گزشتہ سے پیوستہ: قرآن پر ایک معترض کے اعتراضات کے جوابات

لا اکراہ فی الدین اور جزیہ والی آیات میں کوئی تضاد نہیں

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

اسلامی مملکت میں مسلم شہریوں سے زکوٰۃ اور غیرمسلمین سے جزیہ وصول کیا جاتا ہے
۱۲۔کیا دین میں زبردستی ہے؟
لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۔۔دین کے معاملے میں کوئی زور و زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔سورۃ البقرۃ ۲۵۶۔
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ۔جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔(ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں چھوٹے اور بن کر رہیں۔( سورۃ التوبہ ۲۹)
کیا ان دوآیتوں میں تضاد نہیں ہے؟
جواب:
سورۃ البقرۃ ۲۵۶میں ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے اور سورۃ التوبہ کی آیت ۲۹میں اس حالت کو بیان کیا جارہا ہے کہ جب ایک مسلم مملکت کی فوج کسی غیر مسلم ملک کو تلوارکے زورسے فتح کرے تو اس ملک کے لوگوں کو مکمل آزادی دی جائے گی کہ چاہے تو اسلام قبول کریں یا اپنے آبائی دین پر قائم رہیں ۔اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے یعنی اللہ اوریومِ آخر پر ایمان نہیں لاتے تو ان کو مفتوحہ علاقوں میں اپنے اپنے مکانوں میں شہری بن کر رہنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ شہریت کی شرط یہ رکھی گئی کہ وہ لوگ جزیہ دیں ۔ایک اسلامی مملکت میں جیسے مسلمان شہریوں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے اسی طرح غیر مسلموں سے ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کو جزیہ کہتے ہیں۔ آج بھی ہم کسی بھی ملک میں رہتے ہوں تو وہاں ٹیکس کے قوانین کو ماننا لازمی ہوجاتا ہے ۔ٹیکس ادا نہ کرنا ملک سے بغاوت کے مترادف ہوتا ہے ۔غیر مسلم سے جزیہ وصول کرنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک مسلم مملکت میں کسی غیر مسلم کو مجبور نہیں کیا جائے گاکہ وہ اسلام قبول کرے۔ان آیات میں تضاد نہیں ہے۔
قرآن میں بتلایا گیا ہے کہ کب اور کن صورتوں میں ایک مسلم مملکت دوسری غیر مسلم مملکت پر حملہ کرسکتی ہے۔اس طرح کے حملہ کا جواز اس وقت ہوتا ہےجب کسی ملک میں عوام پر ظلم ہورہا ہو(سورۃ النساء ۷۵)یا فتنہ کی کیفیت رونما ہو(سورۃ البقرۃ۱۹۳)۔فتنہ سے مراد ایسا ماحول ہے جس میں لوگوں کو آزادی فکر وعمل نہ ہو اور جبر و استبداد کا نظام قائم ہو ۔
۱۳۔مسلم، غیر مسلموں کے ساتھ کیا معاملہ کریں ؟ معاف کریں یا جنگ کریں ؟
قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لا يَرْجُون أَيَّامَ اللَهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِما كَانُوا يَكْسِبُونَ ۔ اے نبیؐ،ایمان لانے والوں سے کہہ دو کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے بُرے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے ان کی حرکتوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے۔ (سورۃ الجاثیہ ۱۴)
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ۔ جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتےاور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتےاور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔(ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں چھوٹے بن کر رہیں۔سورۃ التوبہ ۲۹۔
کیا ان دونوں آیات میں تضاد نہیں ہے؟
جواب:
ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔سورۃ الجاثیہ مکی دورِ نبوت میں نازل ہوئی ہےجب مسلمان مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں ستا ئے جارہے تھے ۔اس وقت مسلمانوں سے کہا جارہا ہےکہ ان سے اللہ ہی نمٹ لے گا ،مسلمان ان کی حرکتوں پر انتقام نہ لیں بلکہ درگزر کریں ۔
سورۃ التوبہ مدنی سورت ہے جب مکہ فتح ہوچکا تھا اور اس کے بعد فتوحات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ۔اس وقت غیر مسلم فوج سے کہا جارہاہے کہ چاہے تو وہ جنگ کریں یا پھر ہتھیار ڈال کر مسلم مملکت میں شہری بن کررہیں ۔ غیر مسلم لوگ اسلامی مملکت کے اندر شہری بن کر رہ سکتے ہیں ۔تاریخ شاہد ہےکہ جن ملکوں کو مسلمانوں نے فتح کیا تھا ان ممالک کی غیر مسلم آبادی مسلم حکم رانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر اطمینان کا سانس لیا اور بیشتر لوگوں نے اسلام قبول کیا ۔جب ہم غیر مسلم فتوحات کی تاریخ کو پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جس ملک میں ان کے فوجی جاتے وہاں قیامت برپا کرتے بچوں ،عورتوں ،بیماروں اور بوڑھوں کو بھی قتل کرتے ،عورتوں کی عصمتوں کو پامال کرتے ،لوگ سمیت گھروں کو جلا دیتے ،کھیتوں کو برباد کرتے یہاں تک کہ مویشیوں کو بھی ہلاک کردیتے۔اس کے مقابلے میں اسلام نے جنگوں کو بھی مہذب بنایا اور سوائے لڑاکوں combatants کے کسی پر دست درازی کی اجازت نہیں دیتا۔اسی لیے مسلم فوج جب کسی ملک پر چڑھائی کرتی تو وہاں کے حکم رانوں سے کہا جاتا کہ یاتو لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ یا پھر ہتھیار ڈال کر شہر ی بن جاؤ۔ وفادار شہری بننے کی علامت یہ رکھی گئی کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ ٹیکس کی صورت میں ادا کریں جس کو جزیہ کہا جاتا ہے۔مسلم شہریوں سے زکوٰۃ لی جاتی ہے اور جو زکوٰۃ دینے سے انکارکرتے ہیں ان پر بھی مملکت سےبغاوت کا مقدمہ چلے گا۔
