کورونا وبا کے چیلنجز اور سماجی رویّے

وقت کا مورخ سب کچھ لکھ رہا ہے

محمد انورحسین، اودگیر

 

جب کسی قوم کا کردار بولنے لگتا ہے تو دشمن بھی دوست بن جاتا ہے
کورونا کی وبا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے وبا تھمنے کے بجاے مزید شدت اختیار کرتی جارہی ہے ۔ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں انسان متاثر ہورہے ہیں اور موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔یہ ایک بڑی قدرتی آفت ہے جس سے ساری دنیا پریشان ہے ۔
انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ ناگفتہ بہ اور آزمائشی حالات میں خود کو منوائے ۔ان حالات میں اگر اس کا برتاو آزمائش کی کسوٹی پر کھرا ثابت ہوتا ہے تو وہ کامیاب ہوجاتا ہے ورنہ ناکام ۔اسی طرح قوموں، ملکوں اور حکومتوں کے لیے بھی قدرتی آفات آزمائش ہوتی ہے ۔ان آزمائشوں میں ان کا رویہ اور برتاو طے کرتا ہے کہ وہ کتنی کامیاب ہیں ۔
ہمارا وطن عزیز بھارت بھی پچھلے ایک سال سے کورونا کی بیماری سے لڑ رہا ہے ۔تادم تحریر کورونا سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد سوا دو کروڑ سے زیادہ ہے جس میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ موت کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ بہت سے ماہرین ان اعداد وشمار سے متفق نہیں ہیں بلکہ ان کے مطابق تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ایک سال گزر جانے کے بعد دوسری لہر میں متاثرین کی تعداد اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ حکومتوں اور ’’سسٹمس‘‘ کی ناکامی صاف جھلک رہی ہے ۔عالمی میڈیا نے اپنے فرنٹ لائن میں جس جلتے ہوئے بھارت ، لاشوں سے بھری گنگا اور سڑکوں پر دم توڑتے انسانوں کی منظر کشی کی ہے شاید اس سے پہلے اتنا بدنما داغ تاریخ میں کبھی اس ملک کے ماتھے پر نہیں لگا تھا۔ بھارت کا ہیلت انفراسٹرکچر پوری طرح ناکام ثابت ہو رہا ہے ۔آکسیجن کی کمی، دواخانوں کی کمی، دواوں کی کمی اور ڈاکٹرس کی کمی جیسے مسائل نے بھارت کے عالمی لیڈر بننے کے دعوی کو چکنا چور کر دیا ہے ۔کیا یہ مورخ نہیں لکھ رہا ہے؟ لکھ رہا ہے ۔ایک ایک بات لکھ رہا ہے ۔تصویروں اور ویڈیوز کے ثبوت کے ساتھ لکھ رہا ہے ۔لکھ رہا ہے کہ کتنے لوگ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سڑکوں پر دم توڑنے پر مجبور تھے ۔لکھ رہا ہے کہ دوائیوں کی کالا بازاری سے کس طرح ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوادیں ۔لکھ رہا ہے کہ کس طرح انسانی لاشیں گنگا کو میلا کر رہی ہیں ۔یہ بھی لکھ رہا ہے کہ دم توڑتے اور جلتے بھارت میں بانسری کون بجا رہا ہے ۔بے حسی کا یہ عالم کہ پتھر بھی پناہ مانگے ۔
اگر مورخ موجودہ حالات کا جائزہ لینے بیٹھ جائے تو اسے تین طرح کے رویے یا برتاؤ نظر آئیں گے ۔ان تین طرح کے رویوں سے ہم سماج کی کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سماج صحت مند ہے یا بیمار ہے ۔وہ تین طرح کے رویوں میں پہلا رویہ حکومت کا رویہ ہے ۔
چاہے آندھی آئے یا طوفان ، سائیکلون ہو یا زلزلہ ، بیماری ہو یا سیلاب ملک میں بسنے والے انسانوں کے ساتھ ساتھ ساتھ جانوروں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہوتی ہے ۔لیکن ایک سال سے اس وبا سے متاثر ملک میں جس درجہ کی تیاری اس سے لڑنے کے لیے ہونی چاہیے تھی وہ نظر نہیں آرہی ہے ۔اچانک کورونا کی بڑھتی بیماری نے ہیلت سیکٹر کی ناکامی کو اجاگر کردیا ۔
