
ڈیٹا پروٹیکشن قانون شہریوں کی آواز اور جمہوریت کو کچلنے کا نیا ہتھیار ثابت ہوگا!
ڈیٹا پروٹیکشن کے بہانے آرٹی آئی قانون کو ختم کرنے کی کوشش
شہاب فضل، لکھنؤ
سول سوسائٹی کے جہدکاروں کی جانب سے آرٹی آئی ایکٹ میں ترمیم کو واپس لینے کا پُرزور مطالبہ
سپریم کورٹ آف انڈیا نے اگست 2017 میں اپنے ایک مشہور فیصلے (پُتّاسوامی ججمنٹ) میں پرائیویسی یعنی نجی معلومات کی پردہ داری کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 اور آئین کے حصہ سوم کے تحت فرد کا بنیادی حق قرار دیا تھا۔ تبھی سے ملک میں پرائیویسی کے تحفظ کے لیے ایک قانون متعارف کرانے کی بات شروع ہوئی۔ حال ہی میں مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن (ڈی پی ڈی پی) ایکٹ 2023 کو حکومت ہند نے قانون کی شکل میں منظوری دی ہے جس پر آر ٹی آئی کارکنان چراغ پا ہیں اور اسے جمہوریت کا گلا گھونٹنے والا قانون قرار دے رہے ہیں۔ وہ حکومت پر ڈی پی ڈی پی ایکٹ کے ذریعہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی) 2005 یعنی حقِ اطلاعات قانون کو کمزور یا سبوتاژ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ سماجی جہد کاروں کا کہنا ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ نے ملک کے شہریوں کو اس قابل بنایا کہ وہ مفاد عامہ کے معاملات میں حکومتی اداروں سے اطلاعات حاصل کر سکیں اور انفرادی یا اجتماعی حقوق کی خلاف ورزی، بدعنوانی یا مفاد عامہ کے دیگر معاملات میں حکومت اور اداروں کو جواب دہ بنا سکیں۔ لیکن حکومت نے پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن کے نام پر ایسی قانونی ترامیم کر دی ہیں جن سے پرائیویسی کے نام پر اطلاعات کا حصول نا ممکن ہو جائے گا۔
دراصل، ڈی پی ڈی پی ایکٹ متعارف کرتے وقت آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ (1) 8 جے میں یہ ترمیم کی گئی کہ عوامی اداروں کے اہلکاروں کے بارے میں ذاتی معلومات عام نہیں کی جائیں گی چاہے وہ مفاد عامہ میں ہی کیوں نہ ہو۔ یہ شق آر ٹی آئی ایکٹ کو غیر مؤثر بنا دیتی ہے۔ اس کی سنگینی کو ایک مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ آر ٹی آئی کے ذریعہ اس اطلاع کا حصول نا ممکن ہو جائے گا کہ کسی بینک نے کن کارپوریٹ افراد کو قرض دیا اور کن لوگوں کے قرض معاف کیے وغیرہ۔
نیتی آیوگ کے اعتراض کو بھی نظر انداز کر دیا گیا
ڈی پی ڈی پی بل پر جب عوامی مشاورت ہو رہی تھی تب حکومت کے تھنک ٹینک نیتی آیوگ نے وزارت الیکٹرانکس و اطلاعاتی ٹیکنالوجی، جس نے ڈی پی ڈی پی بل کا مسودہ تیار کیا تھا، کو یہ مشورہ دیا کہ آر ٹی آئی ایکٹ میں یہ ترمیم نہ کی جائے کیونکہ اس سے آر ٹی آئی ایکٹ کمزور ہوگا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں اور سِول سوسائٹی کے جہد کاروں نے بھی اس کی مخالفت کی۔ تاہم حکومت کا کہنا تھا کہ پرائیویسی کا حق ایک بنیادی حق ہے جو سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو بھی حاصل ہونا چاہیے، چنانچہ اس مشورے کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
سرکاری اداروں میں جواب دہی اور شفافیت کے لیے کام کرنے والی تنظیم نیشنل کمپین فار پیپلز رائٹ ٹو انفارمیشن (این سی پی آر آئی) اور دیگر سماجی تنظیموں کے لوگ مذکورہ ترمیم پر تحریک چھیڑے ہوئے ہیں اور حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ آر ٹی آئی ایکٹ کو کمزور کرنے والی ترامیم کو واپس لے۔
