کسان یونینوں کا کہنا ہے کہ انھیں یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی کے لیے دہلی پولیس کی منظوری مل گئی ہے
نئی دہلی، جنوری 24: این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق مرکز کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں نے ہفتے کے روز دعوی کیا کہ حکام کے ساتھ متعدد گفتگو کے بعد دہلی پولیس نے انھیں دہلی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی نکالنے کی اجازت دے دی ہے۔ تاہم پولیس کی جانب سے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
معلوم ہو کہ جمعہ کو حکومت اور کسانوں کے درمیان 11 ویں دور کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد کسان یونینوں نے کہا تھا کہ وہ یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ جمعہ کو کسان یونینوں اور مرکز کے مابین مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہوئے جب مظاہرین کے نمائندے نئے زراعت کے قوانین کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔
سوراج انڈیا کے سربراہ یوگیندر یادو نے کہا کہ وہ ایک ’’تاریخی اور پرامن پریڈ‘‘ نکالیں گے جو یوم جمہوریہ کی پریڈ یا سیکیورٹی انتظامات میں خلل انداز نہیں ہوگا۔ اے این آئی کے مطابق یادو نے کہا ’’کسان 26 جنوری کو ’’کسان جمہوریہ پریڈ’’ نکالیں گے۔ بیرکیڈز کھولی جائیں گے اور ہم دہلی میں داخل ہوں گے۔ ہم (کسان اور دہلی پولیس) اس کے راستے پر ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں، حتمی تفصیلات پر آج رات کام کرنا ہے۔‘‘
کسان رہنما ابھیمنیو کوہر نے یونینوں اور پولیس کے مابین ایک اجلاس میں شرکت کے بعد پی ٹی آئی کو بتایا کہ ٹریکٹر ریلی کا آغاز دہلی کے غازی پور، سنگھو اور ٹکری سرحدی مقامات سے ہونا ہے۔ انھوں نے دعوی کیا کہ دہلی پولیس نے یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کو منظوری دے دی ہے۔
بھارتی کسان یونین کے رہنما گرنام سنگھ چدونی نے ریلی میں شریک ہونے والے کسانوں سے ’’نظم و ضبط برقرار رکھنے‘‘ اور کمیٹی کے ذریعہ جاری کردہ ہدایات پر عمل کرنے کی اپیل کی۔
دریں اثنا ہفتہ کے روز پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے متعدد گروہ دہلی میں کسان ریلی میں شرکت کے لیے اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں اور دیگر گاڑیوں میں روانہ ہوئے۔
ستمبر میں منظور ہونے والے تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہزاروں کسان تقریباً 60 دن سے دہلی کے مضافات میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ کسانوں کا خیال ہے کہ نئے قوانین ان کی روزی روٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر کے لیے زرعی غلبہ حاصل کرنے کی راہیں کھول دیتے ہیں۔ اس معاملے پر کسانوں اور حکومت کے درمیان کئی دور کے مذاکرات اب تک ناکام رہے ہیں اور کسان ان قوانین کی مکمل منسوخی کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں۔