کربلا کا پیغام: رسمی ما تم نہیں، زندہ شعور کی بیداری

راہِ عمل میں حضرت حسینؓ کا صبر و استقلال ، شعوری اتحاد اور دین کی صحیح پاسداری ضروری

عبدالستار فہیم، استنبول، ترکیہ

کل شام دروازے پر غیر معمولی وقت پر ہونے والی دستک نے چونکا دیا۔ دروازہ کھولا تو سامنے حاجی فرید صاحب مسکراتے ہوئے چہرے اور ہاتھ میں چھوٹا سا خوبصورت پیکٹ لیے کھڑے تھے۔ حجِ بیت اللہ سے واپسی پر حسبِ روایت زمزم اور کھجور کا تحفہ پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔
فرید صاحب کی یہ زیارت اور ان کا پاکیزہ ہدیہ کسی رسمی روایت سے بڑھ کر ایک روحانی تاثر چھوڑ گیا۔ گفتگو کے دوران بار بار اقبال کا یہ شعر سرگوشی کرتا رہا :
زائرانِ کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
تحفہ مختصر تھا مگر اس کے اثرات بہت گہرے تھے۔ ذہن بیت العتیق کی تاریخ میں اتر گیا۔ چشمِ تصور میں حرم کے وہ سارے مناظر ابھرنے لگے جن میں عشق، ایثار، قربانی اور توحید کی صداؤں نے قیامت تک کے لیے انسانیت کو جِلا بخشی کا سامان مہیا کر دیا۔
قربانی کا تسلسل: اسماعیلؑ سے
حسینؓ تک
اسلام کی تاریخ محض واقعات کا تسلسل نہیں، بلکہ ایک مسلسل قربانی، سچائی، صبر اور وفا کی داستان ہے۔ اس داستان کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لمحے سے ہوتا ہے اور اوج کمال امام حسین کی قربانی میں نظر آتا ہے جو دینِ محمدی کے تحفظ کی آخری فصیل بن گئے۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل
کربلا: حق و بصیرت کا پیغامِ عزیمت
کربلا محض تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ہر دور کی فکری کجی کے خلاف نبیانہ بصیرت اور استقامت کی یاد دہانی ہے۔ اگر حسینؓ اقتدار چاہتے تو جنگ مکہ یا مدینہ میں لڑتے، یہاں ان سے سچی محبت کرنے والے اور کٹھن گھڑی میں ساتھ دینے والے بہت لوگ تھے۔ ان کے اخلاص اور محبت کا عالم یہ دیکھیے: حسینؓ کعبے کا طواف کر رہے ہیں، اس دوران انہوں نے سنا کہ اُم سلمہؓ رو رہی ہیں۔ وہ ان کے پاس گئے اور پوچھا: اے میری ماں! آپ کیوں رو رہی ہیں؟ انہوں نے کہا: مجھے تمہاری والدہ فاطمہ یاد آ گئیں، جب وہ تمہیں بچپن میں سینے سے چمٹائے رکھتی تھیں اور اللہ کی قسم! اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو کبھی نہ چاہتیں کہ تم اس خطرے کی طرف جاؤ۔
عبداللہ بن عباسؓ جو حضرت حسینؓ کے چچا زاد بھائی اور قرآن کریم کے بڑے عالم تھے، انہوں نے کہا “مجھے وہ سب یاد ہے جو انہوں نے تمہارے والد (علیؓ) کے ساتھ کیا۔ میں نہیں چاہتا کہ وہی کچھ تمہارے ساتھ بھی ہو۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم کل اپنی بیٹیوں اور عورتوں کے درمیان عثمان کی طرح شہید نہ کر دیے جاؤ۔‘ انہوں نے یہاں تک کہا: “اگر لوگ مجھے ملامت نہ کرتے تو میں تمہیں بالوں سے کھینچ کر روک لیتا۔ ابوسعید خدریؓ حضرت علیؓ کے قریبی صحابی تھے، انہوں نے کہا: “تمہارے والد کہا کرتے تھے: میں کوفیوں سے بدگمان تھا اور وہ مجھ سے بدگمان تھے۔میں نے ان میں وفاداری یا ثابت قدمی نہیں پائی۔ حسینؓ! تم نہ جاؤ، خدا کے لیے نہ جاؤ! جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن جعفر (چچا زاد بھائی) اور عبداللہ بن عمر سب نے حضرت حسین کو جانے سے روکنے کی التجا کی۔ عبداللہ بن عمرؓ نے گلے لگایا اور کہا: “میں تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں اور تمہیں اللہ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن مجھے معلوم ہے کہ تم شہید کر دیے جاؤ گے۔ حسینؓ نے تمام باتیں سنیں اور کہا، “اگر میرا خون بہایا جانا ہی مقدر ہے، تو میں نہیں چاہتا کہ وہ مکہ مکرمہ میں بہے۔ میں نہیں چاہتا کہ حرمِ مقدس کی حرمت پامال ہو۔ میں باہر جا کر شہید ہونا پسند کروں گا۔ یہ حسینؓ کی بصیرت تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ حرم کی حرمت محفوظ رہے اور دین کسی وقتی ہنگامے کا شکار نہ ہو، اس لیے وہ مکہ چھوڑ کر کربلا چلے گئے۔