۱۴۔گناہوں کو کون معاف کرنے والا ہے؟
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ۔اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ (سورۃ آل عمران ۱۳۵)
اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔انہیں بتاو کہ ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔ اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً وہ اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔ (سورۃ آل عمران ۶۴)
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ۔ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔ (سورۃ الاحزاب ۳۶)
کیا اوپر کی دوآیا ت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ رسول کے پاس معاف کرنے کے اختیارات ہیں ؟کیا یہ تضاد نہیں ہے؟
جواب:
یہ تضاد بالکل نہیں ہے ۔سورۃ آل عمران آیت ۶۴ میں بتلایا گیا ہے کہ اگر گناہ کرنے والے رسول کے پاس آتے اور رسول سے خواہش کرتے کہ وہ اللہ سے ان کے حق میں معافی کی درخواست کرتے تو اللہ کو رحم کرنے والا پاتے۔اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ رسول کے پاس معافی کے اختیارات ہیں ۔محمد ﷺ اللہ سے سفارش کرسکتے ہیں کہ اللہ ان کے گناہ معاف کرے۔جبکہ سورۃ التوبہ آیت ۸۰ میں رسول اللہ ﷺ سے خطاب کرکے فرمایا گیا کہ ان منافقوں کے حق میں اگر تم ستر مرتبہ بھی اللہ سے معافی کی درخواست کروگے تو بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔سورۃ الاحزاب آیت ۳۶میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکے بارے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کو معاف کرنے کا اختیار دیا گیا ہے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ کی نافرمانی دراصل اللہ کو ناراض کرنے کا سسب بنے گی اس لیے کہ رسول کی نافرمانی دراصل اللہ کی نافرمانی ہے ۔
۱۵۔پہلا مسلمان کون ہے؟محمدﷺ یا موسیٰ علیہ السلام؟
مزید یہ کہ ابراہیم علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کو بھی مسلم کہا گیا ہےجبکہ اسلام تو ۱۴۰۰سال سےقبل نہیں تھا۔
وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ ۔اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مُسلم بنوں۔ (سورۃ الزمر ۱۲)
قُلْ أَغَيْرَ اللهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلاَ يُطْعَمُ قُلْ إِنِّيَ أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكَينَ ۔کہو، اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنالوں؟ اُس خدا کو چھوڑ کر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے؟ کہو مجھے تو یہی حکم دی گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کروں اور (تائید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے) تُو بہرحال مشرکوں میں شامل نہ ہو۔ (سورۃ الانعام ۱۴)
لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ۔جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔(سورۃ الانعام ۱۶۳)
اوپر کی تین آیات میں محمدﷺ کے بارے میں ان سے کہلوایا گیا کہ وہ سب سے پہلے مسلم ہیں ۔
وَلَمَّا جَاء مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَـكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ۔جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ "اے رب، مجھے یا رائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں” فرمایا "تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا” چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰؑ غش کھا کر گر پڑا جب ہوش آیا تو بولا "پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں”۔ (سورۃ الاعراف ۱۴۳)
اس آیت میں موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہلوایا گیا کہ وہ سب سے پہلے مسلم ہیں ۔
کیا یہ تضاد نہیں ہے کہ ایک مرتبہ محمد ﷺ کو پہلامسلم کہا گیا اور دوسری جگہ موسیٰ علیہ السلام کو پہلا مسلم کہا گیا ۔پہلا مسلم آخر کون ہے؟
وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوبؑ اپنی اولاد کو کر گیا۔ اس نے کہا تھا کہ ”میرے بچو، اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے۔لہٰذا مرتے دم تک تم مسلم ہی رہنا۔“ (سورۃ البقرۃ ۱۳۲)
