کورونا کا قہر تھمے تو کاروبار جمے

دوسری لہر نے معاشی نمو کے تعلق سے ملکی وغیر ملکی اداروں کی پیش قیاسیوں پر پانی پھیر دیا

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

ملک میں کورونا کی دوسری لہر کا قہر اپنے شباب پر ہے۔ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کے بعد مودی حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ دوسری لہر بہت مہلک ثابت ہو رہی ہے جس کے لیے وقت رہتے ہوئے بھی حکومت نے کسی طرح کی تیاری نہیں کی۔ ہندو مردِ سمراٹ وزیر اعظم مودی کے بڑ بولے پن کی پوری طرح قلعی کھل گئی کہ ہم نے کورونا وبا پر فتح حاصل کرلی ہے جب کہ ملک شدید انسانی اور طبی بحران سے گزر رہا ہے۔ بہار، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، دلی اور گجرات میں لاشوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ شمشان اور قبرستان میں جگہ تنگ پڑ رہی ہے۔ معتبر سائنس دانوں اور طبی ماہرین نے حکومت کو قبل از وقت دوسری لہر کے متعلق متنبہ کرنا شروع کردیا تھا لیکن دیو مالائی قصوں پر یقین رکھنے والی حکومت اور گئو موتر کے ذریعہ کورونا کو شکست دینے والے بھکتوں نے موجودہ قہر کو معمولی تصور کیا چنانچہ اس کا نتیجہ بے شمار انسانی جانوں کے زیاں اور معیشت کی بربادی کی شکل میں نکلنا لازمی تھا۔ اگرچہ گزشتہ سال کی طرح مکمل اور سخت لاک ڈاون نہیں لگایا گیا جس سے کورونا وبا کو جلد از جلد قابو میں کیا جا سکتا تھا جیسا کہ امریکہ اور برطانیہ نے کیا اور جلد ہی ایسے ممالک کی معیشت کھل گئی۔ لیکن ہمارے ملک میں ریاستی لاک ڈاون نے غیر منظم سیکٹر کی کمپنیوں کو زیادہ ہی متاثر کیا۔ اس لیے کچھ کم پیمانہ پر مزدوروں اور محنت کشوں کی نقل مکانی بھی ہوئی۔ غیر منظم شعبوں میں کام کے تقریباً دروازے بند ہونے سے معاشی بحران کا ہونا لازمی ہے۔ اس کا اندازہ کرتے ہوئے آر بی آئی نے 50 ہزار روپے کے امدادی پیکیج کا بر وقت اعلان کیا ہے۔ اس سے غیر منظم سیکٹر کے چھوٹے اور متوسط کاروباریوں کو کافی راحت ملے گی کیونکہ ان کے پاس سرمایہ کم ہوتا ہے اور محدود وسائل آور پیداوار میں مشکلات آنے سے وہ جلد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اس پیکیج کے ذریعے ان کو بینکوں سے قرض کی فراہمی آسانی سے ہو سکے گی اور لیے گئے قرض کی وصولیابی میں سہولت دی جائے گی۔ مگر طاقتور انفیکشن کے نہ تھمنے کی وجہ سے حالات ٹھیک نہیں ہو رہے ہیں۔ نتیجہ میں بہت ساری یونٹیں بھی آہستہ آہستہ بند ہو رہی ہیں۔ اس لیے اس قہر کو قابو میں کیے بغیر مکمل یونٹوں کا کھلنا محال ہے۔ اس پیکیج سے بند ہو رہی یونٹوں کو سہارا ضرور ملے گا۔ مگر فی الحال معیشت میں بہتری کی امید فضول ہے۔ ہمارا ملک مکمل لاک ڈاون کی طرف بھی جا سکتا ہے اس سے مینو فیکچرنگ شعبے متاثر ہوں گے جس سے سپلائی چین کے انتشار کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اس لیے سپلائی میں تسلسل نہ رہنے کی وجہ سے کمپنیوں کو پیداوار ساقط کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے طلب میں تنزلی آرہی ہے۔
عالمی مبصرین کا بھی ماننا ہے کہ بھارتی معیشت کافی دباو میں ہے۔ لا تعداد اموات کے ساتھ کورونا قہر نے ملکی معیشت کو گہرا زخم دیا ہے۔ پہلی لہر سے ہماری معیشت باہر نکلنے کی جدوجہد کر رہی تھی کہ اسے دوسری لہر نے آ دبوچا ہے۔ اس کو قابو میں کرنے میں وقت لگ سکتا ہے جب تک کاروباری اور معاشی سرگرمیوں پر مختلف طرح کی پابندیاں رہیں گی جس کی وجہ سے شہری معیشت میں تنزلی کے واضح اشارے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اپریل میں بے روزگاری کی شرح 10.72 فیصد سے اوپر پہنچ گئی ہے۔ ایسے حالات میں روزگار کے مواقع کم سے کم تر ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی سست رفتار جی ڈی پی نے بے روزگاری اور غربت کو بڑھا دیا ہے۔ محض دو ماہ قبل عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا تھا کہ جاریہ مالی سال میں بھارتی معیشت 12.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ مگر مارچ سے جاری کورونا قہر کی دوسری لہر نے ہماری معیشت کی شرح نمو کے تعلق سے غیر ملکی اور ملکی مالیاتی اداروں کی پیش قیاسیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اگرچہ ملک میں مکمل لاک ڈاون نہیں ہے مگر دلی، ممبئی، کولکتہ، بنگلور، حیدر آباد، غازی آباد وغیرہ صنعتی علاقوں میں مکمل لاک ڈاون ہے جو معیشت کے لیے باعث تشویش ہے۔ کووڈ-19 کے قہر کے قبل نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے ہماری معیشت کو کوما میں پہنچا دیا تھا جس کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کو بے روزگاری سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017 سے تقریباً 9 کروڑ افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ہمارے ملک میں کورونا کی دوسری لہر کی شروعات فروری میں ہو گئی تھی۔ جنوری سے ہی طبی ماہرین، ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے انفکشن کے خطرناک اثرات سے ہونے والی تباہی سے آگاہ کرنا بھی شروع کر دیا تھا مگر مرکزی حکومت نے مجرمانہ خاموشی برتتے ہوئے کسی طرح کی پیشگی تیاری نہیں کی اور 5 ریاستوں کے الیکشن اسپریڈر بن کر وبا کو ملک کے گوشہ گوشہ میں پہنچا دیا۔ اب تو بہار اور اتر پردیش کے ساتھ بنگال بھی اس وبا کی زد میں ہے اور موجودہ لہر سے قہر برپا ہونے کا خدشہ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔ ملک میں میڈیکل ڈھانچہ ناپید ہے۔ شہر میں کچھ غنیمت ہے دیہی علاقے جہاں ملک کی 70فیصد آبادی بستی ہے وہاں تو زیادہ ہی قہر برپا ہے۔ کچھ افراد اور جماعتیں جو ضرورتمند مریضوں کے لیے دوائیں، طبی امداد اور آکسیجن سلنڈر فراہم کر رہے ہیں انہیں بھی حکومت ہراساں اور پریشان کرنے سے نہیں چوک رہی ہے۔ خواہ پپو یادو ہوں، یوتھ کانگریس کے سری نواسن ہوں، دلیپ پانڈے ہوں یا گوتم گمبھیر ہوں سب کے پیچھے کرائم برانچ لگا کر حکومت پریشان کرنے میں مصروف ہے۔ ایسی صورتحال میں آر بی آئی کو ملک گیر پیمانے پر میڈیکل ڈھانچہ کی تعمیر کے لیے حکومت کو لے کر خصوصی پیکیج مہیا کرنا ہو گا۔ لاکھوں افراد کی دواوں، ویکسین، آکسیجن سلنڈر کی قلت کی وجہ سے ہلاکت نے بین الاقوامی برادری کو ہلا کر رکھ دیا۔ کم از کم 40 ممالک نے بھارت کو فوری طبی امداد بھیج کر حقِ انسانیت ادا کیا۔ ابھی انفیکشن کو قابو میں کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ٹیکہ کاری کی مہم کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ ابھی محض 9 فیصد لوگوں کو ویکسین کا پہلا ڈوز ملا ہے۔ کووڈ۔19ویکسین کی 10کروڑ خوراکیں مودی جی ’ویکسین گرو‘ بننے کے جنون میں 17 دیگر ممالک تک پہنچانے کا نظم کیا۔ یہ سلسلہ اپریل تک جاری رہا۔ فی الحال ہمارا ملک ماہانہ 15کروڑ لوگوں کو ویکسین دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے یہ پورا مالی سال پر خطر ہے۔ ایسے حالات میں حزب اختلاف کی 12 جماعتوں نے جھوٹے غرے میں مبتلا وزیر اعظم کو خط لکھ کر دوسری لہر کی زد میں آ کر 80 لاکھ سے زائد بے روزگار ہوئے لوگوں کو راحت پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے لوگوں کو دو ماہ تک محض راشن دینے سے کام نہیں چلے گا۔ ابھی تو انفیکشن سے مصیبت میں ہیں جب کھانے پینے کی کمی ہو گی تو ان لوگوں کی پریشانی اور مصیبت میں اضافہ ہو گا۔ حکومت کو ہر کنبہ کو ماہانہ 6000 روپے کی رقم سے بھی مدد کرنی ہو گی۔ آر بی آئی کے راحتی پیکیج دینے کا فیصلہ قابل ستائش ہے۔ مگر موجودہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے پلہ نہیں جھاڑ سکتی۔ بھاجپائیوں کو الیکشن جیت کر سرکار بنانا تو خوب آتا ہے مگر حکومت چلانا نہیں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے۔ خواہ سماجی ہو طبی۔ بین الاقوامی ہو یا معاشی یا انسانی، ہر شعبے میں بحران ہی بحران ہے۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون کَل سیدھی؟
***

عالمی مبصرین کا بھی ماننا ہے کہ بھارتی معیشت کافی دباو میں ہے۔ لا تعداد اموات کے ساتھ کورونا قہر نے ملکی معیشت کو گہرا زخم دیا ہے۔ پہلی لہر سے ہماری معیشت باہر نکلنے کی جدوجہد کر رہی تھی کہ اسے دوسری لہر نے آ دبوچا ہے۔ اس کو قابو میں کرنے میں وقت لگ سکتا ہے جب تک کاروباری اور معاشی سرگرمیوں پر مختلف طرح کی پابندیاں رہیں گی جس کی وجہ سے شہری معیشت میں تنزلی کے واضح اشارے آنے شروع ہو گئے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021