معروف ٹرانسپیرینسی ایکٹیوسٹ اور سماجی جہد کار مسز انجلی بھاردواج کا کہنا ہے کہ آر ٹی آئی سے اب ہم کسی سرکاری اہلکار کی کوئی ذاتی اطلاع نہیں لے سکیں گے۔ اپنے سوشل میڈیا پوسٹوں میں وہ یہ بات لکھ رہی ہیں کہ آر ٹی آئی قانون میں پرائیویسی کا بھی تحفظ تھا اور مفاد عامہ میں معلومات کی فراہمی کا بھی ڈھانچہ موجود تھا۔ یعنی کوئی ذاتی اطلاع جس سے مفاد عامہ کا تعلق نہ ہو یا اس سے پرائیویسی کو ٹھیس پہنچتی ہو تو اسے آر ٹی آئی کے تحت نہیں دیا جا سکتا، لیکن مفاد عامہ کی اطلاعات پرائیویسی کے نام پر نہیں روکی جا سکتی تھیں۔ اب قانون میں ترمیم کر کے یہ لکھا گیا ہے کہ اب ہم کوئی بھی ذاتی اطلاع نہیں لے سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر کسی کو راشن نہیں ملا یا کس کو ملا، یا منریگا میں اگر جاب کارڈ نہیں ملا اور پیسے نہیں ملے تو پھر کس کو ملے، یہ معلومات ہم آر ٹی آئی سے نہیں حاصل کر پائیں گے۔ ووٹروں کی فہرست میں کن کے نام جڑے اور کن کے نام کاٹے گئے اس طرح کی اطلاع بھی نہیں مل پائے گی، کیوں کہ یہ کہا جائے گا کہ ان فہرستوں میں نام اور پتے لکھے ہوئے ہیں اس لیے انہیں عام نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ایک اور مثال دیتے ہوئے کہا کہ بینکوں نے کن لوگوں کو قرض دیا، کتنا قرض دیا اور کن کے قرض معاف کیے یہ سب بھی ہم نہیں معلوم کر پائیں گے۔ ان کے بقول آر ٹی آئی کا ڈھانچہ توڑنے اور جواب دہی ختم کرنے کے لیے ڈیٹا پروٹیکشن قانون لایا گیا ہے اور اسی بہانے آر ٹی آئی جیسے اہم قانون کو کمزور کر دیا گیا ہے۔
مسز انجلی بھاردواج نے کہا کہ ہماری جمہوریت میں اس طرح کے کسی قانون کے لیے جگہ نہیں ہو سکتی، اس کی مخالفت کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ مختلف تنظیمیں اس کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں اور عوامی بیداری بھی لا رہی ہیں تاکہ وہ مختلف سطحوں پر اپنی آواز اٹھائیں، وزارت الیکٹرانکس و اطلاعاتی ٹیکنالوجی کو مکتوب لکھیں، عوامی نمائندوں سے بات کریں اور جس سطح پر بھی ہو اس قانون کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ انہوں نے ڈیٹاپروٹیکشن قانون میں سدھار اور آر ٹی آئی قانون کی سابقہ شکل میں بحالی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ لانے کے لیے آر ٹی آئی ایکٹ میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آر ٹی آئی قانون میں، جب پہلے سے ہی یہ شق موجود تھی کہ ایسی ذاتی معلومات جس کا مفاد عامہ یا عوامی سرگرمی سے کوئی تعلق نہ ہو یا اس سے سرکاری ملازم کی پرائیویسی کو ٹھیس پہنچ سکتی ہو آر ٹی آئی کے تحت نہیں دی جاسکتی، تو پھر ڈی پی ڈی پی کے نام پر ایسی شق کیوں متعارف کرائی گئی جس سے سرکاری ملازمین اور اداروں میں شفافیت کا خاتمہ ہو رہا ہے اور بد عنوانیوں کو چھپانے کا راستہ کھل گیا ہے؟
ڈیٹا پروٹیکشن قانون کے مضمرات
مسز انجلی بھاردواج کا کہنا ہے کہ آر ٹی آئی جہد کاروں نے حکومت کو اپنے مشورے اور تجاویز پیش کیے ہیں مگر اس نے اب تک ان تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے حالانکہ نئی ترمیم شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرے گی۔ انہوں نے ایک اور مثال سے اس مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری کے معاملہ میں سولیسیٹر جنرل نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ جو لوگ مودی کی ڈگری مانگ رہے ہیں ان کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور جاننے کا حق پرائیویسی کے حق سے بڑا نہیں ہے۔ مسز بھاردواج نے واضح کیا کہ 1978 کے سال میں جن لوگوں نے دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا ان کی لسٹ مانگی گئی تھی۔ اس میں پرائیویسی کی کیسے خلاف ورزی ہو رہی ہے، سمجھ سے پرے ہے۔