الیکشن، میلے، جلوس اور ریلیاں جو کورونا کے پھیلاو میں مدد گار ہوئی ہیں روکنے انہیں روکنے میں حکومت کی دلچسپی نظر نہیں آئی ۔ پی ایم کیرس فنڈس سے خریدے گئے وینٹیلیٹر کباڑ خانے میں سڑ رہے ہیں۔ لوگ اپنے مریضوں کو رکشا اور سایکل پر لے جانے پر مجبور ہو رہے ہیں اور کئی ایمبولنس گاڑیاں گھر کے پچھواڑے میں کھڑی سڑ رہی ہیں ۔آکسیجن کی قلت اور اس سے متعلق لاپرواہی کی داستان تو بڑی دردناک ہے ۔حقیقت میں حکومت تو اس وقت ہوش میں آئی جب چو طرفہ دباو بڑھنے لگا جس میں خاص طور پر بین الاقوامی میڈیا اورعدالت کی مداخلت شامل ہے ۔ایک سال کی مدت میں نہ ٹیکہ لگوانے کے کام میں مستعدی دکھائی دی اور نہ کووڈ کیر سنٹرس کی تیاری کی گئی بلکہ دواوں اور اس کی تقسیم پر بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے رویے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ حکومت اپنے عوام کی بھلائی کے تعلق سے بے فکر ہے اسے صرف سیاست اور اس کی بازی گری سے مطلب ہے ۔ طرفہ تماشہ تو یہ ہوا کہ آکسیجن مانگنے والا بھی مجرم ، دوا مانگنے والا بھی مجرم چاہے اس کے اپنے زندگی کی لڑائی ہار چکے ہوں۔ حکومتوں کا احساس ختم ہو جائے تو پتھروں اور اینٹوں کی بلند عمارتیں تو شوق سے بنائی جاتی ہیں لیکن لوگوں کی زندگی بچانے کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے ۔اس طرح کا رویہ کسی بھی ملک کی جمہوریت کے لیےنا مناسب ہے بلکہ یہ رویہ تو کسی ڈکٹیٹر کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔
دوسرا رویہ عام انسانوں کا ہے ۔اور یہ رویہ انسانیت کے شایان شان نہیں ہے۔ گو کہ اس طرح کے انسانوں کا فیصد کم ہے اور کسی بھی سماج میں اس طرح کے عناصر کا پایا جانا غیر فطری بھی نہیں ہے ۔لیکن جب موت کا رقص جاری ہو تو اچھے اچھوں کے کلیجے منہ کو آجاتے ہیں۔ بھارت کے اس اکسیوں صدی کے سماج میں جو پانچ ٹریلین کی اکانومی کا خواب دیکھ رہا ہے جس کے پاس درجن بھر آئی آئی ٹیز ہیں، سیکڑوں یونیورسٹیز ہیں جہاں کا خواندگی کا تناسب تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے ۔سیکڑوں معیاری میڈیکل کالجز ہیں ۔لاکھوں ڈاکٹرس کام کر رہے ہیں لیکن کچھ رویے بالکل بھی بھارت کی روایات اور تہذیب سے میل نہیں کھاتے۔ وہ رویے کیا ہیں؟ ریمیڈیسیور کے نام پر گلوکوز کا پانی بیچ کر لاکھوں روپیے کمائے جارہے ہیں ۔آکسیجن سیلینڈرس کی کالا بازاری عام ہوگئی ہے ۔دواوں کی کالا بازاری اور بے تحاشہ قیمتوں کے ذریعے کھلم کھلا لوٹ اسی سماج کا ایک رویہ ہے ۔پرائیویٹ اسپتالوں کی لوٹ سے تو شیطان بھی شرما جائے ۔مریض نہ صرف جان سے محروم ہورہا ہے بلکہ جائیداد سے بھی محروم ہورہا ہے ۔لوٹ کھسوٹ دھوکہ دہی اور انسانی جانوں سے کھلواڑ کی داستانیں بہت ہو سکتی ہیں ۔میں نے تو صرف اشارہ کیا ہے ۔مورخ ایک ایک تفصیل لکھ رہا ہے ۔یہی سماج جو ایک طرف سائنس ٹکنالوجی اورطب کی ترقی کا دعوی کر رہا ہے وہیں کچھ لوگ بغیر کسی سائنسی تحقیق کے گائے کے پیشاب اور گوبر سے کورونا کے علاج کا گمراہ کن پروپیگینڈہ کر رہے ہیں ۔ اس قدر ابتر حالت میں بھی کچھ لوگ ہندو مسلم کا کھیل کھیل رہے ہیں چاہے وہ ہاسپٹلس میں ہو یا سوشل میڈیا پر ۔یہ سماج کی ذہنی گراوٹ اور اس کے غیر شعوری رویوں کو واضح کرتا ہے ۔اور یہ اسفل سافلین کی مثال ہے ۔ تیسرا رویہ خوش آئند رویہ ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ سماج زندہ ہے اور وہاں انسانیت کا بسیرا ہے ۔اس کی تاریخ نہ صرف طویل ہے بلکہ بڑی روشن اور شاندار ہے ۔یہ رویہ اسی وقت سامنے آگیا تھا جب پچھلے سال کورونا نے اپنے پاوں پسارنے شروع کیے تھے اور غیر متوقع طور پر ملک لاک ڈاون کے دور سے گزررہا تھا ، تب سے لے کر اب تک انسانیت نوازی اور انسانیت کی خدمت کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں واقعات ہم دیکھ رہے ہیں ۔کوئی اپنا گھربیچ کر کھانا کھلا رہا ہے ، کوئی اپنی گاڑی کو ہی نہیں بلکہ آٹو رکشا کو بھی ایمبولینس بناکر مفت خدمت کر رہا ہے ۔کوئی اپنی پونجی سے آ کسیجن پہنچا رہا ہے ۔