
کاسٹ سینسس؛ سنگھ پریوار کا یو ٹرن
مودی کا ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے کا فیصلہ۔سیاسی مجبوری یا انتخابی چال؟
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
ذاتوں کی بنیاد پر مردم شماری پر مودی سرکار کا یو ٹرن گودی میڈیا کے مطابق مودی کا اسٹروک بن گیا ہے اور بعض سنگھ پریوار کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا کر کے مودی نے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے، یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بننے والا ہے۔ یہ باتیں تو چلتی رہیں گی۔ لیکن ایک ایسی پارٹی جو سماج کو ذاتوں میں بانٹ کر رکھنے میں یقین رکھتی ہے، اس کی سیاست کا محور و مرکز ہی ذات پات ہوتا ہے، جو منواسمرتی پر پکا یقین رکھتی ہے اور جس نے روز اول سے ذات پات کی مردم شماری کی شدید مخالفت کی ہے، اچانک اس نے کاسٹ سینسس کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے! ویسے مودی سرکار یوٹرن لینے میں ماہر ہی ہے لیکن اتنا بڑا یوٹرن لے گی، اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔
جب جب کاسٹ سینسس یا ذاتوں کو تحفظات دینے کی بات ہوئی سنگھ پریوار نے اس کی شدید مخالفت کی۔ کرپوری ٹھاکر کا واقعہ لے لیجیے، بہار کے جن نائیک ممتاز دلت و پسماندہ طبقات کے لیڈر، جو 1970اور 1977-1979میں دو بار وزیر اعلیٰ رہے جن کا تعلق خود پسماندہ طبقے سے تھا انہوں نے پہلی بار جب حکومت سنبھالی تو پسماندہ طبقات کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا، اس کے لیے انہوں نے سماج میں ذات پات کی بنیاد پر ڈیٹا جمع کرنے کی وکالت کی تاکہ حقیقی ضرورت مندوں کی شناخت ہو سکے۔ کیوں کہ 1931کے بعد سے کبھی بھی ذاتوں کی بنیاد پر مردم شماری نہیں کی گئی تھی۔ 1978میں کرپوری ٹھاکر کی حکومت نے ریاست میں پسماندہ طبقات کے لیے 26فیصد ریزرویشن لاگو کیا۔ اس فیصلے پر اعلیٰ ذاتوں یعنی جن سنگھ نے زبردست مخالفت کی اور ریاست میں ہنگامے ہوئے۔ کتنی گندی گندی گالیاں انہیں دی گئیں، یہ سارا کچھ موجود ہے، کس نے ان کی حکومت گرا دیا تھا، یہ بھی موجود ہے۔ کرپوری ٹھاکر نے جن سنگھ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی لیکن اس نے ان کی حمایت واپس لے لی تھی۔ یہی جن سنگھ بعد میں بی جے پی میں تبدیل ہوئی، یعنی او بی سی طبقات کو تحفظات دینے کی سب سے بڑی مخالف خود بی جے پی ہے، یہ اس کا پہلا ثبوت ہے۔
1980کے بعد جب منڈل کمیشن نے پسماندہ طبقات کی حالت کا جائزہ لیا تو اس نے 1931کی مردم شماری کو بنیاد بنایا کیونکہ اس کے بعد ذات پات کی بنیاد پر کوئی ڈیٹا جمع نہیں ہوا تھا۔ اگر کرپوری ٹھاکر کے وقت کاسٹ سینسس دوبارہ ہوتا تو منڈل کمیشن کو زیادہ بہتر ڈیٹا ملتا۔ اسی منڈل کمیشن کی وجہ سے وی پی سنگھ کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا، یہ حکومت کس نے گرائی تھی؟ یہ حکومت بھی بی جے پی نے گرائی تھی۔ منڈل کمیشن کے خلاف کون رتھ یاترا لے کر نکلا تھا؟ بے جے پی کے اڈوانی نے رتھ یاترا نکالی تھی۔ یہ دوسرا ثبوت ہے سنگھ پریوار کی پسماندہ طبقات سے دشمنی کا۔
مودی حکومت کی ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے کی بات کہنا بی جے پی اور اس کے نظریاتی سرپرست آر ایس ایس کی واقعی ایک ڈرامائی تبدیلی اور یو ٹرن ہے۔ تقریباً سو سال پہلے کاسٹ سینسس کرایا گیا تھا، اس وقت کے بعد سے آج تک قومی سطح پر کاسٹ سینسس نہیں کرایا گیا۔ حال ہی میں ریاستی سطح پر بہار، تلنگانہ اور کرناٹک میں کاسٹ سینسس کرایا گیا۔ کاسٹ سینسس کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے، پسماندہ طبقات کئی سال سے اس کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن راہل گاندھی نے پچھلے انتخابات میں اس کو اپنا انتخابی موضوع بنایا تھا، جب کانگریس اس کو موضوع بنا رہی تھی اس وقت بھاجپا نیتاوں کے بیانات سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2024 کے انتخابات سے پہلے، مودی نے ذات پات کی مردم شماری کو اپوزیشن پارٹیوں کی ’’اربن نکسل‘‘ سوچ کی علامت قرار دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ، جو سماجی انصاف کے سب سے شدید ناقدین میں سے ایک ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ ’’بٹوگے تو کٹوگے‘‘۔
