کسی جج کو شریعت اپلیکیشن ایکٹ کے خلاف فیصلہ دینے کا حق نہیں
مطلقہ کے نان نفقہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسلم خواتین کے حقوق کو نقصان پہنچے گا
انوارالحق بیگ
طلاق یافتہ خاتون کو خاندان سے تعاون نہ ملنے پر ذمہ داری سماج پر ہوگی۔ علماء کی رائے
متعدد اسلامی تنظیموں اور علما و دانشوروں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے سخت اختلاف کیا ہے جس میں طلاق یافتہ مسلم خواتین کو تعزیرات ہند کی دفعہ 125 کے تحت اپنے سابقہ شوہروں سے تاحیات کفالت کا دعویٰ کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
یہ حکم مسلم پرسنل لاز جیسے شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937 اور مسلم خواتین (طلاق پر حقوق کا تحفظ) ایکٹ، 1986 کے خلاف ہے۔
یہ فیصلہ جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بنچ نے حیدرآباد کے محمد عبدالصمد نامی شخص کی جانب سے تلنگانہ ہائی کورٹ کے ایک حکم کو چیلنج کرتے ہوئے دائرکردہ درخواست پر سنایا ہے۔ تلنگانہ ہائی کورٹ نے عبدالصمد کو ہدایت دی تھی کہ وہ مطلقہ کی عبوری کفالت کرے۔
کئی مسلم تنظیمیں اور شخصیتیں اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی اعلیٰ بنچ کے سامنے چیلنج کرنے کے قانونی چارہ کار پر غور کر رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ طلاق یافتہ مسلم خواتین کو عمر بھر نان نفقہ دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ شرعی قوانین کے خلاف ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے شریعت ایپلیکیشن ایکٹ ہے، جس کی بنیاد پر قانون نافذ ہے۔شریعت ایپلیکیشن ایکٹ یعنی شریعت اسلامی کے قوانین مسلمانوں پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جیسا کہ ہندو کوڈ ہندوؤں پر لاگو ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 25 مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے،لہذا عدالتوں کو ایسے معاملات میں CrPC لاگو کرنے سے گریز کرنا چاہیے جہاں یہ اسلامی یا شرعی قوانین سے متصادم ہو۔
انہوں نے کہا کہ بورڈ کی قانونی کمیٹی فیصلے کا مطالعہ کر رہی ہے اور اس کے مشورے کی بنیاد پر بورڈ سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے قانونی راستے تلاش کر سکتا ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کےصدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی اسی طرح کے فیصلے سنائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسکالروں اور وکلاء کی ایک ٹیم اس فیصلے کا مطالعہ کر رہی ہے تاکہ اسے سپریم کورٹ کے موزوں بنچ کے سامنے چیلنج کیا جا سکے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے، جو دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کو ’’غلط‘‘ اور ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے 1985 کے شاہ بانو کیس کے ساتھ اس کی مماثلت کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت کے منظور کردہ ایک قانون نے اس کیس کو پلٹ دیا تھا۔
ڈاکٹر خان نے زور دے کر کہا، ’’مسلم پرسنل لاز کو شریعت ایپلیکیشن ایکٹ، 1937 کے ذریعے ہندوستان میں قانونی طور پر تحفظ حاصل ہے اور اس خاص مسئلے کو مسلم خواتین (طلاق پر حقوق کے تحفظ) ایکٹ، 1986 کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ جب تک کہ ان دونوں قوانین کو منسوخ نہیں کیا جاتا، کسی جج کو اس طرح کے فیصلے دینے کا حق نہیں ہے‘‘۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ان کی تنظیم ان کی قانونی کمیٹی کے مشورے کی بنیاد پر مناسب کارروائی کرے گی جو فیصلے کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہے۔
جماعت اسلامی ہند کی شریعہ کونسل کے سکریٹری ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اس فیصلے کو مسلم پرسنل لاء میں واضح مداخلت قرار دیا۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ 1937 کے شریعت ایپلیکیشن ایکٹ نے مسلمانوں کو شادی، طلاق، وراثت اور دیگر متعلقہ معاملات میں اپنے ذاتی قوانین کے مطابق عمل کرنے کی آزادی دی، انہوں نے مشورہ دیا کہ اس قانونی ڈھانچے کا احترام برقرار رکھا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر ندوی نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے خواتین کے حقوق کو نقصان پہنچے گا۔ یہ فیصلہ خواتین کے حق میں نہیں ہے۔ اگر شوہر جانتا ہے کہ اسے عمر بھر کفالت کرنی پڑے گی تو وہ طلاق نہیں دے سکتا اور شادی کے اندر اپنی بیوی پر ظلم کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناخوش گوار یا بدسلوکی والی شادیوں میں خواتین کے لیے طویل تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔
اس سوال پر کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے جہاں طلاق یافتہ خاتون کو خاندانی تعاون کی کمی ہوتی ہے؟ ڈاکٹر ندوی نے سابق شوہر پر سارا بوجھ ڈالنے کی بجائے اجتماعی سماجی ذمہ داری کی وکالت کی۔ انہوں نے دلیل دی کہ سابق شوہر پر تاحیات نان و نفقہ مسلط کرنا غیر منصفانہ اور ممکنہ طور پر ان خواتین کے وقار کے لیے نقصان دہ ہے جنہوں نے اپنے ازدواجی تعلقات کو ختم کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
ڈاکٹر ندوی نے نوٹ کیا، ’’اسلام میں، شادی دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ ہے، دوسرے مذاہب کے برعکس، خاص طور پر ہندو مذہب، جو شادی کو زندگی بھر کا رشتہ مانتا ہے، اسے ’جنم جنم کا ساتھ‘ (زندگی بھر کا بندھن) کہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ اگر معاہدہ طلاق کے ذریعے ختم ہو جاتا ہے تو سابق شوہر کو اپنی سابقہ بیوی کی مالی ذمہ داری کیوں اٹھانی چاہیے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا دنیا میں کوئی اور معاملہ ایسا ہے جہاں دو فریقین کے درمیان معاہدہ ختم ہونے کے بعد بھی ذمہ داریاں باقی رہیں؟ جب دنیا کے کسی اور معاملے میں ایسا نہیں ہوتا تو نکاح ختم ہونے کے بعد شوہر اپنی سابقہ بیوی کی کفالت کا ذمہ دار کیوں ہو؟
انہوں نے عدالت کے ذریعے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’’مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا دروازہ اب مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔‘‘
انڈین نیشنل لیگ کے صدر محمد سلیمان نے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ طلاق یافتہ بیوی کو کفالت ادا کرنے کا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ’’غیر فطری انداز‘‘ ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024