اس آیت میں یہ فرمایا گیا کہ ابراہیمؑ کی اتباع میں یعقوبؑ نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ تم مرتے دم تک مسلم یعنی اللہ کے فرماں بردار رہنا ۔
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللّهِ آمَنَّا بِاللّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ۔جب عیسٰی نے محسوس کیا کہ بنی اسرئیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا ’’کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہو تا ہے‘‘؟ حواریوں نے جواب دیا”ہم اللہ کے مدد گار ہیں ،ہم اللہ پر ایمان لائے، گواہ رہو کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکادینے والے )ہیں۔ (سورۃ آل عمران ۵۲)
وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُواْ بِي وَبِرَسُولِي قَالُوَاْ آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ ۔اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاو تب انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں“۔ (سورۃ المائدہ ۱۱۱)
اوپر کی دو آیات میں عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے کہا کہ ہم مسلم یعنی اللہ کے فرماں بردار ہیں ۔ان آیات میں ہر دور کے لوگ کیسے مسلم ہوسکتے ہیں ؟کیا یہ تضاد نہیں ہے؟
جواب : عربی میں مسلم کے معنی اللہ کے فرماں بردار کےہیں۔ اللہ ہی نے ہر دور میں رسول بھیجے اور اس کا بھیجا ہوا دین مختلف ادوار میں مختلف نہیں رہا بلکہ ایک ہی دین رہا ۔اس دین کا عربی میں نام ہے اسلام ۔جو اللہ کی فرماں برداری اختیارکرے اس کو مسلم کہا جاتا ہے ۔مسلم ہونا ایک صفت ہے ۔دوسرے مذاہب کی طرح اسلام کسی نسل یا علاقہ سے وابستہ نہیں ہے۔بلکہ یہ آفاقی اور ہرزماں و مکاں کا دین ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کائنات کی ہر شئے مسلم (فرماں بردار)ہےاس لیے کہ وہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق کام کررہی ہے : أَفَغَيْرَ دِينِ اللّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ ۔ اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کے طریقہ (دین اللہ) کوچھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چارو ناچاراللہ ہی کے تابع فرمان(مسلم)ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟ (سورۃ آل عمران ۸۳)
اسلام ہمیشہ اللہ کا نازل کردہ دین رہا ہے۔جب بھی کوئی رسول مبعوث ہوا اس نے آکر اپنی قوم میں کہا کہ سب سے پہلے میں اللہ کی فرماں برداری اختیار کرنے والا ہوں ۔یعنی ہر قوم میں رسول پہلا شخص ہوتا ہے جو اللہ کی فرماں برداری (مسلم ہونے) کا اعلان کرتا ہے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ملک کے سربراہ کی بیوی کو first lady کہا جاتا ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہی دنیا میں سب سے پہلی عورت ہے ۔
۱۶۔اللہ تعالیٰ نےاپنے چیلنج میں کتنی سورتوں کو بنا کر لانے کی بات کی ہے؟ایک یا دس؟
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ۔
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہو، ”اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سورة اس جیسی تصنیف کر لاو اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو“ (سورۃ یونس ۳۸)
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑلی ہے؟ کہو، "اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو تمہارے معبود ہیں ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو
کیا اس میں تضاد نہیں ہے؟
جواب :
اس میں تضاد نہیں بلکہ اس میں تدریج کا اصول ہے۔پہلی بار جب چیلنج دیا گیا تو دس سورتوں کو بناکرلانے کی بات کہی گئی ۔جب اس چیلنج کا جواب نہیں دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے چیلنج کو آسان کرتے ہوئے دوسری بار چیلنج کیا کہ قرآن جیسی کم از کم ایک سورت تو بنالاؤ۔
۱۷۔مرد اور عورت کے ملاپ کے بغیر کیسے اولاد ہوسکتی ہے؟
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ۔وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔سورۃ الانعام ۱۰۱۔
قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا ۝ قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا ۔ مریم نے کہا ’’میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں” فرشتے نے کہا”ایسا ہی ہوگا، تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ہو کر رہنا ہے۔“ (سورۃ مریم ۲۰، ۲۱)
پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کی شریک حیات ہی نہیں ہے تو اس کے ہاں کیسے بیٹا ہوگا۔دوسری آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ چاہے تو وہ بغیر مرد کے ہی ایک عورت کے ہاں بیٹا پیدا کرسکتا ہے۔کیا یہ تضاد نہیں ہے؟
جواب:
