کارپوریٹ انڈیا کا پانچ ٹریلین روپے رکھنے کے باوجود سرمایہ کاری سے گریز!

روپے کی گرتی قدر، پیچیدہ قوانین اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی قلت بڑی رکاوٹ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ترقی کی ’بلیٹ ٹرین‘ تبھی دوڑے گی جب ملک میں امن، انصاف اور کاروباری شفافیت ہو گی
کارپوریٹ انڈیا اس وقت نقد رقم سے بھرپور خزانے کا مالک ہے لیکن اس کے باوجود نئی سرمایہ کاری سے گریز کر رہا ہے۔ اس رجحان کی بنیادی وجوہات میں ملکی منڈی میں طلب کی کمی، سخت جغرافیائی و سیاسی حالات اور عالمی سطح پر پھیلی ہوئی غیر یقینی صورتِ حال شامل ہیں۔
حیرت انگیز طور پر ایسے وقت میں جب کمپنیاں بھاری منافع کما رہی ہیں اور ان کے پاس وافر نقدی بھی موجود ہے، وہ نئی صنعتی یا پیداواری سرگرمیوں میں سرمایہ لگانے کے بجائے انتظار کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اس کے برعکس ان کی پہلی ترجیح شیئر بازار میں سرمایہ کاری بن چکی ہے تاکہ کم وقت میں زیادہ منافع حاصل کیا جا سکے۔
’’منٹ‘‘ کے ایک تجزیے کے مطابق بی ایس ای (BSE) میں درج 285 غیر مالیاتی کمپنیوں (جن میں بینک، مالیاتی خدمات، اور انشورنس کمپنیاں شامل نہیں) کے نقد ذخائر مالی سال 2025 میں بڑھ کر 5.09 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کمپنیوں کی جانب سے نئے منصوبوں کے اعلان میں مسلسل کمی دیکھی گئی—مالی سال 2024 میں تین فیصد اور 2025 میں مزید پانچ فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
یہ اعداد و شمار ’’سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE)‘‘ کے پراجیکٹ ٹریکنگ ڈیٹا بیس سے حاصل کیے گئے ہیں جو ملکی اقتصادی سرگرمیوں کی معتبر پیمائش کرتا ہے۔ اس وقت کمپنیاں اوسطاً 12 فیصد کے منافع پر نقد سرمایہ محفوظ رکھے ہوئے ہیں لیکن نئی سرمایہ کاری کے بجائے ان کی توجہ اسے ’’دفاعی حکمت عملی‘‘ کے تحت سنبھالنے پر مرکوز ہے۔
توقع ہے کہ مالی سال 2024-25 میں مزید کمپنیاں اپنی 25 سے 50 فیصد نقدی کو رقیق اثاثوں (liquid assets) کی صورت میں محفوظ رکھیں گی تاکہ بوقتِ ضرورت فوری ردِعمل دیا جا سکے بجائے اس کے کہ وہ طویل مدتی منصوبوں میں بندھ جائیں۔
کورونا وبا کے بعد سے زیادہ تر کمپنیوں کے لیے اپنے منافع کو استعمال کرنے کی کوئی مؤثر تحریک موجود نہیں ہے۔ اگرچہ حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس میں کوئی مستقل اضافہ نہیں کیا ہے پھر بھی کمپنیاں قیمتوں میں ممکنہ اضافے کے انتظار میں ہیں تاکہ زیادہ منافع سمیٹ سکیں۔
نقدی کی فراوانی کے باعث شیئر ہولڈروں کو خاصا منافع حاصل ہو رہا ہے جو سرمایہ کاروں کے لیے پُرکشش ہے۔ ’’منٹ‘‘ کے مطابق BSE-500 میں شامل 496 کمپنیوں کا مجموعی منافع مالی سال 2025 میں 11 فیصد کی شرح سے بڑھ کر 4.9 ٹریلین روپے ہو گیا ہے جو گزشتہ دہائی کی سب سے بڑی سالانہ نمو ہے۔ اس نے پچھلے سال کے 9.5 فیصد اضافے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
یہ صورتِ حال اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بھارت کی کمپنیاں طویل المدتی ترقی کے بجائے سرمایہ کاروں کو فوری منافع دینے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ البتہ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جلد ہی عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے نئے مواقع سامنے آئیں گے، خصوصاً ایسے وقت میں جب بھارت اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارتی معاہدے کے امکانات روشن ہیں۔
