
چھوٹے قرضے: محروم طبقات کے استحصال کا نیا جال
بینکوں کی پیچیدہ کاغذی کارروائی کے سبب غریب طبقات ظالم سود خور کمپنیوں کے رحم و کرم پر مجبور
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
اسلامی نظام معیشت : قرضِ حسنہ اور سود سے پاک مائیکرو فائنانس ماڈل، ایک بہترین متبادل
’’مہالیر ایسوسی ایشن فار لٹریسی اویئرنیس اینڈ رائٹس‘‘ MALAR نے دیہی قرضہ جاتی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ایک تحقیق کی۔ یہ 30 سال پرانا خواتین کا اجتماعی ادارہ ہے، جس کی بنیاد بیداری خواندگی کی تحریک سے پڑی۔ اس نے ایسے خواتین پر تحقیق کی جو مختلف مدوں میں قرض لیے تھے۔
کنیا کماری کے دیہی علاقے کے گاؤں وڈکّو پیینکوزھی میں اوشارانی سے ان کی ملاقات فروری میں ہوئی۔ پانچ سال قبل اس نے اپنا زیور ضمانت پر رکھ کر ایک بینک سے قرض لیا تھا اور آج بھی وہ اس قرض کی قسطیں ادا کر رہی ہے تاکہ اپنے زیورات واپس حاصل کر سکے۔ یہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں ہے، بلکہ اس پورے خطے کا ایک عام المیہ ہے۔
اسی علاقے کی شوبھا بتاتی ہیں کہ غیر بینکنگ فائنانس کمپنیاں یعنی NBFCs اس معاملے میں خاص طور پر بہت بدنام ہیں۔ ’’اگر ان کی کوئی قسط باقی رہ جائے تو وہ مقروض کی بائیک یا کوئی اور گاڑی ضبط کر لیتے ہیں۔‘‘ ایسے حالات میں غریب کے پاس نہ کوئی قانونی سہارا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ جو ان کے ساتھ ہمدردی کرے۔
کولاسیکرم گاؤں کی اموتھا کی کہانی اس استحصالی چکر کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے ایک گولڈ فائنانس کمپنی سے قرض لیا تھا اور پھر اس قرض کی ادائیگی کے لیے MALAR سے قرض لینا پڑا۔’’ MALAR ایک 30 سالہ پرانا خواتین کا اجتماعی ادارہ ہے، جس کی بنیاد بیداری خواندگی کی تحریک سے پڑی اور جو آج مائیکرو فائنانس کے ذریعے غریب خواتین کو سہارا دے رہا ہے۔‘‘ ایسی کئی گولڈ فائنانس کمپنیاں ہیں جو راتوں رات بند بھی ہو جاتی ہیں۔
بینکوں کا دروازہ کیوں بند ہے؟
دیہی خواتین کی سب سے بڑی شکایت بینکوں کی پیچیدہ کاغذی کارروائی اور لمبے طریقہ کار کے بارے میں ہے۔ ایک خاتون کہتی ہیں کہ "بینکوں کی شرائط پوری کرنا ہمارے بس کی بات نہیں، وہاں کاغذی کارروائی بہت ہوتی ہے، بار بار دور دراز برانچ کو جانا پڑتا ہے۔” اس کا نتیجہ یہ ہے کہ غریب لوگ غیر رسمی ذرائع یا مائیکرو فائنانس کمپنیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جہاں بظاہر آسانی سے انہیں قرض مل جاتا ہے مگر بھاری سود اور اس کا وصولی نظام بڑا ظالمانہ ہوتا ہے۔
یہ صورتِ حال کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ برسوں کی غلط پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ ایک وقت تھا جب بینک کو قومیانے کے بعد دیہی قرضوں کا تناسب 50 فیصد سے زائد تھا، مگر اب یہ گھٹ کر 38 فیصد رہ گیا ہے۔ دیہی علاقوں میں برانچوں کی کمی نے نجی قرض دہندگان کے جال کو پھیلانے میں آسانی پیدا کر دی ہے۔
سروے کی جھلکیاں ۔ MALAR کی تحقیق میں جملہ 2900 خواتین نے حصہ لیا، اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ:
-1 30 فیصد خواتین نے ایک جگہ سے زیورات چھڑانے کے لیے دوسری جگہ سے قرض لیا۔
-2 63 فیصد خاندانوں کی ماہانہ آمدنی دس ہزار روپے سے بھی کم ہے، یعنی روزانہ تقریباً 300 روپے ان کی آمدنی ہے۔
-3 84 فیصد خواتین سماجی طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔
-4 قرض لینے کا مقصد زیادہ تر تعلیم ہوتا ہے جو کہ 55 فیصد ہے اور علاج کے لیے 47 فیصد ہے۔
-5 کاروبار یا آمدنی بڑھانے کے لیے قرض لینے کا تناسب نہیں کے برابر ہے۔
تعلیم کا جال
کنیا کماری کے مختلف دیہاتوں میں خواتین نے بتایا کہ نجی اسکولوں کی بھاری فیس کی وجہ سے وہ ہر سال ایک نیا قرض لینے پر مجبور ہیں۔ وجیا لکشمی جو MALAR کی سینئر رکن ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ’’لوگ اپنی استطاعت سے بڑھ کر بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھاتے ہیں، اسی لیے ان کا قرض لینا عام بات ہے۔‘‘ اور دوسری طرف سرکاری اسکول اس معیار کے نہیں جہاں تعلیم دلائی جاسکے۔
علاج کا بوجھ
