ہمارا تعلیمی نظام تکثیری اقدار پر مبنی ہونا چاہئے: سید سعادت اللہ حسینی
امیر جماعت اسلامی ہند کا قدروں کا انجذاب (Internalization of Values ) کے عنوان پر منعقدہ مشاورتی اجلاس میں صدارتی خطاب
نئی دہلی،03مارچ:۔
”ہمارا سماج اور ہمارے اقدار تکثیریت پر مبنی ہیں، اس لیے ہمارے تعلیمی نظام میں مختلف مذاہب و نظریات کے حاملین ان قدروں کو پڑھائیں۔ البتہ اقدار کے قبول و رد کی بنیادی آزادی بھی طلباءکو حاصل رہنا چاہئے اور سرپرستوں کو یہ مکمل اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ وہ جن اقدار کو چاہیں اختیار کریں۔اس کی اجازت ہمیں آئین کی دفعہ 29 دیتی ہے۔“ مذکورہ خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے ” قدروں کا انجذاب (Internalization of Values ) کے عنوان پر مرکز جماعت ،نئی دہلی میں منعقدہ مشاورتی اجلاس میں اپنے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کیا۔م امیر جماعت نے اقدار کے چار ذرائع ’عالمی اقدار ،آئینی اقدار،سماجی اقدار اور مذہبی اقدارکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ” مغربی یورپی ممالک تعلیم میں اقدار کی تائید کرتے ہیں جبکہ برطانیہ تکثیری اقدار کا قائل ہے۔البتہ ہندوستان میں تکثیری اقدار والا ماڈل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ماڈل اسکول کو سماج سے جوڑتا ہے ،تاہم یہ احساس بھی رہے کہ معلم کے کردار کو اس میں شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے“۔امیر جماعت نے کہا کہ ” جہاں اس ماڈل میں اقدار کے سلسلے میں ابن سینا کے نظریے کو پیش کیا گیا، وہیں امام غزالی کے ماڈل کو بھی شامل کیا جانا چاہیے ۔ موجودہ ماڈل کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ یہ ترجیحی اقدار کو منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے“۔
اس موقع پرسید تنویر احمد ڈائرکٹر مرکزی تعلیمی بورڈ نے مسودہ کا تعارف کراتے ہوئے اقدار کے سلسلے میں ابن سینا کا ماڈل پیش کیااور کہا کہ” ابن سینا کا ماننا ہے کہ اگر اخلاق پیدا کرناہے تو پہلے کردار کا تعارف کرایا جائے پھر اس کو عقیدہ سے جوڑ کر دیکھیں ،جب کردار، عقیدہ سے جڑ جائے تو انسان کے اندر شوق پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس میں شدت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد انسان اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے“۔ اجلاس میں شریک پروفیسر ارشد اکرام نے کہا کہ” موجودہ ماڈل کو دو سطحوں پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ایک اسکولی سطح پردوسرے غیر اسکولی سطح پر ۔ دونوں سطحوں پر پرنسپل، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ ایک نمایاں نمونہ پیش کریں“۔ پروفیسر اعجاز مسیح نے کہا کہ اقدار کے نفاذ کے لیے علیحدہ نصاب کی ضرورت نہیں بلکہ موجودہ نصاب ہی سے اقدار کی تعلیم دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اقدار کی تعلیم کے دو ذرائع ہوسکتے ہیں ۔آئینی اقدار اورروحانی و مذہبی اقدار ۔ موجودہ سیاسی پس منظر میں موجودہ ماڈل اس بات کی جانب رہ نمائی کرے کہ وہ تکثیری سماج کی نمائندگی کرتا ہو۔اجلاس میں شریک دیگر دانشوروں اور ماہرین تعلیم نے بھی اظہار خیال کیا اور مسودے کو جلا بخشنے کے لئے اپنے قیمتی مشورے دیئے۔ پروگرام کا آغاز مولانا انعام اللہ فلاحی کی تذکیر بالقرآن سے ہوا۔محمد سلیم اللہ خان (معاون سکریٹری مرکزی تعلیمی بورڈ)نے تمام شرکاءکا استقبال کیا اور نظامت کے فرائض سعادت حسین خلیفہ نے انجام دیے۔