چنڈی گڑھ یونیورسٹی کی طالبات کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے پر سنسنی، ہنگامہ آرائی جاری، ملزمہ و اس کا ساتھی گرفتار
نئی دہلی، 19؍ستمبر2022: پنجاب کے موہالی ضلع میں چنڈی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھنے والی آٹھ طالبات نے ہفتے کی رات اپنی ہی سہیلی اور ہم جماعت کی حرکت سے دکھی ہوکرخودکشی کرنےکی کوشش کی جس کے بعد یہ معاملہ روشنی میں آیا۔
ملزمہ لڑکی گزشتہ ایک سال سے 60 طالبات کی فحش ویڈیوز اور تصاویر کھینچ کر اپنے بوائے فرینڈ کو بھیج رہی تھی۔ وہ ان کو وائرل کر کے پیسے کما رہا تھا۔
اس حساس معاملے پرمتاثرہ طالبات کے ساتھ ساتھ دیگر طالبات نے یونیورسٹی سے باہر نکل کر رات بھر سڑک پر ہنگامہ کیا۔ ہنگامہ آرائی کو دیکھتے ہوئے پولیس نے ملزمہ طالبہ کو حراست میں لے لیا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ یہ طالبہ کافی دنوں سے دیگر طالبات کے نہاتے وقت کی ویڈیو بنا رہی تھی اور اسے شملہ کے ایک لڑکے (ساتھی)کو بھیج رہی تھی۔ نوجوان نے یہ ویڈیو انٹرنیٹ میڈیا پر ڈال دی۔ جب طلبانے انٹرنیٹ میڈیا پر اپنی ویڈیوز دیکھیں تو دنگ رہ گئیں۔ ان میں سے آٹھ طالبات نے خودکشی کی کوشش کی۔
خودکشی کی کوشش کرنے والی طالبات کوفوراً ہی مختلف اسپتالوں میں لے جایا گیا ہے۔ چنڈی گڑھ یونیورسٹی انتظامیہ طالبات پر اس معاملے کو طول نہ دینے کا دباؤ بنا رہی ہے۔ طالبات کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتظامیہ سے شکایت کی لیکن انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
اس سے مشتعل طالبات اور کچھ طلباء نے دیر رات چنڈی گڑھ یونیورسٹی کا محاصرہ کرلیا اور ہنگامہ شروع کر دیا۔ ملزمہ لڑکی کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ ہنگامہ بڑھتا دیکھ کر انتظامیہ نے یونیورسٹی کا مین گیٹ بند کروا دیا۔اس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ اطلاع ملتے ہی پولیس پہنچ گئی اور طلبہ کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ مشتعل طلبا نے پولیس کی گاڑیوں کو پلٹ دیا اور انہیں آگ لگانے کی کوشش بھی کی۔
اس کے بعد پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ رات بھر یہاں ہنگامہ ہوتا رہا۔ تاہم یونیورسٹی کے باہر پولیس فورس تعینات ہے اور پورے علاقے کو سیل کر دیا گیا ہے۔
چنڈی یونیورسٹی میں طالبات کا قابل اعتراض ویڈیو وائرل کرنے کے معاملے میں موہالی کے ایس ایس پی وویک سونی نے کہا کہ ‘ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزمہ نے صرف اپنی ویڈیو بنائی ہے نہ کہ دیگر لڑکیوں کی۔ اس کے علاوہ ایس ایس پی نے کہا کہ اس معاملے میں کسی بھی طالبہ نے خودکشی نہیں کی ہے’۔
احتجاج کے پیش نظر پولیس کو موقع پر بلایا گیا۔ تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامہ آرائی کے دوران ایک طالبہ بیہوش ہوگئی تھی۔ یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی پر پنجاب کابینہ کے وزیر ہرجوت سنگھ بینس کا ٹویٹ منظر عام پر آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام طلباء سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ ملزمین کو بخشا نہیں جائے گا، یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔ یہ ہماری بہنوں کی عزت کا معاملہ ہے، ہرجوت بینس نے کہا کہ ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے موہالی کے ایس ایس پی ویوک سونی نے کہا کہ سات لڑکیوں کی خودکشی کرنے کی خبر افواہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی لڑکی نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اس واقعے میں کسی لڑکی کو اسپتال میں داخل نہیں کرایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعہ کا صرف ایک ویڈیو بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور ویڈیو نہیں بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نوٹس میں ابھی تک صرف ایک ویڈیو کے علاوہ کوئی اور ویڈیو نہیں آیا، براہ کرم افواہوں پر توجہ نا دیں۔ پولیس نے ویڈیو بھیجنے والی طالبہ کو حراست میں لے لیا ہے۔
اس معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹل کی دو وارڈنز کو معطل کر دیا ہے۔ ان میں سے ایک وارڈن وائرل ویڈیو میں نظر آرہی ہیں، جو ملزم طالبہ کو ڈانٹ رہی تھیں۔ وہیں کلاسز کو چھ دن کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ملزم طالبہ کے مبینہ بوائے فرینڈ سمیت دو لوگوں کو شملہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔ پنجاب پولیس اس لڑکے کو پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ چنڈی گڑھ لے گئی ہے۔ ایک ملزم نوجوان شملہ کے روہڑو کا رہنے والا ہے جبکہ دوسرے کا تعلق تھیوگ کے علاقے سے ہے۔ سنی مہتا لڑکی کا مبینہ بوائے فرینڈ ہے جسے پنجاب پولیس نے چنڈی گڑھ یونیورسٹی ویڈیو لیک کیس میں حراست میں لیا ہے۔ اس معاملے میں 31 سالہ رنکج ورما کو بھی پنجاب پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
وزیراعلی جے رام ٹھاکر نے اس تعلق سے کہا کہ یہ ایک بہت ہی افسوسناک واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس نے ہماچل پولیس سے تعاون مانگا ہے۔ ڈی جی پی سنجے کنڈو سے کہا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں موہالی پولیس کے ساتھ تعاون کریں اور اس سلسلے میں کارروائی کریں۔ ریاستی پولیس اس سلسلے میں پنجاب پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی، جو بھی قصوروار ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
چنڈی گڑھ یونیورسٹی نے بھی اس پورے معاملے میں ایک بیان جاری کیا ہے۔ یونیورسٹی کے مطابق دیگر طالبات کی قابل اعتراض ویڈیوز شوٹ کرنے کی بات سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ کسی بھی طالبہ کی کوئی ویڈیو قابل اعتراض نہیں پائی گئی، سوائے ایک لڑکی کی جانب سے بنائی گئی نجی ویڈیو کے جو اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ شیئر کی گئی تھی۔