اللہ تعالیٰ نے سورۃ ۱۱۲ میں فرمایا کہ اللہ یکتا ہے اور اس جیسا کوئی نہیں ہے ۔وہ کسی کی اولاد نہیں ہے یعنی وہ پیدا نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کو کسی بیٹے کی ضرورت ہے ۔وہ بے نیاز ہے اور بے مثل ہے۔ اس چھوٹی سورت میں اللہ کی صفات کو پیش کرنے کے بعد اس کی توضیح میں فرمایا گیا کہ جیسے دنیا میں ایک آدمی کی بیوی ہوتی ہے اور اس بیوی سے اس کے ہاں اولاد ہوتی ہے،اللہ کو نہ ہی بیوی کی ضرورت ہے اور نہ ہی اولاد کی ۔چونکہ دوسرے مذاہب میں لوگوں کی گمراہی کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ انہوں نے خدا کو انسانوں پر قیاس کرکے اس کے لیے خاندان تجویز کیا ۔خدا کے لیے بیوی اور اولاد کا تصور پھیلایا ۔اس تصورکی نفی کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ کی ذات کو انسانوں پر قیاس نہ کیا جائے ۔ اس کو نہ ہی نسل چلانے کے لیے اولاد کی ضرورت ہے اورنہ ہی اولاد کے لیے بیوی کی ضرورت ۔
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے معجزہ کو پیش کیا ہے ۔جس طرح اس نے بغیر ماں باپ کے آدم کو پید اکیا ہے اسی طرح وہ بغیر باپ کے ماں کے پیٹ سے عیسی علیہ السلام کو پیدافرمایا اور اس کا ثبوت اس طرح بنی اسرائیل کے سامنے پیش کیا گیا کہ نوزائیدہ بچے نے خود بول اٹھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کر پیداکیا ہے ۔مزید یہ کہ عیسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے اور بھی معجزات دیے تاکہ بنی اسرائیل کو یقین ہوجائے کہ عیسیٰؑ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔لیکن ان معجزات کے باوجود بنی اسرائیل نے عیسیٰؑ کو جھٹلایا اور ان کی ماں مریم پر بہتان لگایا ۔
۱۸۔کیا اللہ بھولتا ہے؟
وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا ۔اے محمدؐ، ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اُترا کرتے۔ جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہر چیز کا مالک وہی ہے اور تمہارا ربّ بھولنے والا نہیں ہے ۔ (سورۃ مریم ۶۴)
قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ۔ موسیٰؑ نے کہا”اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھُولتا ہے۔“ (سورۃ طہٰ۵۲)
ان آیات میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ بھولتا نہیں ہے۔
الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُواْ اللّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ۔ منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ بُرائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔یہ اللہ کو بھول گئےتو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی فاسق ہیں۔ (سورۃ التوبہ ۶۷)
وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا وَمَأْوَاكُمْ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ ۔اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ "آج ہم بھی اسی طرح تمہیں بھلائے دیتے ہیں جس طرح تم اس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے تمہارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔(سورۃ الجاثیہ ۳۴)
کیا یہ تضاد نہیں ہے؟
جواب :
سورۃ مریم اور طہ کی آیات میں صاف طور پر بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرگز بھولتا نہیں ہے۔سورۃ التوبہ اور سورۃ الجاثیہ میں کہا ں لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھولتا ہے۔سورۃ التوبہ ۶۷ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جب منافق مرد اور عورتیں، اللہ کو بھول گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں نظر انداز کرکے انہیں گمراہیوں میں رہنے دیا۔ (سورۃ الجاثیہ ۳۴) میں فرمایا کہ جب آخرت برپا ہوگی اس وقت اللہ تعالیٰ انکارکرنے والوں سے مخاطب ہوکر فرمائے گا جس طرح تم نے اللہ سے ملاقات کو دنیا کی زندگی میں بھلا دیا تھا ،آج ہم تم کو نظر انداز کرتے ہیں اور اب تمہاری کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ان آیات سے یہ مطلب ہی نہیں نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھولتا ہے۔
معترضین کی طرف سےقرآن کی آیات میں ان ۱۸ اعتراضات کو پیش کرکے قرآنی آیات میں زبردستی تضاد ڈھونڈھنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔قرآن چودہ سال سے چیلنج کرتا آرہا ہے کہ اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو اس کے اندر تضاد اور اختلاف ہوتا ۔ نہ ہی قرآن کے مضامین کے اندر اختلاف ہے اور نہ ہی قرآن کی کوئی ایک آیت ثابت شدہ سائنسی حقائق کے خلاف پائی گئی ہے ۔ اسلام کی حقانیت کا سب سے طاقتور ثبوت قرآن کا منجانب اللہ ہونا ہے۔ہر گزرتا ہوا دن یہ ثابت کر رہا ہے کہ قرآن اللہ کا نازل کردہ کلام ہے جو ساری کائنات کا خالق ہے: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۔۔عن قریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ (سورۃ حم السجدہ ۵۳)
(ختم شد)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024