سنگھ پریوار سارے ہندوؤں کو ایک قومی شناخت کے تحت متحد کرنے کی خواہش رکھتا ہے، جس سے ذات پات جیسی تاریخی تقسیم کو مٹایا جا سکے، لیکن یہ اس کا صرف سیاسی حربہ ہے، سماجی و مذہبی طور پر اصل میں وہ منواسمرتی کا علم بردار رہا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے اکثر خود کو ذات پات کی بنیاد پر ’’ووٹ بینک کی سیاست‘‘ کے مخالف کے طور پر ظاہر کیا ہے لیکن اگر آپ گہرائی سے دیکھیں تو وہی سب سے زیادہ ذات پات کی بنیاد پر سیاست کرتی ہے۔ یہ مخالفت صرف اور صرف ووٹ بینک کی سیاست پر مبنی تھی۔ تو پھر آخر کیا وجہ بنی کاسٹ سینسس پر راضی ہونے کی؟
جب کاسٹ سینسس کرانے کا فیصلہ کیا گیا، اس سے چند دن قبل ہی مودی ناگپوری بابو موہن بھاگوت کی ملاقات ہوئی، میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے درمیان جس موضوع پر گفتگو ہوئی ہوگی ان میں کاسٹ سینسس رہا ہوگا، پہلگام اور بھاجپا صدر کے بارے میں گفتگو کم ہی ہوئی ہوگی۔ دس جن پتھ کا طعنہ دینے والے آج ناگپور کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا ٹیک رہے ہیں۔
سنگھ کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ اس طرح کی مشق ان کا پین-ہندو شناخت کا بیڑا غرق کر دے گی، جس کو انہوں نے بڑی احتیاط سے سنبھال رکھا تھا، خاص طور پر شمالی ہند کی سیاست میں، جہاں ذات پات کی جڑیں نہایت گہری ہیں۔ ذات پات کی مردم شماری شروع کرنے کی بات کہہ کر، بی جے پی اپوزیشن سے یہ موضوع اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہے اور او بی سی ووٹوں پر اپنی گرفت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، اس موضوع کو اپنی طرف لانے کے لیے اس کے پاس گودی میڈیا تو ہے ہی۔
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وقف ترمیمی قانون پاس کر کے اس نے ایک طرح سے مسلمانوں کو متحد کر دیا ہے، وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ اس ایکٹ کے ذریعے وہ پسماندہ مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کر لے گی لیکن اس کا یہ کھیل کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے، آر ایس ایس سربراہ نے بھی شاید یہی تاکید کی ہوگی کہ دیکھو وقف قانون کے خلاف مسلمان سارے ملک میں سر تا پا احتجاج بنے ہوئے ہیں، وہ مذہب کے نام پر متحد ہوئے ہیں، جو داؤ چلا گیا تھا اور اپنے حلیفوں کو یہ کہہ کر مطمئن کیا گیا تھا کہ اس قانون سے پسماندہ مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوگا، وہ داؤ کامیاب نہیں ہوسکا، بلکہ وہ داؤ ان ہی پر الٹا پڑتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، اب سنگھ یہ چاہتا ہے کہ اس کاسٹ سینسس کو اپنے انداز سے کرائے، انداز ایسا اپنایا جائے جس سے ان برادریوں کو اپنے ساتھ ملا کر رکھا جائے اور جو بھاجپا کا کور ووٹر ہے یعنی سوکالڈ اپر کاسٹ ان کا ووٹ بینک بھی باقی رہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کاسٹ سینسس کا جو داؤ وزیر اعظم مودی نے چلا ہے، سیاسی طور پر انہیں کہاں تک فائدہ پہنچاتا ہے۔
***
***
سنگھ پریوار سارے ہندوؤں کو ایک قومی شناخت کے تحت متحد کرنے کی خواہش رکھتا ہے، جس سے ذات پات جیسی تاریخی تقسیم کو مٹایا جا سکے، لیکن یہ اس کا صرف سیاسی حربہ ہے، سماجی و مذہبی طور پر اصل میں وہ منواسمرتی کا علم بردار رہا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے اکثر خود کو ذات پات کی بنیاد پر "ووٹ بینک کی سیاست” کے مخالف کے طور پر ظاہر کیا ہے لیکن اگر آپ گہرائی سے دیکھیں تو وہی سب سے زیادہ ذات پات کی بنیاد پر سیاست کرتی ہے۔ یہ مخالفت صرف اور صرف ووٹ بینک کی سیاست پر مبنی تھی۔ تو پھر آخر کیا وجہ بنی کاسٹ سینسس پر راضی ہونے کی؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025