کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج

عیش و عشرت سے بے عملی تک: ایک خاندان کا زوال

0

ڈاکٹر شکیل احمد خان، جالنہ

متوسط طبقہ: بے خبری میں خوابِ غفلت کا شکار
۱۹۷۰ء کی دہائی میں دہلی کے ارب پتی لوگوں کے پاش علاقے ساوتھ دہلی میں ایک لڑکی اپنے امیر ترین خاندان کے ساتھ نہایت عالیشان اور پرتعیش زندگی بسر کیا کرتی تھی۔ اس کے دادا آڈیٹر جنرل آف انڈیا تھے تو اس کے نانا نیشنل فزیکل لیبارٹری میں ایمیرٹس سائنٹسٹ۔ ان کے فارم ہاؤس پر ملک کا سب سے پہلا سولر پینل لگا تھا۔ بے شمار دولت، جائیداد اور فارم ہاؤس کے مالک اس کے والد ہر اتوار اسے کافی پینے فائیو اسٹار ہوٹل تاج یا مان سنگھ روڈ پر لے جایا کرتے جہاں ان کی ٹیبل ریزرو ہوا کرتی۔ ہوٹل موریا شیریٹن میں جہاں دنیا کے امیر ترین اور اہم ترین لوگوں کو ٹھہرایا جاتا ہے، وہ ڈنر کے لیے جایا کرتے۔ محل نما وسیع فارم ہاؤس میں رہنے والی اس لڑکی کا نام تھا مادھوی دیال۔ مادھوی اب عمر رسیدہ ہو گئی ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر اس کا ایک ویڈیو سامنے آیا ہے جس میں وہ ان باتوں کا ذکر کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے بقول بعد ازاں اس کا خاندان زوال آمادہ ہوتا گیا۔ بزرگ جاتے رہے، آپس میں حصے بخرے ہوتے گئے، اثاثے بکتے گئے اور پیسہ ختم ہوتا گیا۔ جب انہوں نے اپنا تین ایکڑ رہائشی فارم ہاؤس بھی آل آؤٹ کمپنی کو بیچ دیا تو مادھوی اور ماں کے حصے میں ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے آئے۔ (اس بات سے ان کی امارت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ۱۹۷۵ میں خالص سونا ۵۰۰ روپے اور ۱۹۸۰ میں ۱۳۰۰ روپے تولہ کے آس پاس ملتا تھا) بھائی کی موت کے غم میں والدہ بھی چل بسیں۔ اتنی خطیر رقم سے مادھوی اچھا مکان اور اچھے پلاٹس خرید سکتی تھی جن کی قیمت آج اربوں روپے ہوتی۔ (بقول خود ان کے اس زمانے میں گڑگاؤں نیا نیا بسنا شروع ہو رہا تھا) لیکن اس نے یہ نہیں کیا اور ساری رقم سہولت بخش علاقوں میں کرایے کے مکانوں کا کرایہ ادا کرنے میں نکل گئی۔ خاندان میں بچی واحد رشتہ دار بھاوج سے بھی نہیں بنی۔ لہٰذا وہ دن بھی آ گیا جب نہ سر پر چھت رہی اور نہ کھانے کو روٹی۔ آج کسی این جی او کے ذریعے چلائے جانے والے وردھ آشرم میں رہ رہی ہے جہاں اس کا یہ انٹرویو لیا گیا۔ مادھوی، میر تقی میرؔ کے اس شعر کی تفسیر بن گئی کہ:
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
اس طرح کے کئی واقعات نہ صرف تاریخ میں بلکہ ہمارے اطراف میں بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ زوال گویا آسمان سے زمین پر گرنے کے مترادف ہے، اس لیے ہم کو دہلا دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم مادھوی کا قصہ کیوں لے بیٹھے ہیں؟ یہ اِس لیے ہے کہ اِس عبرت انگیز قصے میں جو سبق اور جو حقیقت پوشیدہ ہے، اسے سمجھنے کی آج ملت کو شدید ضرورت ہے۔ یہ قصہ جس تلخ حقیقت کے روبرو لا کھڑا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وقت کسی کا بھی اور کبھی بھی پلٹی مار سکتا ہے۔ ورنہ کون سوچ سکتا ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں اٹھنے بیٹھنے والی، خیراتی ادارے میں رہنے پر مجبور ہے۔ بقول گلزارؔ:
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
لہٰذا وقت رہتے وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھا جائے، وقت رہتے بدلتے وقت کے لیے خود کو تیار نہ رکھا جائے تو انجام دردناک ہو سکتا ہے۔ آزادی کے بعد ملکِ عزیز میں اور خصوصاً سقوطِ حیدرآباد کے بعد دکن میں ہمارے بچے کچھے خوشحال خاندانوں نے کم و بیش یہی رویہ اپنائے رکھا اور ان کی نئی نسلیں بھی کم و بیش اسی صورتِ حال کا سامنا کر رہی ہیں۔ مثلاً راقم الحروف کا جو پیدائشی ضلع بیڑ ہے، وہاں اس کے لڑکپن میں جو پانچ دس نامور، امیر اور سماجی مرتبے والے گھرانے تھے، آج ان میں سے کسی بھی خاندان کا ایک بھی فرد اس حیثیت و مرتبے کا نظر نہیں آتا۔ اس ضمن میں اغیار کی سازشیں تو رہیں لیکن اپنا قصور بھی کچھ کم نہیں۔ بہادر شاہ ظفرؔ کے الفاظ میں:
صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا
وقت پل بھر میں نصیب بدل دیتا ہے، پل بھر میں بدل سکتا ہے، اِس حقیقت کا ادراک نہ وہ کر سکے اور نہ ان کی اولادیں۔ وہ سوچتے رہے کہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا۔ اس لیے انہوں نے نہ خود کوئی تیاری کی اور نہ اپنے بچوں کو تیار کیا۔ یہ رویہ بالکل مادھوی کے باپ دادا کی طرح تھا۔ اگر مادھوی کو کڑی دھوپ کے درشن بھی کرائے گئے ہوتے تو شاید آج بھی وہ ارب پتی ہوتی۔ لیکن عیش و آرام اور ناز و نعم میں پلی مادھوی میں نہ تو جدوجہد و دوڑ دھوپ کرنے کی سکت تھی نہ وقت پر صحیح فیصلے لینے کی استطاعت، نہ حالات کو سمجھنے اور ان کا سامنا کرنے کی تربیت، اور نہ ہی زندگی گزارنے کا سلیقہ۔ خیر، خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔ لیکن اب ہمارے خوشحال اور متوسط طبقے کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اس لیے وقت سے نپٹنے کے لیے ہمیشہ خود بھی تیار رہیں اور اپنی نسلوں کو بھی تیار کرتے رہیں۔
آج ملت کی حالت یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ ’’غریب حال مست، امیر مال مست‘‘۔ جہاں غریب طبقہ گوناگوں مسائل سے جوجھ پِس رہا ہے، وہیں متوسط طبقہ شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے اپنے حال میں مست ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں کہ موجودہ بین الاقوامی و ملکی سیاسی حالات، معاشیات کی اتھل پتھل اور معاشرتی بحران اسے کسی بھی وقت نچلے طبقے میں دھکیل سکتا ہے۔ اور اس بات کو محسوس کرنے کے لیے ارسطو ہونا ضروری نہیں کہ کچھ کرم فرما تو اس چیز کے لیے منصوبہ بند طریقے سے کام کر رہے ہیں۔
لہٰذا اگر بفضلِ خدا آپ بہتر پوزیشن میں ہیں تو بھی چوکنا رہیں اور اپنی نئی نسلوں کو بھی وقت کی بے رخی سے نپٹنے کے لیے جسمانی، تعلیمی اور نفسیاتی طور پر تیار کرتے رہیں۔ وقت کی ناگہانی بے رخی سے نبرد آزما ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے قابلیت۔ اگر آپ میں قابلیت، صلاحیت اور ہنرمندی ہو گی تو وقت کیسی ہی پٹکی دے، آپ پھر سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے پہلے والے مقام پر نہ پہنچ پائیں، لیکن ایسا تو نہیں ہو گا کہ ایک ایک کا منہ دیکھتے پھریں۔
یہ ذہن نشین کر لیں اور کروائیں کہ وقت مال چھین سکتا ہے، مہارت نہیں؛ چیزیں چھین سکتا ہے، چتورائی نہیں؛ سامان چھین سکتا ہے، صلاحیت نہیں۔ لہٰذا آپ معاشی طور پر کسی بھی کلاس سے تعلق رکھتے ہوں، صلاحیت، ذہانت اور مہارت کے حصول کو زندگی کا لازمی حصہ بنا لیجیے۔ اب ان چیزوں کے حصول کے لیے ضروری ہے محنت کی عادت، جانفشانی، قوتِ برداشت اور تواتر کی۔ یقین جانیے، چند برسوں بعد ہی ان خصوصیات کے بغیر آپ کا جینا محال ہوگا۔ دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ حالات پل پل نئے نئے موڑ لے رہے ہیں۔ اب پدرم سلطان بود کا محاورہ بھول جائیے۔ چاہے آپ کو پسند ہو یا نہ ہو لیکن اب لڑکا ہو یا لڑکی، ہر کسی کو اپنی روٹی کما کر کھانے کے دن آ رہے ہیں۔ والدین بھی اس بھرم میں نہ رہیں کہ اگر وہ ذی حیثیت ہیں تو ان کی اولاد بھی بغیر محنت و ذاتی صلاحیت کے اسی حیثیت کو برقرار رکھ پائے گی۔
دانش مند، امیر والدین اپنے بچوں کو خوب گِھستے ہیں، تراشتے ہیں، سخت بناتے ہیں۔ لیکن ملت کا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو غیر ضروری آسائشیں فراہم کر کے نرم، کمزور اور بے عمل بناتا ہے۔ یہاں نیتا مکیش امبانی کے انٹرنیٹ پر دستیاب ایک انٹرویو کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنے لڑکے اننت کو اسکول کینٹین کے لیے صرف پانچ روپے دیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ اننت نے دس روپے کا مطالبہ کیا کیونکہ دیگر بچے اسے ستاتے اور کہتے تھے ’’تو امبانی ہے یا بھکاری!‘‘ لیکن نیتا اور مکیش نے مطالبہ نامنظور کر دیا اور کہا کہ ’’نہیں، اتنے میں ہی گزارا کرنا ہوگا۔‘‘
یہ خوش آئند بات ہے کہ کچھ لوگ یقیناً اسے محسوس کر رہے ہیں اور عمل بھی کر رہے ہیں، لیکن ملت کے بیشتر افراد کو ابھی بھی ساحرؔ لدھیانوی کے اس مشورے کی ضرورت ہے کہ:
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے!
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج
(مضمون نگار سے رابطہ 8308219804:)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025

HacklinkHair Transplant istanbul
hacklink
istanbul evden eve nakliyat
hair transplant
istanbul anl?k haberler
extrabet
cratosroyalbet
casibom
romabet
romabet
romabet
casibom
holiganbet
casibom
marsbahis giri?
casibom
deneme bonusu veren siteler
Betpas
Adana Escort
roketbet
galabet
betoffice
maksibet
betzula
meritking
?sparta escort?sparta escort?sparta escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort