگھ پریوار کو ہندوستانی سیاست میں مرکزی اہمیت حاصل ہوئی ہے، سنگھ سے متعلق کئی نئے موضوعات سامنے آئے ہیں اور مختلف نئے زاویوں سے اس کا مطالعہ کیا جانے لگا ہے۔ جناب سعادت اللہ حسینی صاحب کی کتاب ’’ہندو انتہا پسندی۔ نظریاتی کشمکش اور مسلمان‘‘ بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔ کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو 22 ابواب پر مشتمل ہیں اور ایک وسیع علاقے کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس میں بہت تفصیلی کتابیات بھی ہیں لیکن جس انداز میں اسے اکٹھا کیا گیا ہے، وہ پڑھنے کے قابل ہے۔
پہلے ہم کتاب کے مثبت پہلووں پر گفتگو کریں گے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کتاب کی اکیڈمک سطح بہت اعلی ہے، جو کچھ گفتگو کی گئی ہے اس میں ہوا ہوائی یا سرسری قسم کے تبصرے نہیں ہیں بلکہ ہر بات تحقیق کے بعد کہی گئی ہے اور اس کے لیے اعلیٰ درجے کا مواد استعمال کیا گیا ہے، اکثر حوالے بنیادی کتب سے دیے گئے ہیں۔حالانکہ یہ موضوع خشک قسم کے موضوعات میں سے ہے لیکن کتاب کا انداز بیان، طرز تحریر، قلم کی روانی اور تجزیے قاری کو باندھے رکھتے ہیں۔ کتاب کا یہ طریق دانشورانہ ہے۔
دوسرے یہ کہ ہندوتوا پر تنقید یا اس کا جائزہ لینے میں مصنف نے جلد بازی یا عجلت سے کام نہیں لیا ہے بلکہ اپنے موقف کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مصنف نے ہندوتوا فکر اور نظریات کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوتوا کے مقابل قوتوں جیسے کمیونسٹ، سماج وادی اور دلت تحریکات کی کوششوں کا بھی جائزہ لیا ہے اور مسلم بیانیے کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
تیسرے یہ ہے کہ جناب سعادت اللہ حسینی مستقل اس میدان کے آدمی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس میدان کی اکیڈمک بحثوں تک وہ پہنچ پائے ہیں اور ان بحثوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ جیسے آریاؤں کا وطن، ریورس مائیگریشن تھیوری، براہیمی اور دھارمک مذاہب کے تصورات، تاریخ کے بھگوا کرن کے لیے ہندوتوا طاقتوں کی کوششیں، زعفرانی تعلیمی نظریات، ہندوتوا فکر کا معاشی پہلو اور نو ہندوتوا تحریکیں وغیرہ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ہندوستانی سماج ایک پیچیدہ سماج ہے یہاں پر اسلامی قدروں کا لحاظ رکھتے ہوئے مسلم بیانیے کے مطابق کوئی حل پیش کرنا مشکل ہوتا ہے، عام طور سے لوگ جب اسے موضوع بناتے ہیں تو افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یا تو مسلم تہذیب کے تحفظ کے نام پر اتنا سخت بیانیہ اپنا لیتے ہیں کہ آگے بڑھنا دشوار ہو جاتا ہے یا پھر لوگ بڑے بڑے مفکرین یا بڑے ناموں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ان کی فکر میں بہہ جاتے ہیں اور ایک نرا سیکولر غیر اسلامی قسم کا حل پیش کرتے ہیں۔ ایک رویہ یہ بھی جنم لیتا ہے کہ بعض لوگ ہندوؤں میں موجود اصلاحی یا باغی تحریکوں کے نقطہ نظر سے سماج کو دیکھنے لگتے ہیں، جیسا بام سیف سے وابستہ مسلمانوں کے معاملے میں دیکھا جا سکتا ہے، لیکن سعادت صاحب کی خاص بات ہے کہ انہوں نے اسلام کی بنیادی فکر، اس کے فلسفے اور اسلام کے کلاسیک لٹریچر کی حدود سے بالکل تجاوز نہیں کیا ہے، حدود کا بھرپور لحاظ کرتے ہوئے بلکہ ان ہی کی بنیادوں پر چیزوں کا تجزیہ کیا ہے اور قابل عمل لائحہ عمل تجویز کیا ہے۔
