چین نے سنکیانگ میں حراستی کیمپوں کا جواز پیش کرتے ہوئے یغور مسلمانوں کے مذہبی عقائد کو اور قدامت پسندی کو اس کا سبب بتایا
نئی دہلی/بیجنگ ستمبر 20: یغور مسلمانوں کے لیے اپنے جیل نما کیمپوں کو حق بجانب ٹھہراتے ہوئے چینی کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار والی حکومت نے کہا ہے کہ اس نے ۲۰۱۴ سے اب تک تقریباً 13 لاکھ افراد کے ذہن بدلنے کے لیے انھیں کیمپوں میں رکھا ہے۔
شی جنپنگ حکومت نے اپنی ریاستی کونسل کے انفارمیشن آفس کے ذریعہ ’’سنکیانگ میں روزگار اور مزدوری کے حقوق‘‘ کے عنوان سے ایک ’’وائٹ پیپر‘‘ جاری کیا۔
اگرچہ اس مقالے میں حراستی کیمپوں کے لیے ’’پیشہ ورانہ تربیتی مراکز‘‘ اور ’’تعلیم اور روزگار کی تربیت‘‘ جیسے خوش نما الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے، تاکہ انسانی حقوق کی پامالی کا الزام دور کریں، لیکن اس نے اپنی پالیسیوں کا ذمہ دار اسلام پسند بنیاد پرستی کو قرار دیا۔
سی سی پی حکومت نے استدلال کیا کہ ایغوروں کے لیے حراستی کیمپ ضروری ہیں کیوں کہ سنکیانگ میں مسلم انتہا پسندوں کا خیال ہے کہ ان کا مذہب ریاست کے قوانین سے بالاتر ہے۔
حکومت نے اپنے بیان میں حراستی کیمپس کا جواز بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’تاریخی اور متعدد قدرتی وجوہات کی بنا پر سنکیانگ ترقی کے سلسلے میں طویل عرصے سے ملک کے دوسرے حصوں سے پیچھے ہے اور یہاں ایک بڑی غریب آبادی ہے۔ جنوبی سنکیانگ کے چار صوبوں یعنی ہوتن، کاشغر، اکسو اور کزلسو کرگز میں خاص طور پر کمزور معاشی بنیادیں اور روزگار کی صلاحیتوں ایک شدید کمی کی وجہ سے انھیں انتہائی غربت کے علاقوں کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں، علاحدگی پسندوں اور مذہبی انتہا پسندوں نے طویل عرصے سے یہ تبلیغ کی ہے کہ ’’اخروی خوش نودی ہی اصل ہے‘‘ اور ’’مذہبی تعلیمات ریاستی قوانین سے بالاتر ہیں‘‘، جس کے سبب عوام معیاری بولی جانے والی اور تحریری طور پر چینی زبان سیکھنے کے خلاف مزاحمت کرنے، جدید سائنس کو رد کرنے، اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں، معاشی حالات اور اپنی زندگی بہتر بنانے کی صلاحیت کو بہتر بنانے سے انکار کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کچھ مقامی لوگوں کے خیالات پرانے ہیں۔ وہ ناقص تعلیم اور ملازمت اور روزگار کی کم شرح اور آمدنی سے دوچار ہیں اور طویل مدتی غربت میں مبتلا ہیں۔‘‘
سی سی پی نے اپنے مقالے میں دعویٰ کیا کہ پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے سنکیانگ نے علم پر مبنی ہنر مند اور جدید افرادی قوت تیار کی ہے جو نئے دور کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔
سی سی پی نے اعتراف کیا کہ سنکیانگ نے 2014 سے 2019 تک ہر سال اوسطاً 1.29 ملین شہری اور دیہی کارکنوں کو تربیتی سیشن فراہم کیے، جن میں 4،51،400 جنوبی سنکیانگ میں تھے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’’تربیت یافتہ افراد کم سے کم ایک ہنر میں مہارت حاصل کرتے ہیں اور ان میں سے بیش تر افراد نے پیشہ ورانہ قابلیت، مہارت کی سطح کی سند یا خصوصی مہارت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرلیے ہیں، جس کے بعد انھیں مستقل ملازمت تلاش کرنے کی اجازت ملی ہے۔‘‘
حکومت کے مطابق سن 2014 سے 2019 تک سنکیانگ میں ملازمت کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد 11.35 ملین سے بڑھ کر 13.3 ملین ہوگئی، جس میں 17.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی برادری نے سنکیانگ کے علاقے میں اقلیتوں کو بڑے پیمانے پر نظربند رکھنے کے لیے چین کی بڑے پیمانے پر مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح وہ یغور مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور زبردستی ان پر اپنے احکامات تھوپ رہے ہیں۔