ہمیں ایودھیا معاملے کو دو بھائیوں کے درمیان زمینی تنازعے کے طور پو لینا چاہیے: شنکرا چاریہ

نئی دہلی، 5 نومبر | بابری مسجد تنازعہ کا فیصلہ جلد ہی سپریم کورٹ کے ذریعہ سنایا جائے گا۔ اس کیس کی سماعت 16 اکتوبر کو ختم ہوگئی ہے اور عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے, جو 17 نومبر سے پہلے آنے کی امید ہے۔ اس ممکنہ فیصلے کے بارے میں لوگوں کے طرح طرح کے ردعمل دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ فتح کے جلوس کے تخیل سے لے کر شکست کے گیت کی تکلیف تک، لوگ پریشان ہیں۔ افواہوں اور خدشات سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں انڈیا ٹومورو اپنی صحافت کے ذریعہ، تمام مذاہب کے مذہبی رہنماؤں سے مل کر ان کے پر امن نظریات کو عوام تک پہنچانے اور مذہبی رہنماؤں کی اپیل کو معاشرے تک پہنچانے کے لیے  کوشاں اور پرعزم ہے۔

انڈیا ٹومورو نے بابری مسجد تنازعہ کا فیصلہ آنے سے قبل سرکردہ ہندو مذہبی رہنما شنکرا چاریہ سوامی اونکارا نند سرسوتی سے ملاقات کرکے ان کے امن و امان اور آپسی ہم آہنگی سے متلعق خیالات کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

انڈیا ٹومورو سے بات کرتے ہوئے شنکرا چاریہ سوامی اونکارا نند سرسوتی نے کہا کہ ہمیں ایودھیا تنازعہ کے فیصلے کو دو بھائیوں کے درمیان زمینی تنازعہ کی طرح سمجھنا چاہیے۔ عدالت دو بھائیوں کے تنازعہ میں جو بھی فیصلہ دیتی ہے، وہ اسے قبول کرتے ہیں لیکن وہ خاندان سے بغاوت نہیں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "کچھ دنوں میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے مقام کے بارے میں ہمارے اور آپ کے سامنے ایک بہت ہی پرانا فیصلہ، سپریم کورٹ سے چیف جسٹس کے ذریعہ سامنے آنے والا ہے کہ وہاں کیا ہونا چاہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جیسے دو بھائیوں کے درمیان فیصلہ ہوتا ہے، ہمارے گھر میں ہمارے چھوٹے بھائی یا بڑے بھائی کی طرح  ک ان میں آپس میں کچھ دشمنی ہوجائے کسی چیز یا جائیداد کے معاملے میں تو معاملہ عدالت میں جاتا ہے اور وہاں جج جو فیصلہ کرتا ہے ہم اسی حکم کے مطابق آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن اپنے بھائی سے تنازعہ کی وجہ سے  ہم اپنے پورے کنبے سے بغاوت نہیں کرتے ہیں بلکہ ہم باقی لوگوں کے لیے اپنی وہی محبت برقرار رکھتے ہیں۔”

شنکراچاریہ نے کہا کہ ‘‘ہمیں اپنے بھائی پر فتح کا جشن منانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ چاہے فیصلہ مندر کے حق میں آئے یا مسجد کے حق میں۔ ہمیں صبر کرنا چاہیے کیونکہ مذہب یہی تعلیم دیتا ہے۔ فیصلہ عدالت کے ذریعے آئے گا۔ اس کے بعد ہمیں فاتحانہ جلوس نکال کر کسی کے احساسات کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے’’۔