برصغیر میں اس معاملے میں تلخ تجربات رہے ہیں بڑے بڑے لوگ اس میں چوک گئے ہیں لیکن مصنف نے جس طرح قرآنی اصولوں سے استنباط کرتے ہوئے موجودہ زمانے کے مسائل کا حل تجویز کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
پانچواں کتاب میں ہندوتوا کی ہمہ جہت کوششوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اصل دھارے کی ہندوتوادی تحریکوں کے علاوہ نو ہندوتوادی کے عنوان سے وائس آف انڈیا، متشدد ہندو تحریکات، نرم ہندوتوا سے متعلق تحریکیں اور عالمی سطح پر ان کی کوششیں اور دیگر کوششوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
چھٹا۔ ’’مقابل قوتیں اور ان کی ناکامیاں‘‘ کتاب کا یہ باب بہت شان دار ہے جس میں ہندوتوا کے بالمقابل قوتیں کیوں ناکام ہوئی ان کا نظریاتی سطح ہر شان دار تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس باب کی خاص بات پیریار اور دراوڑین تحریک کا تعارف و تجزیہ ہے۔ عام طور سے ہندوتوا کی بحثوں میں صرف نارتھ انڈیا کی تحریکات کا ہی جائزہ لیا جاتا ہے لیکن کتاب میں ساؤتھ میں ہندوتوا کے پھیلاؤ اور اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ کانگریس اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی سیکولر پارٹیوں، کمیونسٹ تحریکات اور دلت تحریکات کی ناکامی کے اسباب کا بھی شان دار تجزیہ کیا گیا ہے۔
ساتواں۔ یورپ کی علمی نشاۃ ثانیہ اور صنعتی ترقی کے پس منظر میں ابھری قومیت اور جدید قومی ریاست سے جڑے ںظریات۔ ان نظریات کے ہندوستان پر کیا اثرات ہوئے اور ہندوستان میں مختلف مفکرین کا اس پر رد عمل کس طرح کا رہا۔قومیت اور جدید قومی ریاستوں میں شناخت کی سیاست نے کیسے جنم لیا اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ان تمام امور پر ںظریاتی سطح کی گفتگو کی گئی ہے۔
آٹھواں ۔کتاب کی خاص بات ہندوتوا فکر کا جوابی بیانیہ تشکیل کرنے کے خطوط ہیں۔مصنف نے صرف حالات کا تجزیہ ہی نہیں کیا ہے بلکہ ایک قابل عمل لائحہ عمل بھی تجویز کیا ہے۔ مسلم سیاست اور اس میں کیا کمی رہ گئی اور مستقبل میں ملی ایجنڈہ کیا ہونا چاہیے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی ویژن کیا ہو؟ ان کا سیاسی بیانیہ کیا ہونا چاہیے؟ عمومی طور پر مسلم مفاد یا ملی شناخت کی بنیاد پر مسلم سیاست کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرزِ کی سیاست میں کئی نظریاتی اور عملی الجھنیں پائی جاتی ہیں۔ جیسے مسلمان دیگر کمیونیٹیوں کی طرح کوئی لسانی و طبقاتی یا نسلی گروہ نہیں ہے بلکہ ان کی اپنی ایک دینی اور نظریاتی حیثیت ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی بحث کیا ہو؟ کتاب میں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف کے مطابق ہندوتوا کے مقابلے کے لیے مسلمانوں کو عدل و انصاف پر مبنی ایک متبادل سیاسی بیانیہ سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’عدل و برابری اس ملک میں ہمارے ڈسکورس کا ایک نہایت اہم عنوان ہونا چاہیے بلکہ مسلم امت کو قرآن کے حکم کے مطابق عدل و قسط کا اس طرح علم بردار بن جانا چاہیے کہ وہ اس کے اجتماعی وجود کا اہم ترین حوالہ، اس کی سیاست کا اصل عنوان اور اس کی شناخت کا نمایاں ترین جز بن جائے۔ ‘‘
