نور اللہ جاوید، کولکاتا
کنبھ میلہ؛ یوپی میں تبدیلی مذہب قانون کے باوجود اجتماعی گھرواپسی کا اعلان، چہ معنی دارد؟
شدھی تحریک کے بالمقابل تجربات اور طریقہ ہائے کار کو پھر سے مؤثر انداز میں اختیار کرنا ممکن
’’گھرواپسی مہم ‘‘تاریخی تناظر میں کوئی نئی مہم نہیں ہے بلکہ 20ویں صدی کے آغاز میں شدھی اور سنگھٹن تحریک کی ہی ایک شکل ہے۔اس لئے شدھی تحریک کی ناکامی اور بھارت کی سماجی و معاشرتی زندگی پر اس طرح کی منفی تحریک کے عدم اثرات اور مسلمانوں کے ذریعہ اس تحریک کا مثبت و جرات مندانہ مقابلہ کی پوری تاریخ کے تناظر میں یہ طے شدہ امرہے کہ ”گھرواپسی “ جیسی منفی مہم کو بھی ناکامی اور نامرادی کا سامنا کرنا ہوگا۔اس مہم کے علمبردارکیلئے ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔یہ کوئی بڑ پولا پن یا پھر حقائق سے آنکھ موندنا نہیں ہے بلکہ ”شدھی تحریک“ کی پوری تاریخ اور اس کے ادوار کا جائزہ لینے کے بعد جو حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس تحریک کی پوری عمر 20سے 30سال ہے۔اس پوری مدت میں اس تحریک کو کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی اور اکّا دکّا گھرواپسی کے علاوہ کہیں پر بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کی گھرواپسی نہیں ہوئی۔چناں چہ انہیں ناکامی و نامرادی کا سامنا کرنا پڑا تو اس تحریک کے علمبرداروں نے مقدس مذہبی شخصیات بالخصوص محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بزعم خویش کردارکشی کی کوشش کی اور دریدہ دہن ایک پنڈت جس کانام بھی ان سطور میں نہیں لکھا جاسکتا ہے اس نے نعوذبااللہ ”رنگیلارسول“نامی انتہائی بکواس، اشتعال انگیز اور جھوٹ پر مبنی ایک کتاب لکھی ۔دراصل یہ جنجھلاہٹ اور مایوسی کا نتیجے تھا۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انگریزی دور اقتدار میں عیسائی مشنریوں نے کچھ زیادتیاں کی ہیں مگر مسلمانوں نے تاریخ کے کسی بھی لمحے میں لالچ و فریب اور ظلم و جبر کے ذریعہ غیر مسلموں کو مسلمان نہیں بنایا ہے۔یہ مستشرقین کا پروپیگنڈہ رہا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے اور اسی پروپیگنڈے کو برہمن زادوں نے من و عن قبول کرلیا اور اس کو آگے بڑھایا۔بھارت میں مسلمانوں نے 700برس حکومت کی اور اس پورے عرصے میں جبری تبدیلی مذہب کے سلسلے میں کسی بھی قسم کے تاریخی شواہد ان کے پاس موجود نہیں ہیں۔بلاشبہ مسلمانوں کی تعلیمات بالخصو ص ہندوؤں کے طبقاتی نظام اور ذات پات پر مبنی معاشرتی سسٹم سے مایوس ہوکر سماجی انصاف، برابری اور انسانی وقار کی بحالی کیلئے بڑی تعداد میں بھارت میں ہندوؤں نے اسلام قبول کیا اور یہ فرد کی آزادی ہے۔
حالیہ برسوں میں بالخصوص 2014کے بعد بھارت میں ”ہندوتو“ کے عروج کا یہ دور ہے۔اس عروج نے سماج کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔تاہم ایک دہائی بعد بھی ہندوتو جو اپنے آپ کو ایک نظام اور نظریہ کا علمبردار ہونے کا دعویدار ہے اور وشو گرو بننے کا خواب بھی دیکھتا ہے مگر وہ انسانیت کی فلاح و بہبود اورسماجی انصاف اور انسانی اقدار کیلئے کوئی مؤثر پیغام دینے میں ناکام رہا ہے۔اس کے پاس ایسا کوئی بہترین پیغام یا تعلیمات نہیں ہیں جن سے متاثر ہوکر حساس دل ہندو ازم کے مطالعے کی جانب راغب ہوسکے۔جنگ و جدل ، منفی مہم ، دیگر مذاہب کے تئیں عدم تحفظ کے احساسات کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ رواں مہینے 13جنوری سے شروع ہونے والا ”مہا کنبھ میلہ “کو بھی منفی بنادیا گیا ہے۔