
گجرات میں یکساں سِول کوڈ کے خلاف عوامی مہم کا آغاز
یوسی سی کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی۔ اقلیتی رابطہ کمیٹی کا اعلان
احمد آباد: (دعوت نیوز نیٹ ورک )
گجرات میں اقلیتی رابطہ کمیٹی (MCC) نے حکومتِ گجرات کے مجوزہ یکساں سول کوڈ (UCC) کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے غیر آئینی اور مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ اس قانون کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کمیٹی نے ایک مہم کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت عوام مسڈ کال سروس یا QR کوڈ اسکین کر کے اس قانون کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کر سکتے ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے MCC کے مرکزی ترجمان مجاہد نفیس نے کہا کہ وہ ایک ہندوستانی شہری کی حیثیت سے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا:
"ہمارا آئین مذہب اور روایات سے جڑے قوانین کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ میں کسی بھی ایسی کوشش کی سخت مخالفت کرتا ہوں جو ان میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے، کیونکہ میں اپنے مذہبی اور خاندانی قوانین سے پوری طرح مطمئن ہوں۔”
انہوں نے وضاحت کی کہ آئین ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے عقائد اور ذاتی قوانین پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے آئین کے آرٹیکل 44 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ محض یکساں سِول کوڈ کی سفارش کرتا ہے، اسے لازمی قرار نہیں دیتا۔ انہوں نے اتراکھنڈ میں نافذ کردہ UCC پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ درحقیقت ہندو مذہبی قوانین کو دیگر برادریوں پر مسلط کرنے کی کوشش ہے، جو حقیقی معنوں میں یکساں سِول کوڈ نہیں کہلا سکتا۔
مجاہد نفیس نے گجرات میں مجوزہ UCC کے عملی اثرات پر بھی خدشات کا اظہار کیا اور سوال کیا کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، جبکہ 2006 کا گجرات میریج رجسٹریشن ایکٹ پہلے ہی شادی کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلاق اور نان نفقہ کے معاملات میں بھی موجودہ قوانین، جیسے گھریلو تشدد ایکٹ اور فوجداری ضابطہ فقرہ 125 (CrPC Section 125) پہلے ہی ان مسائل کا حل فراہم کرتے ہیں، تو پھر ایک نیا غیر ضروری قانون بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ UCC میں لو ان ریلیشن شپ (غیر رسمی ازدواجی تعلقات) یا خواتین کے نان نفقہ کے حقوق کے بارے میں کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ موجودہ قوانین پہلے ہی ان معاملات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، یہ قانون نئی پیچیدگیاں پیدا کرے گا اور عوام کے حقیقی مسائل حل نہیں کرے گا۔
"مسلم خواتین کو پہلے ہی جائیداد کے حقوق حاصل ہیں”
خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، مجاہد نفیس نے کہا کہ اسلامی قوانین میں خواتین کو صدیوں پہلے جائیداد میں حقوق دیے جا چکے ہیں، جبکہ ہندو قوانین میں یہ حقوق بہت بعد میں دیے گئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ UCC صرف نئی قانونی پیچیدگیاں پیدا کرے گا، خاص طور پر جائیداد کے معاملات میں، اور کوئی ٹھوس حل پیش نہیں کرتا۔ "UCC آئین کے آرٹیکل 25، 26، 28 اور 29 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو مذہبی آزادی کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ بجائے اس کے کہ یہ قانون قانونی تنازعات کو کم کرے، یہ مزید مسائل پیدا کرے گا، جیسا کہ اتراکھنڈ میں نافذ UCC کے بعد سامنے آنے والے مسائل نے ثابت کیا ہے۔
ان خدشات کے پیش نظر، اقلیتی رابطہ کمیٹی نے مجوزہ UCC کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اس کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، اور اب وہ گجرات کے لاکھوں لوگوں تک پہنچ کر انہیں اس قانون کے نقصانات سے آگاہ کرے گی اور عوام سے اپیل کرے گی کہ وہ اس قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025