عدل و انصاف کے بیانیے کے اہم اجزاء ’’معاشی عدل، انصاف رسانی کا نظام، ذات پات، صنف اور طبقات کی بنیاد پر مظالم کی روک تھام، تہذیبی، نظریاتی اور نسلی گروہوں کے وجود کو تسلیم کرنا اور ان کے حقوق کی حفاظت اور استحصال سے پاک سیاست‘‘ ہوں گے۔ کتاب میں اس عنوان پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور ماضی کی مسلم سیاست کے اپروچ پر بھی تاریخی تناظر میں گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب کا یہ باب شان دار ہے۔ مسلم سیاست پر گفتگو کے حوالے سے کئی نئے پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ان مباحث کے علاوہ کتاب کے بعض مضامین بہت خوب ہیں جیسے تاریخ ہند اور تاریخ نگاری، تعلیمی نظریات و نظام، تاریخ کا متوازن بیانیہ اور شرک اور کثرت پرستی کا اثبات۔
کتاب میں بعض پہلووں سے تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
اول۔ہندوتوا کا نظریہ کسی فرد واحد کا نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف حالات میں ترقی کرتا ہوا پروان چڑھا ہے۔ اس نظریے کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے جس میں یہ نظریہ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ اس نظریہ کی آبیاری میں colonialism کا بھی بڑا حصہ ہے۔ کتاب ہندوتوا کی فکر کو سیدھے ساورکر سے سجھنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ اس سے پہلے لوک مانیہ تلک، دیانند سرسوتی، مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور مونجے وغیرہ نے اس نظریہ کی آبیاری کی۔ ساورکر نے ضرور ہندوتوا کی اصطلاح کو عام کیا ہے لیکن اس فکر کے لیے بیک گراونڈ پہلے سے تیار ہو رہا تھا۔ کتاب میں اس تاریخی پس منظر کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
دوم۔سنگھ کٹی ہوئی زبان میں گفتگو کرتا ہے اور اس کے یہاں چیزیں علامتی طور پر ہوتی ہیں۔ اس لیے سنگھ کو سمجھنا ایک دشوار کام ہے اور یہ اس وقت مزید دشوار ہو جاتا ہے جب اسے صرف لٹریچر سے سمجھا جائے۔ سنگھ مستقل جھوٹ بولنے کا عادی ہے بلکہ اس فن میں اس کی مہارت کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ مصنف نے سنگھ کو مستقل طور پر اس کے لٹریچر سے سمجھنے کی کوشش ہے لیکن سنگھ کو لٹریچر کے ساتھ عملی واقعات اور زمینی سرگرمیوں سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ تقریباً ایک صدی سے زیادہ عرصے میں ہندوتوادیوں کی عملی کوششوں کا کوئی خاص تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے کتاب ہندوتوا کا مکمل فہم نہیں فراہم کرتی ہے۔
سوم۔ ہندوتوا ایک سیاسی آئیڈیالوجی ہے، اسے بہت زیادہ مذہبی پیرائے اور نظریاتی انداز میں بیان کیا گیا ہے، حالانکہ بعض مفکرین آج بھی ہندوتوا کو نظریاتی چیلنج ماننے تیار ہی نہیں ہے۔ ہندوتوا مضبوطی سے قائم کوئی نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور سے ایک مفاد پرستانہ سیاسی نظریہ ہے جس کا بنیادی مقصد ایک خاص طبقے کے مفادات کو پورا کرنا ہے۔ فاشسٹ تنظیموں کے بارے میں یہ اصول ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان کے نزدیک اصل اہمیت مقصد کی ہوتی ہے، طریقہ کار اور پالیسی و پروگرام وقت اور حالات کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ امبرٹو اکو فاشسٹ تنظیموں کے طریقہ کار کو فٹ بال ٹیم کے طریقہ کار سے تشبیہ دیتے ہیں جس کا مقصد صرف گول کرنا ہوتا ہے۔ گول کرنے کے لیے پہلے سے کوئی پروسیس طے نہیں ہوتا۔ گول کرنے کے اس عمل میں مختلف کھلاڑیوں کے درمیان میدان میں ہی تال میل قائم کیا جاتا ہے۔ یہ بات زیادہ اہم نہیں ہوتی کہ کن کھلاڑیوں کے تال میل سے گول ہوگا بلکہ اہمیت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ گول ہو جائے۔ فاشسٹ نظریات رکھنے والی پارٹیوں یا تنظیموں کا مقصد بھی صرف اقتدار پر قبضہ کرنا ہوتا ہے چاہے اس کے لیے انہیں کسی سے بھی مفاہمت کرنا پڑے یا کسی بھی گروہ یا طبقہ کو استعمال کرنا پڑے۔ ان کے اصول و نظریات مستقل بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ گاندھی کا قتل کر دیتے ہیں اور کبھی گاندھی کے افکار کے پاسبان ہونے کا ڈھونگ رچانے لگتے ہیں۔
چہارم۔ کتاب ہندوتوا کے تاریک چہرے کو پوری طرح واضح نہیں کرتی۔ ہندوتوا کی پوری تاریخ تشدد سے بھری پڑی ہے۔ فسادات میں ہندوتوادیوں کا کردار، گجرات کی نسل کشی، اڈوانی کی خونی یاترا اور اس سے جڑے فسادات، ماب لنچنگ اور دیگر برادریوں پر حملے۔ مخالفین کے خلاف نفرت پھیلانے، دنگے بھڑکانے، ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا ان کی نسل کشی پر اکسانے کے لیے یا یہ اقدام کر گزرنے کے لیے بھی ہندوتوادیوں کی کوششوں کا تذکرہ کتاب میں نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ کتاب کا نام ہندوتوا انتہا پسندی ہے لیکن نہ ہی وہ مکمل طور سے ہندوتوا نظریہ کی انتہا کو بیان کر پائی اور نہ ہی ہندوتوا کے عملی انتہا پسندی کو بیان کرتی ہے۔
پنجم۔ کتاب میں آزادی کے بعد کی مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی کوششوں کو بھر پور انداز میں پیش نہیں کیا گیا ہے اس لیے تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ بابری مسجد اور رام مندر موومنٹ کے دوران مسلم قیادت اور تنظیموں کا کردار۔ ستر سالہ تاریخ میں مختلف ملی سطح کی کوششوں کا بھی کتاب میں کوئی خاص ذکر نہیں ہے۔
کچھ مباحث ایسے ہیں جو گفتگو کے نئے دروازے کھولتے ہیں۔ ان میں ایک بحث شہری قومیت کی ہے۔ اسلامی فکر میں جدید قومی تصورات اور ’نیشن اسٹیٹ‘ پر ایک سخت موقف رہا ہے۔ مشترکہ سماجوں میں مسلم اقلیتوں کی شناخت کے تعلق سے ہمیشہ ایک الجھن رہتی ہے۔ جدید مسلم مفکرین اس مسئلہ کا حل کا تلاش کرتے رہتے ہیں اور اس کتاب میں بھی وہی کوشش نظر آتی ہے۔ مصنف کے نزدیک نیشن اسٹیٹ میں نیشنلزم کی دو قسمیں ہیں۔ انٹیگرل نیشنلزم اور سول نیشنلزم یا شہری قومیت۔ انٹیگرل نیشنلزم اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں جبکہ شہری نیشنلزم اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں ہے۔مصنف نے اس کے حق میں دلیل مدینہ میں حضور اکرم (ﷺ) کے ذریعے یہودیوں، نجران کے عیسائیوں اور دیگر متعدد غیر مسلم قبائل کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے دی ہے۔ شہری قومیت کی بنیاد اور ملی وجود کی نسبت واضح کرتے ہوئے جناب سعادت اللہ حسینی لکھتے ہیں
’’مسلمانوں کی ایک ملت اور امت کی حیثیت ان کے ہندوستانی شہری ہونے کی حیثیت سے متصادم نہیں ہے۔ قوم کے وہ معنی لیے جائیں جو یورپی قوم پرستی کے پس منظر میں متعین ہوئے تھے تو بے شک مسلمانوں کے تہذیبی تشخص پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے، لیکن ایک شہری قومیت جو دستوری معاہدے کی بنیاد پر ہو، وہ الگ الگ تہذیبی گروہوں کو معاہدے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ مسلمان اپنی منفرد تہذیبی قدروں کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رہتے ہوئے اس شہری قومیت کا حصہ بنے رہ سکتے ہیں۔‘‘
