گنگا جمنا اسکول:اسکول کی خواتین اساتذہ نے جبراً تبدیلی مذہب کے الزام کی پر زور تردید کی
انیتا خان(انیتا یدوونشی)پراچی جین اور افشاں شیخ(پریتی) نے کلکٹریٹ پہنچ کر بتائی اپنی تبدیلی مذہب کی کہانی،میڈیا کے الزامات کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا
نئی دہلی ،09جون :۔
مدھیہ پردیش میں گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول میں حجاب میں ہندو طالبات کی تصویر وائرل ہونے کا معاملہ ختم نہیں ہو رہاہے ۔آئے دن اس معاملے میں نئے نئے واقعات جڑتے جا رہے ہیں۔دائیں بازو کی ہندو شدت پسند تنظیموں کی ہنگامہ آرائی کے بعد شیو راج سرکار نے اسکول انتظامیہ کے خلاف سخت قدم اٹھایا اور جانچ کا حکم جاری کیا لیکن ناراض بی جے پی کے ہی کارکنان نے تفتیشی افسران کے ساتھ بد سلوکی کی اور ان کے اوپر سیاہی پھینک کر ناراضگی کا اظہار کیا ۔
حجاب تنازعہ کے درمیان گزشتہ روز اسکول انتظامیہ پر ہندو خواتین استانیوں کی تبدیلی مذہب کا الزام بھی عائد کیا گیا اور اس سلسلے میں بے بنیاد طریقے سے اسکول انتظامیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ۔اب اس تبدیلی مذہب کے معاملے میں وہ تین استانیاں بھی میڈیا کے سامنے آئی ہیں اور انہوں نے میڈیا میں چل رہی تبدیلی مذہب کے خبروں کی تردید کرتے ہوئے اسکول انتظامیہ کے اپنی تبدیلی مذہب سے تعلق کو بے بنیاد قرار دیا ہے ۔ان تینوں خواتین اساتذہ نے اسکول پرنسپل پر عائد کئے گئے جبراً تبدیلی مذہب کے الزام کی نہ صرف تردید کی بلکہ انہوں نے اسے اپنی ذاتی مرضی بتایا ۔اسکول کی تین خواتین ‘ہندو’ ٹیچرز نے اپنی تبدیلی اور مسلمان مردوں کے ساتھ اپنی شادی کی کہانی بیان کی ہے۔
خواتین اساتذہ نے میڈیا میں اپنے نام لیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تینوں اساتذہ کی شناخت انیتا خان (انیتا یدوونشی )،افشاںشیخ ( پریتی سریواستو) اور پراچی جین کے طور پر کی گئی ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھااورمسلمان مردوں سے شادی بھی کی تھی اور یہ واقعہ ا سکول کی تعمیر سے بہت پہلے کا ہے ۔ اس وقت اس اسکول کا وجود بھی نہیں تھا اور ہمارے تبدیلی مذہب کا اس اسکول سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
انیتا خان (انیتا یدو ونشی) نے میڈیا کے سامنے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے میرا نام انیتا یدوونشی تھا اور اب میرا نام انیتا خان ہے۔ میں نے 2013 میں شادی کی اور 2021 میں اسکول جوائن کیا۔ اسکول کے پرنسپل حاجی محمد ادریس سر کا اس تبدیلی میں کوئی کردار نہیں ہے اور انہیں غیر ضروری طور پر اس میں گھسیٹا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اخبار نے چائلڈ ڈویلپمنٹ کمیٹی کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ حاجی صاحب نے ہمارا مذہب تبدیل کرایا۔ میں نے کسی کمیٹی کو کوئی بیان نہیں دیا اور یہ سب جھوٹ ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس سب میں میرا نام اور اسکول کا نام کیوں گھسیٹا جا رہا ہے۔
دوسری ٹیچر پراچی نے کہا کہ پہلے میرا نام پراچی جین تھا۔ میں نے 27 جنوری 2004 کو اپنی مرضی سے اور بغیر کسی دباؤ کے شادی کی۔ میڈیا اس سارے معاملے میں بلا ضرورت اسکول کا نام لے رہا ہے اور حاجی صاحب کا اس میں کسی قسم کا کوئی دخل نہیں ہے کیونکہ میرا نکاح 2004 میں ہوا تھا اور اسکول 2012 کو کھلا تھا اس کے بعد میں نے اسکول جوائن کیا۔ میں نے اپنی مرضی سے شادی کی اور میرے دو نوعمر بچے بھی ہیں۔
تیسری ٹیچر پریتی کہتی ہیں کہ میڈیا میں چل رہے تبدیلی مذہب کے یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ اسکول 2012 میں کھلا تھا اور میری شادی 2000 میں ہوئی تھی۔ میری ایک 21 سالہ بیٹی ہے۔ اسکول کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے بالغ ہونے کے بعد اپنی مرضی سے نکاح کیا۔ آئین مجھے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کا حق دیتا ہے۔
واضح رہے کہ گنگا جمنا اسکول میں ہندو شدت پسندوں کے ذریعہ جبری تبدیلی مذہب کے الزامات عائد کرنے بعد تینوں خواتین اپنے معاملے کی وضاحت کے لیے کلکٹریٹ پہنچیں تھی۔