ہمنتا بسوا سرما کا مسلم مخالف چہرہ پھر بے نقاب، مسلم صحافی کا نام پوچھ کر فرقہ وارانہ تبصرہ
صحافی برادری نے وزیر اعلیٰ کے رویہ کی سخت تنقید کرتے ہوئے مذمت کی اور صحافیوں کے سوال پوچھنے کے حق کا دفاع کیا
نئی دہلی ،24 اگست :۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما اکثر مسلم مخالف اور نفرت انگیز بیان کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں ۔ان کی کوئی بھی سیاسی تقریر یا بیان مسلمانوں یا اسلامی شناخت کومرکز میں رکھ کر دیا جا تا ہے۔یوں تو وہ ہمہ وقت اسلامی فوبیا کے شکار نظر آتے ہیں مگر حالیہ دنوں میں انہوں نے جس طرح ایک صحافی کی مذہبی شناخت کو نشانہ بنایا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے کس قدر نفرت میں غرق ہیں۔
در اصل گوہاٹی سے تعلق رکھنےوالے ایک رپورٹر شاہ عالم نے گزشتہ 21 اگست کو آسام اسمبلی کے باہر پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما سے جلکباری میں پہاڑیوں کی غیر قانونی کٹائی کےخلاف کارروائی کی صورت حال کے بار ے میں سوال پوچھ لیا ۔چونکہ جلکباری ہیمنتا بسوا سرما کا آبائی علاقہ ہے اس لئے وہ سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے بچنے کی کوشش کرتے نظر آئے ۔اسی دوران ان کے اندر کا نفرت جاگا اور انہوں نے اس صحافی کا نام دریافت کیا ۔صحافی نے اپنا نام شاہ عالم بتایا ۔اتنا سنتے ہی انہوں نے اس صحافی کی مذہبی شناخت پر حملہ کرتے ہوئے فرقہ وارانہ بیان بازی شروع کر دی اور اسے یونیور سٹی آف سائنس اینڈ ٹکنا لوجی میگھالیہ(یو ایس ٹی ایم ) سے جوڑ دیا ۔
خیال رہے کہ وزیراعلیٰ نے حالیہ دنوں میں گوہاٹی میں آئے سیلاب کے لئے میگھالیہ میں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میگھالیہ کو ذمہ دار قرار دیا تھا ۔چونکہ یونیور سٹی ایک بنگالی مسلمان محبو ب الحق چلاتے ہیں اس لئے اس پر سخت فرقہ وارانہ تنقید کی تھی اور "فلڈ جہاد” جیسی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے نشانہ بنایا تھا۔
بدھ کے روز، آسام اسمبلی کے باہر مبینہ طور پر ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں، مقامی ویب پورٹل NewzNow کے رپورٹر شاہ عالم کو دکھایا گیا، جو سرما سے پہاڑیوں کی غیر قانونی کٹائی سے متعلق سوال پوچھ رہے تھے۔ جواب دینے کے بجائے وزیر اعلیٰ نے رپورٹر کا نام پوچھ کر یو ایس ایم ٹی اور محبوب الحق کا دفاع کرنے کا الزام لگا دیا اور کہا کہ "آپ USTM کادفاع کیوں کر رہے ہیں؟ وجہ کیا ہے؟ کیا آپ ان سے اشتہارات وصول کرتے ہیں؟”
رپورٹرکے ذریعہ اپنا نام شاہ عالم بتائے جانے پر آسام میں مسلمانوں کی مبینہ بڑھتی آبادی پر طنز کرنے لگے اور یو ایس ٹی ایم ، محبوب الحق سے چیزوں کو جوڑ کر سوال کرنے لگے کہ کیا ہم بھی آسام میں زندہ رہیں گے۔ شاہ عالم اور محبو ب الحق کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم آسام میں رہ سکیں گے یانہیں۔وزیر اعلیٰ کا اشارہ اس سے آسام میں اس مبینہ مفروضہ کی طرف تھا کہ مسلمان آسام کے مقامی لوگوں کے لئے خطرہ ہیں ۔