کوفہ پہنچے تو جب سب نے ساتھ چھوڑا — حتیٰ کہ ہزاروں خطوط لکھ کر وعدہ کرنے والے کوفیوں نے بھی — تب بھی امام حسینؓ نے باطل سے سمجھوتہ نہ کیا۔ یہی حسینی مزاج ہے: اکیلا ہو کر بھی حق کے ساتھ کھڑا ہونا!
کربلا: روحِ دین کے تحفظ کا معرکہ
کربلا میں ہونے والی قربانی کو محض ایک سانحہ سمجھنا، اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔ امام حسینؓ کا قیام اقتدار کی خواہش نہیں تھا، بلکہ دین کی روح اور امت کی فکری بیداری کی حفاظت کے لیے تھا۔ یزید کی موروثی ولی عہدی نے خلافت کو ملوکیت میں بدل دیا تھا۔ اس کے خلاف امام حسینؓ کا موقف دراصل درج ذیل خرابیوں کے خلاف مزاحمت تھی:
• شورائی نظام کا خاتمہ اور ملوکیت کا قیام؛
• جبر و استبداد کے ذریعے بیعت؛
• عدل و مساوات کا خاتمہ اور خاندانی و طبقاتی امتیازات کا قیام؛
• عوامی احتساب کی جگہ شخصی ڈکٹیٹر شپ ؛
• دین کی روح کو رسمی عبادات میں محدود کرنا اور دین کو اقتدار کا تابع بنانا؛
• اظہارِ رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنا۔
امام حسینؓ نے جان لیا تھا کہ اب ریاست کا مقصد خدا کی حاکمیت سے ہٹ کر شخصی اقتدار بننے جا رہا ہے۔ انہوں نے اس رخِ تبدیلی کو بھانپ کر مزاحمت کا علم بلند کیا۔ ان کی نظر حالیہ سیاسی چالوں سے آگے، مستقبل کے فکری انحراف پر تھی۔ اس لیے امام حسینؓ نے وہی کیا جو انبیاء اور ان کے حقیقی وارث کرتے ہیں: وقت کے بہاؤ کو سمجھنا اور قوم کو آئندہ خطرات سے بچانا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر آج یزید کی جبری بیعت کا انکار نہ کیا گیا تو کل دین صرف ایک رسمی، غیر مؤثر اور جاہلیت پر مبنی ادارہ بن کر رہ جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے کربلا کی سرزمین پر اپنے لہو سے” شجرِ طیبہ” کو سینچا اور اس کی اصل و روح کو محفوظ کیا۔
شبِ عاشور اور قربانی کا نقطہ عروج
شب عاشور، حضرت حسینؓ نے پوری رات نماز اور دعا میں گزاری۔ مسلسل یہی عرض کرتے رہے:
اللّٰهُمَّ أَنْتَ ثِقَتِي فِي كُلِّ كَرْبٍ، وَأَنْتَ رَجَائِي فِي كُلِّ شِدَّةٍ… "اے اللہ! تو ہر مصیبت میں میرا سہارا اور ہر آزمائش میں میری امید ہے۔”
اگلے دن، کربلا کی سرزمین پر صرف ۷۳ اہلِ حق تھے اور ان کے مقابل پانچ ہزار کا لشکر — لیکن اہلِ باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور تاریخ میں حق و باطل کی حد بندی کر دی۔
کربلا کا پیغام: رسمی ماتم نہیں ۔ زندہ شعور
اگر کربلا کو صرف غم کی یاد یا ماتم کی روایت بنا دیا جائے، تو حسینؓ کی قربانی اور ان کے مشن سے ناانصافی ہوگی۔ کربلا ایک شعور، ایک نظریہ، ایک بیداری ہے:
حق پر اٹل رہنا؛
باطل کی بیعت سے انکار؛
دین کی اصل روح کا تحفظ؛
سچائی کے لیے تنہائی قبول کرنا۔
ہندوستانی مسلمان: داخلی کربلا کا سامنا
آج ہندوستانی مسلمان ایک خاموش کربلا سے گزر رہے ہیں:
شناخت کے بحران کا شکار؛
تعلیمی، معاشی اور سماجی عدم مساوات؛
مساجد، اوقاف، عبادات پر قدغن؛