الیکشن سے قبل ووٹر لسٹوں میں کئی لوگوں کے نام بڑھ جاتے ہیں اور کئی لوگوں کے نام ہٹا دیے جاتے ہیں۔ نئے قانون کے بعد یہ کہا جائے گا کہ ووٹر لسٹ میں لوگوں کے نام اور پتے ہیں اس لیے ہم یہ جانکاری نہیں دے سکتے۔ کسی سڑک کی تعمیر کا ٹھیکہ کس شخص کو دیا گیا، اسے بھی پرائیویسی کے نام پر چھپا لیا جائے گا۔
الیکٹورل بانڈ میں حکومت کوشش کر رہی تھی کہ کسی کو یہ پتہ نہ چلنے پائے کہ کس نے کس پارٹی کو کتنا چندہ دیا۔ سپریم کورٹ نے اس پر کہا کہ یہ تو لوگوں کے جاننے کی چیز ہے، انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ اب نئے قانون کے بعد سرکار کہے گی کہ اس میں ذاتی معلومات ہیں جسے عام کرنا ڈی پی ڈی پی ایکٹ کے تحت ممنوع ہے۔
مسز بھاردواج نے کہا کہ حکومت سے ہمارا سیدھا مطالبہ ہے کہ ڈی پی ڈی پی ایکٹ کے سیکشن (3) 44 کو ختم کیا جائے جس کے ذریعہ آر ٹی آئی ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ سے اطلاعات کا حصول اور سروے، بدعنوانی سے لڑنے کے دو اہم ہتھیار ہیں۔ ڈیٹا جمع کرنے کے لیے تنظیمیں اور سماجی کارکن گراؤنڈ سروے کرتے ہیں، لوگوں کی معلومات جمع کرتے ہیں، لسٹیں بناتے ہیں لیکن نئے قانون کے بعد اب یہ نا ممکن ہو جائے گا۔ اس نئے قانون کے بعد اگر کوئی سماجی ادارہ یا فرد لوگوں کے نام و پتے جمع کرے گا، سروے کرے گا تو حکومت ان پر بہت سی شرطیں لاگو کر سکتی ہے اور ان شرطوں کی خلاف ورزی پر ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ جو ایک سرکاری ادارہ ہوگا پانچ سو کروڑ روپے تک کا جرمانہ لگا سکتا ہے۔
صحافیوں کے لیے بھی اس قانون میں کوئی پروٹیکشن نہیں ہے۔ صحافی سچائی سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب ان پر بھی ڈیٹا پروٹیکشن قانون لاگو ہوگا۔ درحقیقت یہ سچائیوں کو دبانے اور چھپانے والا قانون ہے جو حکومت کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی طرح کام کرے گا۔ حکومت جس ڈیٹا کو پسند نہیں کرے گی اس کے جمع کرنے والے کے خلاف کارروائی کرے گی۔ ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ میں شکایت کرائی جائے گی اور متعلقہ لوگوں پر بڑا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
مسز بھاردواج کے بقول ڈی پی ڈی پی قانون کی موجودہ شکل جمہوریت کے لیے ایک تباہ کن قانون ہے۔ لوگوں کے جاننے کے حق کو ختم کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی جواب دہی ختم کی جا رہی ہے۔ یہ قانون دیکھ کر صاف سمجھ میں آ رہا ہے کہ حکومت اپنے مخالفین کو دبانے اور کچلنے کے لیے اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گی۔
کانگریس پارٹی نے بھی آ ر ٹی آئی قانون کو بے اثر کیے جانے پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ پارٹی نے اپنے آفیشیل ایکس ہینڈل پر نکتہ بہ نکتہ کچھ سوالات پوسٹ کیے ہیں اور نئے قانون کے نقصانات کو اجاگر کیا ہے۔ پارٹی نے حکومت سے ڈی پی ڈی پی ایکٹ کے ضوابط کو نوٹیفائی نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025