ٹرمپ کے "ریسپروکل ٹیرف” کی مدت 9 جولائی کو ختم ہونے جا رہی ہے جس سے متعلقہ فرموں کو امید ہے کہ تجارتی محاذ پر یقین اور استحکام کا ماحول پیدا ہوگا۔ KM فائنانشل ایسٹ مینجمنٹ کے سینئر ایکویٹی فنڈ مینیجر، اسمت بھنڈارکر کے مطابق بہت سے منصوبوں کی منصوبہ بندی مکمل ہو چکی ہے اور توقع ہے کہ یہ جلد ہی مکمل وسعت کے ساتھ نافذ العمل ہو جائیں گے۔ CIC سیکورٹیز کے ریٹیل ریسرچ کے سربراہ، پنکج پانڈے کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026 میں کارپوریٹ سرمایہ کاری، حکومت کے گزشتہ برس کے اخراجات سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ توانائی، دھات، آٹوموبائل اور صنعتی اشیاء کے شعبوں میں کیپیٹل ایکسپنڈیچر (Capex) میں اضافہ ہوگا۔
ان کے مطابق ادارے اس بات کے خواہاں ہیں کہ ان کے اثاثے دانشمندی سے استعمال ہوں۔ اگرچہ روپے پر قرض لینا نسبتاً سستا ہو رہا ہے، تاہم کمپنیاں مشینری اور زمین کی خریداری کے بجائے جدید ٹیکنالوجی، پیداوار میں جدت اور خدمات کے شعبے میں سرمایہ لگانے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ PwC کے ریسرچ ہیڈ اور پارٹنر، راگھو ناراسلے کا کہنا ہے کہ متعدد کمپنیاں عالمی ویلیو چین میں قیادت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ وہ اپنی نقدی اور متوقع منافع کو پیداوار میں اختراع اور سروس سیکٹر میں لگانا چاہتی ہیں تاکہ صارفین تک زیادہ مؤثر انداز میں پہنچ سکیں۔
ان کے مطابق کمپنیاں تیز تر ترقی کے لیے اپنے کاروباری ماڈلز کو بہتر بنانے پر زور دے رہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خریداروں کو متوجہ کیا جا سکے۔ اگرچہ قرض لینا آسان ہو گیا ہے، مالی سال 2025 میں قرضوں کی شرح میں صرف پانچ فیصد اضافہ دیکھا گیا، جب کہ مالی سال 2024 میں یہ شرح منفی رہی۔ ICICI سیکورٹیز کے مسٹر پانڈے کے مطابق خام اشیاء کی قیمتوں میں استحکام، نرم شرح سود اور بہتر بیلنس شیٹس کی بدولت کمپنیاں توسیع کے لیے بہتر پوزیشن میں آ گئی ہیں۔ تمام صنعتوں میں قیمتوں کی نرمی اور منافع خیزی کی وجہ سے نقدی کا بہاؤ بہتر ہو رہا ہے، جس سے کیش فلو میں اضافہ متوقع ہے۔ KM فائنانشل کے بھنڈارکر کے مطابق سیمنٹ، کیبلز، پینٹس اور ہیلتھ کیئر کے شعبوں میں خاصی سرگرمی دیکھی جا رہی ہے۔
(بشکریہ: ابھیناو ساہا، منٹ، ممبئی)
دیگر عوامل اور اصلاح کی گنجائش:
اس کے علاوہ بھی کئی ایسے اسباب ہیں جن کی بنا پر بھارتی کمپنیاں ملک میں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں۔ کورونا وبا کے بعد صارفین کی قوتِ خرید میں نمایاں کمی آئی ہے، جس سے اشیاء و خدمات کی طلب میں کمی واقع ہوئی۔ مستقبل کے بارے میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتِ حال نے سرمایہ کاروں کو نئی سرمایہ کاری سے باز رکھا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ کئی اشیاء کی پیداواری لاگت میں اضافہ، سرمایہ کی بلند قیمت، پیچیدہ سرکاری پالیسیاں، اور دشوار قانونی طریقۂ کار بھی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں پالیسیوں میں تسلسل اور لچک ہو تاکہ وہ طویل مدتی سرمایہ کاری کا حوصلہ پائیں۔
مزید برآں، روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر بھی سرمایہ کاری پر منفی اثر ڈال رہی ہے، کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کار ڈالر میں ریٹرن چاہتے ہیں۔ جب روپے کی قدر گھٹتی ہے تو وہ اپنی سرمایہ کاری نکالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ حالیہ دنوں میں مینوفیکچرنگ کے شعبے میں غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری (FDI) میں اضافہ ہوا ہے، جو خوش آئند ہے، لیکن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیت یافتہ افراد کی قلت ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