مصنف سنگھ کے ذریعے تھوپے جانے والے انٹیگرل نیشنلزم کے بالمقابل ہندوستان کے لیے شہری نیشنلزم کا تصور دیتے ہیں، کیونکہ یہاں کوئی ایک قوم نہیں بستی بلکہ مختلف تہذیبی شناختوں کے ساتھ کئی قومیں بستی ہیں۔ مصنف نے اس بات کو ایک معنی خیز جملہ میں اس طرح بیان کیا کہ ’’یہ ملک نیشن اسٹیٹ نہیں بلکہ اسٹیٹ نیشن ہے‘‘۔ انٹیگرل نیشنلزم اور شہری قومیت کے فرق کے واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’انٹیگرل نیشنلزم کے تصورات اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ مشترکہ سماجوں میں شہری قومیت کا راستہ ایک قابل عمل راستہ ہے۔ ایسے معاشروں میں اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اسلام کے علم بردار اور اس کے سفیر بن کر معاشرے میں رہیں اور معاشرے میں اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کریں گے، اس لیے دستوری معاہدے کی بنیاد پر بننے والے ملک میں مسلمان ایک نظریاتی تہذیبی گروہ کے طور پر رہیں گے۔ وہ ملک کے بھی وفادار رہیں گے اور اپنے دین و تہذیب سے بھی ان کی اٹوٹ وابستگی ہو گی۔
اپنے اصولوں کی معقولیت وہ اہل ملک پر واضح کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور ساتھ ہی دستور کی متفق علیہ قدروں کو روبہ عمل لانے اور باقی اہل ملک کے ساتھ مل کر ملک میں امن و امان، عدل و انصاف اور تعمیر و ترقی کے لیے جد و جہد کرتے رہیں گے۔‘‘
اس تعبیر کو جماعت اسلامی کی بنیادی فکر کے اعتبار سے ایک بڑا اجتہادی قدم کہا جا سکتا ہے۔ یہ تعبیر کم ازکم نیشن اسٹیٹ میں مسلمان اقلیتوں کی حیثیت کے کنفیوژن کے مسئلہ کو حل کرتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود نیشن اسٹیٹ اب ایک حقیقت ہے۔ یہ تعبیر مسئلہ کا ایک عملی حل پیش کرتی اس پر نظریاتی سطح پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ مغربی تصور کو ہی کلاسک لٹریچر سے سپورٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے یعنی کوئی نیا حل نہیں پیش کیا گیا بلکہ ایک ’امپورٹیڈ کانسپٹ‘ ہی میں سے کچھ بیچ کی راہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بہر حال ان تشنگیوں کے باوجود یہ ایک بہترین کتاب ہے جو حالات کو صحیح رخ پر سمجھنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کا بیانیہ ایک مثبت و ایجابی بیانیہ ہے۔ یہ مایوسی اور خوف نہیں پھیلاتی بلکہ حالات سے لڑنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ یہ ماضی کی غلطیوں پر رونے دھونے کے بجائے ان سے سیکھنے کا مزاج پیدا کرتی ہے۔ سخت ترین حالات میں آگے بڑھنے کی راہ سجھاتی ہے۔ ہم اس گفتگو کو اقبال کے اس امید افزا پیغام پر ختم کرتے ہیں جو اس کتاب کا بھی پیغام بھی ہے۔
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
مکاں فانی، مکیں فانی، ازل تیرا، ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے
حنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے، معمارِ جہاں تو ہے
یہ نکتہ سرگزشتِ ملّتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تو ہے
***
اس کتاب میں مصنف نے ہندوتوا فکر اور نظریات کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوتوا کے مقابل قوتوں جیسے کمیونسٹ، سماج وادی اور دلت تحریکات کی کوششوں کا بھی جائزہ لیا ہے اور مسلم بیانیے کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023