کتاب، اسمارٹ فون اور بچوں کا منفی رجحان

اسکول کے بچوں کی تشویشناک صورتِ حال

0

محمد عارف اقبال ، ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی

کووِڈ-19 کے مہلک اثرات کا معمہ شاید اب بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ایک زمانے میں جب ہمارے ملک میں ٹیلی ویژن عام نہیں تھا، ہندوستان کی تقریباً 70 فیصد آبادی دوسری دنیا سے انتہائی کم واقفیت رکھتی تھی۔ بہ الفاظ دیگر اس مصیبت سے کوسوں دور تھی۔ جب ٹی وی کے ساتھ موبائل فون عام ہونے لگا اور گاوؤں تک پہنچ گیا تو ایسا محسوس ہوا کہ گاوؤں کی ترقی میں شاید اسی چیز کی کمی تھی۔ پھر اسمارٹ فون کے انقلاب نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کو پھر بھی اطمینان نہیں تھا۔ کیونکہ کمپیوٹر اور اس کے ذریعے انٹرنیٹ کا استعمال ابھی محدود ہاتھوں میں تھا۔ لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ کی نئی شکلیں جب عوام کے ہاتھوں میں تھمادی گئیں تو رفتہ رفتہ ’کرلو دنیا مٹھی میں‘ کا نعرہ شرمندہ تعبیر ہونے لگا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی معکوس سے اس کے مقتدریٰ شاید اب مطمئن نہیں تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ کووِڈ-19 کے تباہ کن حالات پوری دنیا میں شاید اس لیے پیدا کیے گئے کہ انسانوں کو گھروں میں کچھ دنوں کے لیے محصور کرکے یہ تجربہ بھی کیا جائے کہ اپنے گھر کے کمروں میں محصور ہوکر وہ کس طرح دنیا سے رابطہ قائم رکھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں پوری دنیا میں قائم کارپوریٹ سیکٹرز نے اپنے ملازمین کو یہ رعایت دی کہ وہ اپنے گھر سے ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہیں۔ اس فیصلے سے ان ملازمین کو ضرور فائدہ ہوا جو براہ راست کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے منسلک تھے لیکن افتاد ان پر پڑی جو روایتی (Traditional) انداز سے اپنے ہر کام کو انجام دینے کے عادی تھے اور اپنے ہر کام یا تجارت کے روایتی اصول پر گامزن تھے۔ لیکن کووِڈ کی وجہ سے چھوٹے دکاندار اور تاجر بےبس ہوگئے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے ’آن لائن‘ (Online) نظامِ تجارت کو فروغ دیا، ان کی تجوریاں گھر بیٹھے بھرنے لگیں۔ شہر، گاؤں اور دیہات کی تفریق زندگی کے ہر میدان میں تقریباً معدوم ہوگئی۔ سماج کی تصویر ایسی بنائی گئی کہ ہر شخص گھر بیٹھے ہر چیز حاصل کرنے میں عافیت محسوس کرنے لگا۔
کووِڈ کے انقلاب کی یہ ایک ایسی تصویر ہے جس میں موجودہ بدلتی ہوئی دنیا کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن اس دنیا میں ایک تصویر ان بچوں کی بھی ہے جو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ہیں۔ اس تصویر میں نوخیز نسل (Teen-agers) کی حالت انتہائی قابل رحم کہی جا سکتی ہے۔ ہندوستان میں ایک این جی او ’پرتھم‘ کے نام سے 2005 میں قائم کی گئی تھی۔ اس کی جانب سے 14 سے 18 سال تک کے طلبا کی ایک سروے رپورٹ 2024 میں منظرعام پر آئی ہے۔ اسے ASER-2024 یا Annual Status of Education Report-2024 بھی کہا جاتا ہے۔ اس رپورٹ سے قومی سطح پر اسکول میں زیر تعلیم بچوں کی موجودہ خطرناک کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پندرہ سال قبل اسکول کے بعض بچوں میں ویڈیو گیمز کی لت کے ضرر رساں اثرات محسوس کیے جاتے تھے، لیکن ان سے کہیں زیادہ موجودہ منفی اثرات اسکول کے بچوں میں مرتب ہو رہے ہیں، جیسا کہ ASER-2024 کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے۔ یہ رپورٹ گوگل پر دستیاب ہے۔ اس سلسلے میں ہندی روزنامہ ’دینک جاگرن‘ (9 فروری 2025) نے ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے، جس کا عنوان ہے ’مہنگا نہ پڑجائے موبائل‘۔ یہ عنوان اس لحاظ سے ذرا ہلکا ہے کہ تجزیاتی رپورٹ میں جو بات کہی گئی ہے، زیادہ خطرناک ہے۔