ہمارے ملک میں محنت کشوں سے متعلق قوانین نہایت سخت اور پیچیدہ ہیں جو کاروبار میں دشواری پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان قوانین کو آسان، لچکدار اور کاروبار دوست بنایا جائے تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ ملے۔
اسی تناظر میں حکومت نے Ease of Doing Business کے تحت ریگولیٹری نظام میں سہولت، غیر ضروری بیوروکریسی کے خاتمے اور شفافیت کو فروغ دینے کے اقدامات کیے۔ اس کے باوجود، نجی سرمایہ کاری کا گراف مسلسل نیچے آ رہا ہے—2011-12 کے بعد یہ 2020-21 میں جی ڈی پی کے صرف 19.6 فیصد تک آ گیا۔
اگرچہ کورونا اور لاک ڈاؤن کا اثر بھی شامل تھا مگر معاشی سست روی پہلے سے جاری تھی۔ ان حالات میں حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو 30 فیصد سے گھٹا کر 22 فیصد کر دیا ہے تاکہ کمپنیوں کو سرمایہ کاری اور روزگار کے لیے ترغیب دی جا سکے۔ مگر کارپوریٹ سیکٹر نے قومی مفاد کے بجائے ذاتی منافع کو ترجیح دی۔
اس بات کا اعتراف خود حکومت کے چیف اکنامک ایڈوائزر ناگیشورن نے بھی کیا ہے۔
کارپوریٹ سیکٹر کو مراعات دینے کے ساتھ حکومت پر لازم ہے کہ وہ بنیادی ڈھانچے—سڑکوں، ہوائی اڈوں، بجلی، وغیرہ—میں بھرپور سرمایہ کاری کرے تاکہ صنعتیں فروغ پائیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
ملک میں تعلیم اور ہنرمندی کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی طرف سے ان شعبوں میں بجٹ میں مسلسل کمی ہے۔ حکومت کو فوری طور پر اس میدان میں مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ نجی شعبے کو تربیت یافتہ انسانی وسائل مہیا ہوں۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (PPP) کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت صحت، توانائی اور دیگر خدمات کے میدان میں نجی شعبے کو شراکت داری کے مواقع دے تاکہ عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
اسی کے ساتھ سرمایہ کاری میں شفافیت، مساوی مواقع اور سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
آخر میں، ملک میں امن، قانون کی بالادستی اور ہم آہنگی پر مبنی ماحول کا قیام ناگزیر ہے۔ جب تک دنگے فساد، قتل و غارت، خواتین کے خلاف جرائم اور فرقہ وارانہ منافرت کا خاتمہ نہیں ہوگا، ترقی ممکن نہیں ہے۔ امن، انصاف، اور بھائی چارے کی فضا میں ہی ترقی کی ’بلیٹ ٹرین‘ اپنی پوری رفتار سے دوڑ سکتی ہے اور ملک حقیقی خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
***

 

***

 ترقی محض سڑکوں، پلوں اور صنعتی زونز کے قیام سے ممکن نہیں ہوتی۔ ایک متوازن، پائیدار اور عوامی فلاح پر مبنی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تعلیم، صحت، اور ہنر مندی جیسے سماجی شعبوں میں بھرپور سرمایہ کاری کرے۔ جب تک نوجوانوں کو معیاری تعلیم، عملی مہارت اور محفوظ سماجی ماحول میسر نہیں ہوگا، نجی شعبے کو درکار تربیت یافتہ افرادی قوت بھی دستیاب نہیں ہو سکتی۔ پالیسی سازی کے عمل میں انسانی ترقی کو مرکزیت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ معیشت کی رفتار صرف اعداد و شمار تک محدود نہ رہے، بلکہ اس کا فائدہ ہر طبقے تک پہنچے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025