اگلے چالیس دنوں تک جاری رہنے والے اس مذہبی اجتماع میں ایک اندازے کے مطابق 40کروڑ سے زائد افراد شرکت کریں گے۔شاید یہ دنیا کاسب سے بڑا مذہبی اجتماع ہے۔بعض افراد اس کا حج سے موازنہ کرتے ہیں تاہم اس کنبھ میلہ اور حج کے درمیان بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کے علاوہ کوئی دوسری چیز وجہ مماثل نہیں ہے۔کنبھ میلہ کی اپنی تاریخ ہے اور ہندوازم کی اپنی میتھولوجی ہے۔اس وقت گنگا اشنان کے عقائد کا معروضی جائزہ لینا مقصود بھی نہیں ہے۔تاہم کوئی بھی اجتماع چاہے وہ مذہبی ہو یا سیاسی یا پھر معاشرتی اگر اجتماع کا مقصدمثبت پیغام اور انسانیت کی فلاح و بہبود اور صحیح رخ میں رہنمائی کرنا نہیں ہے تو پھروہ اجتماع صرف بھیڑ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔چنانچہ اتنا بڑا انسانی اجتماع بھارت میں سماجی و معاشرتی اثرات قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس کیلئے قصور وار کوئی نہیں بلکہ اجتماع کے آرگنائزر ، مذہبی شخصیات ہیں ۔وہ اس میلہ کے روحانی اور اخلاقی پہلو کو دنیا کے سامنے رکھنے کے بجائے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔کنبھ جیسے عظیم الشان انسانی اجتماع کو منفی پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔
یہ دعویٰ کیا جارہا ہے اس میلے میں سیکڑوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی گھرواپسی کرائی جائے گی۔یہ اعلان اس ریاست میں کیا جارہا ہے جہاں تبدیلی مذہب مخالف قانون اس قدر سخت ہے کہ کوئی فرد تبدیلی مذہب کرنا چاہتا ہے تو اس کو ایک مہینے قبل مجسٹریٹ سے اجازت لینی ہوگی، مجسٹریٹ اورپولس انتظامیہ کی اجازت کے بعد ہی کوئی فرد تبدیلی مذہب کرسکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہندو تنظیموں نے تبدیلی مذہب کیلئے حکومت کی اجازت لی؟ اترپردیش تبدیلی مذہب مخالف قانون اس طرح کی اجتماعی تبدیلی مذہب کرانے کی اجازت دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ قانون میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔سوال یہی ہے کہ قانون میں اس کی کوئی اجازت نہیں ہے تو پھر حکومت اورپولیس کارروائی کیوں نہیں کررہی ہے۔پولیس اور حکومت کی خاموشی کا صاف اور واضح پیغام ہے کہ یہ سب حکومت اور حکمرانوں کی اجازت اور انہی کی سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔قانون کی حکمرانی کے دعویداروں کایہ اصلی چہرہ ہے اور واضح منافقت ہے۔
سوال یہ ہے کہ گھرواپسی کے شکار کون لوگ ہوتے ہیں ؟ یہ لوگ گھرواپسی کیوں کرتے ہیں ۔گھرواپسی کے ذریعہ کس طرح فریب دیاجاتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال آسام میں حال ہی میں ایک مسلم جوڑے کے ارتداد کا واقعہ ہے۔آسام کے گوہاٹی شہر کے قریب سونا پور کے ڈیمریا کے کچوتالی علاقے میں بجرنگ دل کی سرپرستی میں ایک مسلم جوڑے جن کی شناخت حافظ علی اور رضوانہ بیگم کے طور پر ہوئی ہے۔ انہوں نے دیمریا کے ایلینگا میں واقع ہری کرشنا مندر میں ہندو مذہب اختیارکرلیا۔مگر ہندو مذہب اختیار کرنے کے بعد اس جوڑے کو جو نام دیا گیا اس کے بعد ایک نیا تنازع شروع ہوگیا ہے۔اس جوڑے کانام راہل بوروا اوربھومیکا بوروا رکھا گیا ہے۔بوروا ایک قبائلی طبقہ ہے اور یہ اپنے آپ کو ہندو نہیں سمجھتے ہیں ۔چناں چہ اس جوڑے کا بوروا نام رکھے جانے پر بوروا قبیلہ انتہائی ناراض اور سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔اس کو قبائلیوں کے خلاف بجرنگ دل اور آر ایس ایس کی سازش قرار دیا جارہا ہے۔