سب کو تحمل کا مظاہرہ کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے سے گریز کرنے کی اپیل کرتے ہوئے سوامی اونکارا نند نے کہا کہ "ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے بھائی سے اس مقام کو لے کر کچھ دن تک دل میں ناراضگی رکھیں لیکن کچھ دنوں کے بعد خیال آتا ہے کہ جو ہوا سو ہوا آخر وہ ہمارا بھائی ہے اور اگر کسی چیز کے بارے میں کوئی جھگڑا ہوا تھا، تو اس کا فیصلہ جج نے کر دیا۔ اب اس فیصلے یا اس کے نتیجے پر کہ وہ مقام اب رام جنم بھومی ہے، تو ہمیں بابری مسجد کے ماننے والوں یا جو اسلام کے ماننے والے ہیں ان کی مخالفت کرنا یا ان کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے کہ آپ ہار گئے ہیں یا آپ نے وہاں جھوٹی جگہ قائم کی یا اتنے دن ہندوؤں کے خلاف تضادات بنا کر عدالت میں چلے گئے، اگر آپ نے وہ جگہ ہندوؤں کو دے دی ہوتی تو یہ اچھا ہوتا، تو اب یہ ساری چیزیں بے معنی ہیں کیونکہ آپ کو یہ فیصلہ معزز جج کے ذریعہ مل رہا ہے۔ لہذا ہمیں اسے اس طرح نہیں منانا چاہئے کہ ہم جیت گئے۔اگر بھگوان رام کی جگہ وہ ہے اور ہم اسے حاصل کر رہے ہیں تو ہمیں خدا کی عبادت اور عبادت کے لیے یہ مندر تعمیر کرنا چاہیے اور اگر بابری مسجد کو وہاں جگہ مل جاتی ہے یا بابری مسجد کو بھی اسی سرزمین میں جگہ مل جاتی ہے۔  تو اس کے لیے بھی ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ لوگ بھی وہاں اپنی جگہ بنائیں’’۔

شنکراچاریہ نے ماضی میں مشترکہ ثقافت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا تعلق جیسے ماضی میں تھا کہ متھرا میں واقع مسجد اور بھگوان کرشن کی جائے پیدائش ایک ہی جگہ ہے اور جس طرح کاشی میں بھگوان شو کی پیدائش کی جگہ اور مسجد بھی ایک جگہ ہے تو اگریہاں بھی ایک ساتھ مندر اور مسجد کا کوئی اتفاق ہو تو پھر اس میں بھی کوئی مخالفت نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ "ہماری روح  جیسے متھرا میں مسجد اور بھگوان کرشن کی پیدائش کی جگہ پرایک ہے، جیسے کاشی میں بھگوان شو کی جائے پیدائش اور مسجد ایک جگہ ہے۔ اسی طرح  یہاں بھی اگر مسجد اور مندر ایک ساتھ بنائے جاتے ہیں تو اس میں بھی کوئی مخالفت نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری عبادت گاہ ہماری اپنی عبادت گاہ ہے اور جو لوگ اسلام کو مانتے ہیں ان کی عبادت گاہ ان کی عبادت گاہ ہے۔ اس میں ہمیں مذہب کے بارے میں کسی قسم کی عداوت یا کسی قسم کا تضاد نہیں کرنا چاہیے۔”

سوامی اونکاا نند نے سب سے امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی اور کہا کہ سناتن دھرم کے مذہبی عقیدت مند ہونے کے ناطے میں یہ کہوں گا کہ تمام سناتن دھرمیوں کو کسی بھی طرح کی غیر اخلاقی حرکت نہیں کرنی چاہیے اور اس فیصلے کو محبت کے ساتھ قبول کرنا چاہے۔

انڈیا ٹومورو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس پر زور دیا کہ "میں یہی بات سناتن دھرم کا دھرمچاری ہونے کی حیثیت سے کہوں گا، میں آپ سب سے جو سناتن دھرمی ہیں گزارش کروں گا کہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کی نفرت نہ پیدا کریں۔ ایک دوسرے سے پیار کریں اور جو بھی فیصلہ ہو اسے محبت سے قبول کریں۔”

شنکراچاریہ نے امن قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ انتشار پسند عناصر پر بھی نگاہ رکھنے کی اپیل کی اور کہا کہ اگر کوئی شخص معاشرے میں امن کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ پروپیگنڈا اور افواہوں کو پھیلاتا ہے تو فوراً اس کی خبر پولس کو دیں۔

انہوں نے کہا، "عدالتی فیصلے  سے متعلق کسی بھی افواہ یا توہین آمیز بیان کی پیروی نہ کریں اور اگر کوئی اس طرح کی غیر اخلاقی حرکتیں کرتا ہے تو اس کی اطلاع تھانہ میں پولیس کو دے کر پولیس کو واضح کریں کہ یہ شخص تضاد پھیلانے، انتشار پھیلانے کے لئے ایسے پیغامات بھیج رہا ہے۔ . میری خواہش ہے کہ آپ سب اس فیصلے کو آسانی سے قبول کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت برقرار رکھیں۔ "

(بشکریہ انڈیا ٹومارو)