گجرات میں بی جے پی کی تاریخ ساز کامیابی، ہماچل پردیش میں کراری شکست
وزیر داخلہ امت شاہ کا بیان کہ '2002 میں ہم نے فسادیوں کو سبق سکھا دیا جس کے بعد سے ریاست میں امن و امان قائم ہے'، بلقیس بانو کے گنہگاروں کی رہائی، پولرائزیشن کا کارڈ سمیت متعدد ایشوز گجرات میں کافی معاون ثابت ہوئے۔ گجرات انتخابات پر موربی پل حادثے کا بھی کوئی اثر نہیں پڑا اور وزیراعظم نریندر مودی کا جادو ووٹروں پر سر چڑھ کر بولا۔ جس نے یہ ثابت کردیا کہ گجرات میں مودی کا کوئی متبادل نہیں۔
نئی دہلی: گجرات اسمبلی انتخابات میں جمعرات کو ہونے والی ووٹوں کی گنتی میں حکمراں بی جے پی نے مسلسل ساتویں مرتبہ جیت حاصل کرنے کا نیا ریکارڈ بناتے ہوئے 156 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ کانگریس کو محض 17 سیٹوں پر اور عام آدمی پارٹی کو محض 05 سیٹیں ملیں۔
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیے گئے نتائج کے مطابق ریاست کی 182 رکنی اسمبلی میں گزشتہ 27 برسوں سے حکومت کرنے والی بی جے پی نے اس بار 156 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ انڈین نیشنل کانگریس کو 17 اور آزاد امیدواروں کو تین سیٹیں ملیں۔ عام آدمی پارٹی اور سماج وادی پارٹی نے بالترتیب پانچ اور ایک سیٹ کے ساتھ اپنا کھاتہ کھولا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 182 رکنی اسمبلی میں گزشتہ مرتبہ سال 2017 میں، 22 سال سے حکومت کرتے ہوئے، بی جے پی کو عام اکثریت سے سات زیادہ 99 ، کانگریس کو 77، اس کی اتحادی بھارتیہ ٹرائبل پارٹی کو دو، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کو ایک اور تین آزاد امیدواروں کو جیت حاصل ہوئی تھی ۔ 2012 کے انتخابات میں، بی جے پی نے 115، کانگریس نے 61، این سی پی اور کیشو بھائی پٹیل کی گجرات پری ور تن پارٹی، جو بعد میں بی جے پی میں ضم ہو گئی، نے دو، جے ڈی یو اور آزاد امیدواروں نے ایک ایک سیٹ جیتی تھی۔ لیکن اس بار مودی-شاہ کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے سابقہ تمام ریکارڈوں کو توڑتے ہوئے دو تہائی اکثریت حاصل کی ہے۔ بی جے پی کو 52.5 فیصد ووٹ شیئر حاصل ہوئے جو کہ کسی بھی پارٹی کو ملنے والے ووٹ شیئر میں سب سے زیادہ ہیں۔ بی جے پی کو ایک کروڑ 67 لاکھ سات ہزار 957 رائے دہندگان نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
دوسری طرف گجرات میں کانگریس کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی۔ کانگریس کو محض 27.03 فیصد ووٹ ہی ملے۔ یہ گجرات میں کانگریس کی اب تک کی سب سے بُری کارکردگی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس شکست کی وجہ یہ رہی کہ کانگریس پارٹی اس وقت راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں مصروف ہے۔ اس کے بڑے رہنما گجرات کی انتخابی مہم میں نظر نہیں آئے۔ مبصرین کے مطابق اس نے انتخاب جیتنے کی ذمہ داری امیدواروں پر ہی چھوڑ دی تھی۔
بی جے پی نے گجرات میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مہینوں پہلے سے ہی اپنی انتخابی مہم شروع کر دی تھی۔ انتخابی پروگراموں کے اعلان کے بعد نریندر مودی نے ریاست میں 30 ریلیاں کی تھیں۔
اُنہوں نے پہلے مرحلے کی مہم کے خاتمے کے اگلے روز دو دسمبر کو 50 کلومیٹر کا طویل روڈ شو کیا تھا۔ 2014 میں پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیرِِ اعظم بننے سے قبل نریندر مودی 13 سال تک ریاست کے وزیرِ اعلیٰ رہے ہیں ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح کے بعد انتخابی نتائج پر بی جے پی کے تمام سینئر رہنماؤں نے جیت کا سہرا وزیر اعظم نریندر مودی کے سر باندھتے ہوئے ان کے ترقیاتی ماڈل کو دیا۔
خیال رہے کہ گجرات میں ووٹنگ کے آخری مرحلے کے بعد ایگزٹ پول نے ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑی فتح کا دعویٰ کیا تھا۔ اب انتخابی نتائج نے اس کی تصدیق کردی ہے۔
دہلی میں حکمراں جماعت عام آدمی پارٹی نے پہلی بار گجرات میں الیکشن لڑا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ بی جے پی کی حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی حکومت بنائے گی۔ اس نے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے متعدد ’خوش کن‘اعلانات اور وعدے کیے تھے۔ لیکن اسے صرف پانچ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔
لیکن کانگریس کے لیے کل کا دن سب کچھ برا لے کر نہیں آیا۔ کانگریس نے ہماچل پردیش میں بی جے پی سے اقتدار چھین لیا۔ کانگریس نے اس پہاڑی ریاست میں بی جے پی کے قلعے میں نقب لگاتے ہوئے اچھی جیت درج کی ہے۔ ہماچل پردیش میں کانگریس کو 40 اور بی جے پی کو 25 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔ یہاں تین آزاد امیدواروں کو بھی جیت حاصل ہوئی ہے۔ عام آدمی پارٹی جس نے 67 نشستوں پر مقابلہ کیا تھا اپنا کھاتہ کھولنے میں بھی ناکام رہی۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اپنی پارٹی کی فیصلہ کن کامیابی پر ہماچل پردیش کے عوام سے اظہارِ تشکر کیا اور انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ پارٹی کی جانب سے کیا گیا ہر وعدہ پورا کیا جائے گا۔ وزیراعلی جئے رام ٹھاکر نے کہا کہ وہ عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ بھی گورنر کو پیش کردیا ہے۔ گورنر راجندر وشواناتھ آرلیکر نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا ہے۔ سرکاری ذرائع نے یہ اطلاع دی ہے۔
بی جے پی نے ”راج نہیں، رواج بدلے گا” (قیادت نہیں روایت بدلے گی) کا نعرہ دیا تھا لیکن پہاڑی ریاست کی روایت کو تبدیل کرنے میں بی جے پی بری طرح ناکام رہی۔
واضح رہے کہ ہماچل پردیش نے 1985 کے بعد سے کسی بھی موجودہ حکومت کو دوبارہ اقتدار پر قابض نہیں ہونے دیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پہاڑی ریاست کے عوام کے پیار اور بی جے پی کی تائید پر ان سے اظہارِ تشکر کیا اور کہا کہ ان کی پارٹی ریاست کے عوام کی امنگوں کی تکمیل کے لئے کام کرتی رہے گی اور عوام کے مسائل اٹھاتی رہے گی۔