گیان واپی مسجد معاملہ :سپریم کورٹ نےاے ایس آئی کو سروے کی اجازت دی، مسلم فریق کی عرضی خارج
نئی دہلی،05اگست :۔
گیان واپی مسجد کا تنازعہ بھی بابری مسجد کے مثل آگے بڑ ھ رہا ہے ۔سارا معاملہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نیچے سے اوپر تک کی عدالتیں حکومت کے سیٹ کردہ منصوبہ کے مطابق فیصلے سنا رہی ہیں ۔تازعہ معاملہ میں اے ایس آئی کے سروے کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ پہنچے مسلم فریق کو جھٹکا لگا ہے ۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے اے ایس آئی کو گیانواپی مسجد کمپلیکس کا سائنسی سروے کرنے کی اجازت دینے کے معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے سروے کو چیلنج کرنے والی مسلم فریق کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ سروے کے لیے ہائی کورٹ کے حکم میں سپریم کورٹ کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے اور ایسا سروے ایودھیا میں بھی کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے کہاکہ “ضلع جج نے اے ایس آئی کو سائنسی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہائی کورٹ کو اس نوعیت کے عبوری حکم سے نمٹنے کے دوران قانونی پوزیشن کے تعین میں مداخلت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ملتی۔ ہائی کورٹ نے کچھ تحفظات متعارف کرائے ہیں۔ ہم عدالت کی طرف سے مقرر کردہ کمیشن کی نوعیت اور دائرہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ سے اختلاف کرنے سے قاصر ہیں۔”
عدالت نے اے ایس آئی کی اس یقین دہانی کا بھی نوٹس لیا کہ کسی قسم کی کھدائی یا املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے کہا، "ہائی کورٹ نے ہمارے خیال میں، ڈسٹرکٹ جج کے حکم کو محدود کرتے ہوئے کچھ ہدایات جاری کرنے کے لیے درست کہا تھا۔ اے ایس آئی نے واضح کیا ہے کہ نہ تو کھدائی ہوگی اور نہ ہی املاک کو تباہ کیا جائے گا۔
عدالت نے حکم دیا کہ اے ایس آئی سائنسی طریقوں سے سروے کرے۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ جگہ پر کھدائی نہ کی جائے۔
آرڈر میں کہا گیا ہے، "ہم ہدایت دیتے ہیں کہ اے ایس آئی کا پورا سروے اے ایس آئی کے ذریعہ اپنائے گئے غیر آکرامک (یعنی بغیر کسی چیز کو نقصان پہنچائے ہوئے ) طریقہ سے مکمل کیا جائے۔ ہم ہائی کورٹ کے حکم کو دہراتے ہیں کہ اس جگہ پر کوئی کھدائی نہیں کی جائے گی۔ اے ایس آئی سروے رپورٹ کو ہائی کورٹ کو واپس بھیجا جائے گا اور اسے کیس کی سماعت کے لیے پیش کیا جائے گا۔عدالت نے کہا، اے ایس آئی کی رپورٹ سیل بند لفافے میں ہونی چاہیے۔