کوئی اپنی عمارتیں کووڈ کے علاج کے لیے مفت عنایت کر رہا ہے ۔بہت سے ڈاکٹرس مفت علاج کر رہے ہیں ۔کوئی لاشیں اٹھا رہا ہے کوئی لاشیں جلا رہا ہے ۔کوئی پلازما عطیہ میں دے رہا ہے ۔غرض انسان کی مدد کے لیے انسان ہی آرہا ہے ۔اور یہ رویہ سماج کے زیادہ تر انسانوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے جو سماج کے لیے خوشی کا باعث ہے ۔یہ سب کام بلا لحاظ ملت ، مذہب ، ذات و علاقہ کے ہورہا ہے ۔اس میں عام انسان بھی شامل ہیں، بہت سی تنظیمیں ، جماعتیں ، غیرسرکاری انجمنیں اور چھوٹے چھوٹے گروپس سب شامل ہیں ۔ ایک اور نمایاں پہلو جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہ رہا ہوں وہ ہے اس پورے وبائی دور میں مسلمانوں کا رویہ اور برتاو ہے ۔اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو مسلمانوں نے توقع سے زیادہ صبر وتحمل، دانشمندی، ہمت وحوصلہ اور سب سے بڑھ کر خدمت خلق کی جو مثالیں پیش کی ہیں وہ تاریخ میں لکھی جا رہی ہیں اور سنہرے حرفوں میں لکھی جارہی ہیں ۔مسلمانوں نے کھانا کھلایا ، آکسیجن سپلائی کی ، کووڈ سینٹرس کھولے ، دوائیں پہنچائیں ، مریضوں کی خبر گیری کی ،لوگوں کی تجہیز و تدفین کی بلکہ غیر مسلموں کی لاشیں بھی اٹھائیں ۔ایک ایسے دور میں یہ کردار سامنے آیا جبکہ ہر طرح کی کوششوں کے ذریعہ اسلاموفوبیا کی فضا بنانے کی کوشش جاری ہے ۔
جب تم انسانوں کی خدمت کرنے لگتے ہیں تو خدا کی مدد بھی تمہارے شامل حال ہو جاتی ہے ۔اب تو اس خدمت کے نتائج بھی دھیرے دھیرے سامنے آنے لگے ہیں ۔ یونایٹیڈ نیوز آف انڈیا میں چھپی خبر کے مطابق مہاراشٹر کے چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے کا مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف اس کی ایک مثال ہے ۔اس کے علاوہ میڈیا اور سوشل میڈیا نے بھی اس کام کی خوب ستائش کی ہے ۔جب قوموں کا کردار بولنے لگتا ہے بلکہ متاثر کرنے لگتا ہے تو دشمن بھی دوست بن جاتا ہے ۔اب اس امیج کو مزید نکھارنے کی ضرورت ہے ۔خدمت کا جذبہ باقی رہے تو اللہ کی مدد بھی آئے گی ۔ہمارے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ نہ صرف ہم انسانوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی قربانیاں پیش کریں بلکہ ان تمام انسانوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بھی روکنے کی کوشش کریں ۔ان کے سامنے زندگی کو امتحان اور آخرت کی ابدی زندگی کا تصور پیش کریں ۔ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دیں اور رسول محترم ﷺ کا اسوہ پیش کریں ۔تاریخ لکھی جاتی رہی ہے ، لکھی جا رہی ہے اور اس وقت تک لکھی جائے گی جب تک سب انسانوں کا کیا کرایا ان کے سامنے پیش نہ کردیا جائے۔
یہ دور تاریخ میں یاد رکھا جائے گا اور مورخ ان رویوں کو بھی درج کرے گا کیونکہ مورخ کبھی غلطی نہیں کرتا ۔حکومت ، فرقہ پرست و خود غرض لوگوں کے ساتھ انسانیت نواز لوگوں کے برتاو کو بھی تاریخ میں درج کیا جائے گا ۔خصوصیت سے مسلمانوں کا رویہ تو تاریخ کی زینت بن جائے گا۔۔
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہے تقدیریں
***

مسلمانوں نے توقع سے زیادہ صبر وتحمل، دانشمندی، ہمت وحوصلہ اور سب سے بڑھ کر خدمت خلق کی جو مثالیں پیش کی ہیں وہ تاریخ میں لکھی جا رہی ہیں اور سنہرے حرفوں میں لکھی جارہی ہیں ۔مسلمانوں نے کھانا کھلایا ، آکسیجن سپلائی کی ، کووڈ سینٹرس کھولے ، دوائیں پہنچائیں ، مریضوں کی خبر گیری کی ،لوگوں کی تجہیز و تدفین کی بلکہ غیر مسلموں کی لاشیں بھی اٹھائیں ۔ایک ایسے دور میں یہ کردار سامنے آیا جبکہ ہر طرح کی کوششوں کے ذریعہ اسلاموفوبیا کی فضا بنانے کی کوشش جاری ہے ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021