ایک بچہ جس کی نشو و نما فیملی میں مہذب اور روایتی طریقے سے ہو رہی ہے، اگر وہ نفسیاتی پیچیدگی کا شکار ہوکر کتابوں سے جی چرانے لگے اور والدین کی طرف سے تنبیہ کرنے پر چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ مرض گہرا ہوتا جارہا ہے۔ والدین جن کا کُل سرمایہ ان کی اولادیں ہوتی ہیں، اگر وہ اس سرمایہ ہی سے محروم ہونے لگیں تو اندازہ کیجیے کہ صورت حال کس قدر تشویش ناک ہے۔ دینک جاگرن کے مطابق ’’ملک کے 82.2 فیصد طلبہ موجود دور میں اسمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں، مگر حالات یہ ہیں کہ 14 سے 18 سال کے بچے درجہ سوم کی سطح کی ریاضی (Mathematics) حل کرنے میں ناکام ہیں اور ان میں سے 25 فیصد بچے تو پڑھنے میں بھی کورے ہیں۔‘‘ دینک جاگرن مزید لکھتا ہے:
’’کورونا کے بعد بچوں کو پڑھائی کے لیے بھی اسمارٹ فون کا استعمال کرنے کی اجازت مل گئی۔ اسمارٹ فون کی دیگر ڈیوائس کی عادت کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ بچوں میں قوت برداشت کم ہو رہی اور وہ چڑچڑے پن کے شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے لیے اسکرین کے چھوٹے فونٹ (Fonts) کو پڑھنا آسان ہوگیا ہے مگر کتاب میں لکھے حروف کو وہ مشکل سے پڑھ پا رہے ہیں۔ نیز ان میں صبر و استقلال کی کمی دکھائی دیتی ہے اور وہ مطالعے پر توجہ کم مرکوز کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بچوں میں تاخیر سے بولنے (Speech delay) کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے نیز ان میں گفتگو کرنے کے آداب مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘
اے ایس ای آر (ASER) کے مطابق جہاں بہت سے نفسیاتی امراض میں بچے مبتلا ہو رہے ہیں وہیں ان میں سیکھنے کا عمل کم ترین درجے پر پہنچ گیا ہے۔ ASER کے مطابق یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ حکومت کی تعلیمی پالیسی کے سبب بچے پرائیوٹ اسکول سے گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لینا زیادہ پسند کر رہے ہیں کہ وہاں تعلیم کے نام پر اسمارٹ فون کے استعمال کی کھلی اجازت ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسمارٹ فون تیزی سے بچوں کو میڈیا کا عادی (Media addict) بنا رہی ہے۔ ان میں ویڈیو، ریلس اور شارٹس لینے کا رجحان عام ہوگیا ہے۔ ایسے بچوں میں Social Anxiety عام ہو رہی ہے جس کی وجہ سے وہ عام لوگوں کے درمیان بیٹھنا پسند نہیں کرتے اور لوگوں کے درمیان بیٹھ کر بات چیت کرنا بھی ان کے لیے دشوار ہو رہا ہے۔
ایک دردناک تازہ رپورٹ (روزنامہ منصف، حیدرآباد، 15 مارچ 2025) کے مطابق آندھرا پردیش کے ضلع کاکیناڈا کے 37 سالہ شخص نے اپنے دو بچوں کو پانی میں ڈبوکر اس لیے قتل کردیا کہ دونوں کمسن بچے تعلیم میں کمزوری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس واردات کو انجام دینے کے بعد وہ شخص جو او این جی سی میں ملازم تھا، اس نے خودکشی کرلی۔
بچوں کو کتابوں سے جوڑے رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کے لیے اسمارٹ فون کے استعمال کو محدود کیا جائے اور والدین اپنی نگرانی میں خود بھی کتابوں کا مطالعہ کریں اور اپنے بچوں کو اس کی طرف راغب کریں۔
(مضمون نگار اردو بک ریویو، نئی دہلی کے ایڈیٹر ہیں ۔
موبائل نمبر:9953630788)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025