کاروپرئی گاؤں کی گیتا نے بتایا کہ جب اس کی والدہ اسپتال میں داخل تھیں تو علاج کے بعد ڈسچارج اور دواؤں کے لیے پیسے نہیں تھے۔ MALAR کا طبی قرض ہی اس کی واحد امید تھی۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ناقص سرکاری صحت کا نظام لوگوں کو مزید قرض کے دلدل میں دھکیل رہا ہے۔
معیشت سے زیادہ کھپت کے لیے قرض
سروے سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ غریب زیادہ تر قرض اس لیے لیتے ہیں تاکہ وہ اپنی ضرورت کا سامان خرید سکیں، یعنی اپنی ضروریات کے لیے ہی وہ قرض لیتے ہیں، وہ اثاثہ بنانے یا آمدنی بڑھانے کے لیے قرض نہیں لیتے۔ زمین خریدنے، گاڑی یا کاروبار کے لیے قرض لینے کا تناسب تو صرف دو سے نو فیصد کے درمیان ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قرض لیا جاتا ہے وہ عام طور پر فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لیا جاتا ہے، یہ قرض بھی ان غریبوں کو معاشی طور پر خود کفیل نہیں بناتا۔
استحصالی NBFCs کا پھیلاؤ
حالیہ برسوں میں NBFCs اور فِن ٹیک جیسے ایپس نے چھوٹے قرضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق:
-1 45 فیصد صارفین پر 25 فیصد سالانہ سے زائد سود لیا جا رہا ہے۔
-2 دس فیصد پر پچاس سے سو فیصد تک سود لیا جاتا ہے۔
-3 بیس فیصد پر سو سے دو سو فیصد تک سود وصول کیا جاتا ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان کی وصولی کے طریقے بھی بڑے ظالمانہ ہوتے ہیں۔ قرض داروں کو عوامی سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں دھمکیاں جاتی ہیں، خاندان اور رشتہ داروں کو فون کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ نجی تصاویر بگاڑ کر بلیک میلنگ تک کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کئی لوگ خود کشی تک کر لیتے ہیں۔
ریاستی کوششیں اور وفاقی رکاوٹ
تمل ناڈو اور کرناٹک جیسی ریاستیں قوانین کے ذریعے اس ظلم کو روکنا چاہتی ہیں مگر 2022ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد NBFCs کو ریاستی قوانین سے استثناء کیا گیا ہے کیونکہ وہ RBI کے دائرے میں آتی ہیں۔ مرکز کا مجوزہ ’’Banning of Unlawful Lending Activities Bill‘‘ صرف غیر رجسٹرڈ اداروں تک ہی محدود ہے اور رجسٹرڈ سود خور کمپنیوں پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟
چھوٹے قرضوں کا اسلامی حل
اسلامی معیشت میں قرض کا مقصد کسی ضرورت مند کو سہارا دینا ہے، نہ کہ اس پر بوجھ ڈالنا؟ سود کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ استحصال اور معاشرتی ناانصافی کا ذریعہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ” (البقرۃ275:)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھیں گے جیسے کوئی شخص شیطان کے چھونے سے پاگل ہو گیا ہو۔‘‘
نبی ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص کسی مسلمان کو دو بار قرض دے، یہ اس کے لیے ایک بار صدقہ دینے کے برابر ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
-1 قرضِ حسنہ فنڈز قائم کیے جائیں، مقامی طور پر ٹرسٹ اور سماجی ادارے اپنے وسائل سے چھوٹے قرض بلا سود فراہم کریں۔
-2 تعاون باہمی کی سوسائٹیاں قائم کی جائیں، اراکین اپنی بچت جمع کر کے بلا سود قرض دیں، جو قسطوں میں واپس ہو۔
-3 زکوٰۃ اور صدقات ،شرعی اصول کے مطابق مقروضوں کو زکوٰۃ سے مدد دینا۔
-4 اسلامی مائیکرو فائنانس ، مضاربہ و مشارکہ ماڈلز جن میں نفع و نقصان شراکت داری کی بنیاد پر ہو، سود کی گنجائش نہ ہو۔
-5 وقف فنڈز- وقف سے حاصل آمدنی کو غریبوں کے قرض حسنہ یا روزگار پیدا کرنے والے منصوبوں پر لگانا۔
اگر قرض کا نظام سود سے پاک، باہمی تعاون پر مبنی اور شراکت داری کی بنیاد پر ہو تو یہ غربت کے خاتمے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسلامی اصول نہ صرف استحصال روکتے ہیں بلکہ ایک ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جس میں ضرورت مند قرض لیتے وقت خوف یا ذلت محسوس نہ کرے۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جو آج کے معاشی بحران میں حقیقی "مالی شمولیت” کا راستہ کھول سکتی ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025