مسلم نوجوانوں پر ظلم و تشدد اور جھوٹے مقدمات؛
اور سب سے بڑھ کر، امت کی داخلی تقسیم۔
یہ حالات ہمیں کوفہ کی یاد دلاتے ہیں، جہاں وعدے تھے مگر وقتِ امتحان سب پیچھے ہٹ گئے۔ آج یزیدیت صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایک مزاج، ایک نظام، ایک رویہ ہے — اور حسینی کردار ہر اس لمحے میں دوبارہ زندہ ہوتا ہے جب کوئی شخص ظلم کے خلاف بولتا ہے، سچ کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور دین کو اقتدار کی لونڈی بننے سے بچالیتا ہے۔
امام حسینؓ کا کردار: دین کی بقاء کی علامت
امام حسینؓ نے نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنے گھرانے کے جوان، بچے اور بزرگ تک قربان کر دیے، صرف اس لیے کہ دین کی اصل روح کو مسخ نہ ہونے دیا جائے۔ یہ قربانی ہمیں بتاتی ہے کہ دین صرف رسمی عبادات سے نہیں بلکہ حق اور خیر پر مبنی نظامِ اجتماعیت کے قیام کی شعوری جدوجہد اور ایثار و قربانی سے مستحکم ہوتا ہے۔
عصرِ حاضر کا مسلمان قربانی سے فرار اور شعور و ذمہ داری سے غفلت کا شکار
آج کا مسلمان شدید کشمکش میں ہے؛ کہیں وہ ظلم کا شکار ہے، کہیں وہ خاموش تماشائی ہے۔ کہیں وہ خود ظالم کے ساتھ کھڑا ہے یا اس کے بیانیے کا ترجمان ہے۔ آج مسلم سلطنتیں ہیں، تنظیمیں ہیں، کانفرنسیں ہیں مگر وہ شعور، وہ صداقت، وہ قربانی کا جذبہ، وہ دینی غیرت، وہ حسینی بصیرت اور استقامت ناپید ہے۔
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
عبداللہ ابنِ عمرؓ کا کڑوا سچ – امت کی غلط ترجیحات پر تنبیہ:
شہرِ کوفہ کے کسی شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مچھر کے خون کی نجاست پر استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا:
"تم حسین کے خون کو بہنے دیتے ہو اور مچھر کے خون پر بحث کرتے ہو؟”
آج امت مسلکی مناظروں، فروعی بحثوں اور رسمی عبادات میں اس قدر الجھ گئی ہے کہ حق و باطل کی تمیز اور دین کے بنیادی اور اہم تقاضوں سے لاپروا ہو چکی ہے۔ یہ شعوری زوال کربلا کے پیغام سے غفلت کا ثبوت ہے۔
راہِ عمل: حسینی مزاج کی بازیابی
1. ترجیحات کا شعور اور مقصدی اتحاد: مسلکی، جماعتی اور خاندانی عصبیت کو ترک کر کے امت کے اجتماعی مقاصد پر متحد ہوں۔
2. سیاسی شعور: جمہوری نظام میں مؤثر اور باوقار شراکت اور باضمیر قیادت کی تلاش کریں۔
3. تعلیمی و معاشی خودکفالت: اوقاف، مدارس اور تعلیمی اداروں کو تجدیدی بنیادوں پر استوار کرکے آئندہ نسل کی تربیت و تعمیر ۔
4. روحانی تجدید: امام حسینؓ کی شہادت ماتم نہیں، ضمیر کی بیداری، حق گوئی، شعوری قربانی اور استقامت ہے۔
شہادت، سب سے بڑی کامیابی
کربلا ہمیں بتاتا ہے کہ شہادت شکست نہیں، بلکہ ایمان کی معراج ہے؛ حق کی حمایت میں تنہا کھڑا ہونا حسینی کردار ہے اور ہر دور میں، ظلم کے خلاف حسینی استقلال چراغِ راہ ہے۔حسینؓ اور اہلِ بیت کی قربانیاں صرف یاد اور ماتم کرنے کے لیے نہیں بلکہ زندہ شعور، استقامت اور مزاحمت کی روح کے طور پر اپنے وجود کا حصہ بنانے کی مستحق ہیں ۔

 

***

 کربلا ہمیں بتاتا ہے کہ شہادت شکست نہیں، بلکہ ایمان کی معراج ہے؛ حق کی حمایت میں تنہا کھڑا ہونا حسینی کردار ہے اور ہر دور میں، ظلم کے خلاف حسینی استقلال چراغِ راہ ہے۔حسینؓ اور اہلِ بیت کی قربانیاں صرف یاد اور ماتم کرنے کے لیے نہیں بلکہ زندہ شعور، استقامت اور مزاحمت کی روح کے طور پر اپنے وجود کا حصہ بنانے کی مستحق ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025