بوروا برادری کی مختلف جماعتوں اور تنظیموں کے رہنماؤں نے اس واقعے کے لیے آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ایسی تبدیلیوں کے ذریعے قبائلی علاقوں کی زمینوں پر قبضے کی سازش کی جا رہی ہے۔بوروا برادری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان لڑکوں کو ہندو بنانے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن انہیں آر ایس ایس اور بجرنگ دل کو اس جوڑے کو بوروس بنانے کا حق کس نے دیا؟ ہم ہندو نہیں ہیں، ہم قبائلی ہیں۔ ہمارا مذہب بورو یا باٹھو ہے۔ ہمارے مذہب میں کوئی تبدیلی کے ذریعہ نہیں آسکتا ہے۔ہمارے مذہب میں پیدا ہونا ضروری ہے۔کیا ہمارا بورو معاشرہ ایک کوڑا دان ہے جسے کوئی چاہے تو ہمارے مذہب میں پھینک سکتا ہے؟ اگر آپ ہمارے مذہب کا رکن بننا چاہتے ہیں تو آپ کو ہمارے خاندان میں پیدا ہونا ہوگا۔ یہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کی طرف سے مذہب تبدیل کرنے کی سازش ہے۔ ہماری ڈیمریا بورو برادری آر ایس ایس بجرنگ دل کی اس سازش کی شدید مذمت کرتی ہے۔ آر ایس ایس بجرنگ دل ہمارے قبائلی علاقوں کی زمین پر قبضہ کرنے کی سازش ہے۔ اگر انھوں نے انھیں ہندو مذہب میں شروع کیا ہے تو انھیں ہندو لقب کیوں نہیں دیا؟ بورو کا لقب کیوں دیا گیا؟بورو کا لقب دینے کی وجہ کچوتالی کے قبائلی پٹی کے زمین کو چھیننا ہے۔ہم یہ کبھی قبول نہیں کریں گے۔
دھوکہ اور فریب کے ذریعہ مسلم جوڑے کی تبدیلی مذہب کا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ۔دو سال قبل بی بی سی ہندی نے مظفر نگر اور میرٹھ کے دو خاندانوں سے بات کی تھی جنہوں نے بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشدکی ترغیب پر ہندو مذہب اختیار کرلیا تھا۔بی بی سی ہندی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ تبدیلی مذہب کرانے کے بعد انہیں بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے۔تبدیلی مذہب کی وجہ سے وہ پہلے ہی اپنے سماج اور معاشرہ سے کٹ چکے ہیں مگر اب ہندو تنظیموں نے بھی ساتھ چھوڑدیا ۔آسام کا واقعہ اور یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ گھرواپسی کے پیچھے مقصد صرف پروپگینڈہ اور برتریت ثابت کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے عزائم اورمقاصد کو بے نقاب کیا جائے۔ہندتو کی تنظیمیں صرف اسلام اور عیسائیت کے خلاف محاذ آرائی نہیں کررہی ہے بلکہ بدھ، جین اور دیگر ہندوستانی مذاہب کے خلاف بھی سازش میں ملوث ہے اس کو اپنے میں ضم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔شدھی تحریک نے بھارت کی روح کو سخت نقصان پہنچایا اور اس تحریک کی شروعات کے بعد سے ہی بھارت میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ شروع ہوا ۔یہ بات حکمرانوں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
گھر واپسی مہم کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ گھر واپسی مہم جیسی سازش سے زیادہ خو ف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پاس شدھی تحریک کا مقابلہ کرنے کا تجربہ ہے ۔اس تجربے کی روشنی میں ہم نہ صرف اپنے بھائیوں کے ایمان کی حفاظت کرسکتے ہیں بلکہ برادران وطن کے سامنے پیغام بھی پیش کرسکتے ہی ۔مگر مکمل بے خبری اور حقائق سے منھ موڑنا بھی ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ہمیں نہ صرف باخبر رہناہے بلکہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ایمان کی حفاظت کرنی ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ آخر جولوگ ہندوتو تنظیموں کا شکار ہورہے ہیں کیا ہم نے ان تک پہنچنے کی کوشش کی ہے؟ آج ہمارے پاس بڑی تعداد میں تنظیمیں اور ادارے ہیں اس کے باوجود اگر ایک مسلمان ارتداد کاشکار ہوتا ہے تو ہمارے لئے یہ کسی المیے سے کم نہیں۔مسلم خواتین بالخصوص کالجوں اور دیگر مخلوط اداروں میں پڑھنے والی مسلم طالبات سے متعلق کئی طرح کی رپورٹیں آرہی ہیں کہ وہ ریورس لو جہاد کا شکارہورہی ہیں۔کئی لوگ اعداد و شمار بھی پیش کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اعداد و شمار کہاں سے آئے ہیں ۔کیا کسی مسلم تنظیم اور ادارے نے علاقائی سطح پر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کی ہے۔اس کے بغیر کوئی صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر دعویٰ کیسے کرسکتا ہے کہ مسلم خواتین بالخصوص مسلم طالبات اتداد کا شکارہورہی ہیں ۔ممکن ہے کہ یہ بھی ایک کوشش ہے کہ تعلیمی نظام سے مسلمانوں کو باہر کردیا جائے ۔نفسیاتی خوف سے نکل کر ایک باخبر شہری بننے کی ضرورت ہے۔ان ہندو تنظیموں کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو سماجی و معاشرتی اور اقتصادی طور پر کنارے لگادیا جائے اور اس کیلئے ہرسطح پر کام کیا جارہا ہے ۔کنبھ میلہ میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی جو اپیل کی جارہی ہے وہ سب اسی مہم کا حصہ ہیں ۔
***
***
سب سے اہم بات یہ ہے کہ گھر واپسی مہم جیسی سازش سے زیادہ خو ف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پاس شدھی تحریک کا مقابلہ کرنے کا تجربہ ہے ۔اس تجربے کی روشنی میں ہم نہ صرف اپنے بھائیوں کے ایمان کی حفاظت کرسکتے ہیں بلکہ برادران وطن کے سامنے پیغام بھی پیش کرسکتے ہی ۔مگر مکمل بے خبری اور حقائق سے منھ موڑنا بھی ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ہمیں نہ صرف باخبر رہناہے بلکہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ایمان کی حفاظت کرنی ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ آخر جولوگ ہندوتو تنظیموں کا شکار ہورہے ہیں کیا ہم نے ان تک پہنچنے کی کوشش کی ہے؟ آج ہمارے پاس بڑی تعداد میں تنظیمیں اور ادارے ہیں اس کے باوجود اگر ایک مسلمان ارتداد کاشکار ہوتا ہے تو ہمارے لئے یہ کسی المیے سے کم نہیں۔مسلم خواتین بالخصوص کالجوں اور دیگر مخلوط اداروں میں پڑھنے والی مسلم طالبات سے متعلق کئی طرح کی رپورٹیں آرہی ہیں کہ وہ ریورس لو جہاد کا شکارہورہی ہیں۔کئی لوگ اعداد و شمار بھی پیش کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اعداد و شمار کہاں سے آئے ہیں ۔کیا کسی مسلم تنظیم اور ادارے نے علاقائی سطح پر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کی ہے۔اس کے بغیر کوئی صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر دعویٰ کیسے کرسکتا ہے کہ مسلم خواتین بالخصوص مسلم طالبات اتداد کا شکارہورہی ہیں ۔ممکن ہے کہ یہ بھی ایک کوشش ہے کہ تعلیمی نظام سے مسلمانوں کو باہر کردیا جائے ۔نفسیاتی خوف سے نکل کر ایک باخبر شہری بننے کی ضرورت ہے۔ان ہندو تنظیموں کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو سماجی و معاشرتی اور اقتصادی طور پر کنارے لگادیا جائے اور اس کیلئے ہرسطح پر کام کیا جارہا ہے ۔کنبھ میلہ میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی جو اپیل کی جارہی ہے وہ سب اسی مہم کا حصہ ہیں ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024