وزیر اعلیٰ ہیمنتا سرما کے اس رویہ پر صحافی برادری نے سخت تنقید کی ہے اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔جرنلسٹ یونین آف آسام (JUA) اور میڈیا کے دیگر اداروں نے وزیر اعلیٰ کے تبصرے کو صحافی کی مذہبی شناخت پر ذاتی حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے، اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ مستقبل میں ایسے تبصرے کرنے سے گریز کریں۔جے یو اے نے کہا کہ صحافیوں کو دھمکیوں یا ذاتی حملوں کا سامنا کیے بغیر سوال پوچھنے کا حق ہے۔
گوہاٹی پریس کلب نے پریس کانفرنس کے دوران سیاسی لیڈروں کے ذریعہ توہین آمیز ردعمل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور میڈیا کے کردار کے تئیں وقار اور احترام کی تلقین کی ہے۔ جرنلسٹ ایسو سی ایشن فار آسام اور جرنلسٹ یونین آف آسام سمیت متعدد یگر میڈیا اداروں نے بھی سرما کے فرقہ وارانہ تبصرے کی مذمت کی ہے۔
جرنلسٹ یونین آف آسام کے صدر اور جنرل سکریٹری صمیم سلطانہ احمد اور دھنجیت کمار داس نے ایک بیان میں کہاکہ ایک مقامی صحافی کے سوال کا جواب دینے کے بجائے، وزیر اعلیٰ نے ایک معمولی تبصرہ کیلئے صحافی کے مذہبی شناخت کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کسی وزیر اعلیٰ سے اس کے مذہب کی بنیاد پر صحافی پر ذاتی حملے کی توقع نہیں کی جاسکتی،وزیر اعلیٰ نے صحافت کے وقار کو پامال کیا ہے ‘‘
جرنلسٹ ایسوسی ایشن فار آسام کے صدر ابھیدیپ چودھری، ورکنگ پریزیڈنٹ پنکج ڈیکا، چیف آرگنائزنگ سکریٹری کشال سائکیا اور سکریٹری جنرل کنجا موہن رائے نے بھی ایسا ہی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی صحافی کی مذہبی یا نسلی شناخت کو نشانہ بنایا کبھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
نیوز لانڈری کی رپورٹ کے مطابق شاہ عالم نے کہا کہ بحیثیت صحافی سوال پوچھنا میرا فرض تھا۔ میں نے ا ن سے ایک جائز سوال کیا تھا۔ ان کے حلقے میں پہاڑی کٹائی کی رپورٹ مین سٹریم نیوز چینلز نے ٹیلی کاسٹ کی تھی… لیکن وہ میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے میرا نام لے کر میرے مذہب کی نشاندہی کرنے لگے اور اسےفرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔
واضح رہے کہ ماضی قریب میں ہیمنت سرما نے مسلسل فرقہ وارانہ بیان بازی اور محبوب الحق اور یو ایس ٹی ایم کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کئے ہیں۔ انہوں نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ یونیورسٹی کا گنبد والا داخلی دروازہ ‘مکہ’ کی طرح نظر آتا ہے اور دعویٰ کیا کہ اس سے آسامی ثقافت اور ورثے کو خطرہ ہے۔ یہی انہیں انہوں نے یونیور سٹی کی شناخت اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والوں پر بھی فرقہ وارانہ تنقید کی تھی ۔یونیور سٹی کو گوہاٹی میں آئے سیلاب کے لئے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ’فلڈ جہاد‘ جیسی اصطلاح کا استعمال کیا تھا۔مگر ان تمام تنقیدوں اور منفی تبصروں کے درمیان یو ایس ٹی ایم نے تعلیمی بنیاد پر اپنا وقار بلند کیا اور تنقید کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔
یو ایس ٹی ایم کو وزارت تعلیم کے ذریعہ حال ہی میں اعلان کردہ قومی ادارہ جاتی درجہ بندی کے فریم ورک 2024 میں سرفہرست 200 یونیورسٹیوں میں شامل کیا گیا۔ یہ شمال مشرق کی واحد پرائیویٹ یونیورسٹی ہے جس نے اس فہرست میں جگہ بنائی ہے۔