کورونا وائرس کا خوف لوگوں کو نماز جنازہ اور تدفین کے عمل سے بھی دور رکھ رہا ہے
نئی دہلی، 29 مارچ: کورونا وائرس کے خوف نے لوگوں کو نہ صرف گھر کے اندر ہی رہنے اور معاشرتی فاصلے برقرار رکھنے پر مجبور کردیا، بلکہ لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہو کر فوت ہونے والے اپنے عزیز و اقارب کی تدفین میں شرکت کرنے سے بھی گریز کررہے ہیں۔
انڈیا ٹومورو کے مطابق شاہین باغ قبرستان انچارج مفتی عبدالرزاق نے کہا کہ 22 جنوری کو ‘جنتا کرفیو’ سے شروع ہونے والی کورونا وائرس کی گھبراہٹ سے پہلے، ہر میت کی تدفین کے لیے 100 سے 200 افراد آتے تھے۔
تاہم میت کے ساتھ آنے والے لوگوں کی تعداد اب صرف 10 سے 15 ہو گئی ہے، حالاں کہ پولیس کم از کم 20 افراد کو قبرستان میں نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت دیتی ہے۔
مفتی رازق نے کہا کہ اس سے قبل مقامی باشندے بھی اس طرح کی رسوم میں شرکت کی مذہبی اہمیت کے پیش نظر تدفین میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن اب شاید مقامی افراد میں سے کوئی بھی جنازے میں شامل نہیں ہو رہا ہے، شاید کورونا وائرس کے خوف کے سبب۔
مفتی نے کہا کہ اسلامی قانون لوگوں کو تدفین کے معاملے میں بھی یہ اجازت دیتا ہے کہ اگر لوگوں کو متعدی بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ ہو تو بڑے اجتماعات سے گریز کریں۔
انھوں نے مزید کہا ’’لیکن 21 مارچ سے اب تک شاہین باغ قبرستان میں دفن ہونے والے 21 افراد میں سے کسی کی بھی کورونا کے سبب نہیں ہوئی تھی۔ اس کے باوجود شاید ہی 10 سے 15 افراد ان میتوں کے ساتھ قبرستان آئے اور تدفین مکمل ہونے کے بعد فوراً ہی وہاں سے چلے گئے۔‘‘
جمعرات کے روز تدفین کے لیے سب سے زیادہ چار میتیں آئیں۔
ہفتے کے روز قبرستان کو 64 سالہ یمنی شہری کی لاش ملی، جو اپولو اسپتال میں جگر کی کچھ بیماریوں کا علاج کروا رہا تھا۔
مفتی نے کہا ’’ان کے لواحقین نے شاہین باغ قبرستان میں دفنانے کے لیے لانے قبل ہی اسپتال میں ہی خود نماز جنازہ پڑھی۔‘‘
انھوں نے مزید بتایا ’’یمنی شہری کی لاش کے ساتھ چار افراد، ایمبولینس ڈرائیور اور اس کے تین رشتہ دار سر سے پیر تک حفاظتی پوشاک پہنے ہوئے تھے، حالاں کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ شخص کورونا کا مریض نہیں تھا۔‘‘
انھوں نے کہا کہ یمنی شہری کی لاش کو یہاں دفن کیا گیا کیوں کہ تمام بین الاقوامی اور گھریلو پروازیں منسوخ ہونے کی وجہ سے اس کی لاش کو اس کے آبائی مقام نہیں پہنچایا جاسکا۔