چندریان۔3 کے بعد بھارت کا مشن آفتاب۔ زہرہ اور مریخ پر جانے کی بھی تیاری

آدتیہ ایل۔ 1سورج ۔زمین کے لیگ رینجین پوائنٹ پر رہ کر آفتاب کے قریب اٹھنے والے طوفان کا مطالعہ کرے گا

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

وکرم نے جس مقام پر لینڈنگ کی ہے اسے’ انڈیا پوائنٹ‘ سے موسوم کرنے پر بحث ہورہی تھی مگر اسے ’شیو شکتی پوائنٹ‘ کا نام دیا گیا ہے تاکہ مودی جی کو اس سے انتخابی فائدہ مل جائے۔
ہمارے ملک کے لیے چندریان-3 کا چاند پر پہنچنا ایک شاندار کامیابی ہے۔ وکرم لینڈر کے چاند کی سطح پر قدم جمانے کے ساتھ ہی ہمارا ملک اسپیس کلب میں شامل ہوگیا ہے اور اب ہمارا جھنڈا چاند کے جنوبی قطب پر لہرا رہا ہے۔ اب بھارت چاند پر سافٹ لینڈنگ کرنے والا چوتھا اور جنوبی قطب پر لینڈنگ کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ چاند کے جنوبی قطب پر برف، ہائیڈروجن، آکسیجن اور پانی کے ساتھ معدنیات کے ذخائر دریافت ہوسکتے ہیں جس سے مستقبل قریب میں ہمارے ملک کو زبردست فائدہ ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی عالم انسانیت کے لیے بھی 23 اگست کی شام کو جنوبی قطب پر بھارت کے لینڈر اور روور کا ہونا ایک عظیم الشان دریافت ہے۔ اس کے علاوہ چاند کے حصار (Orbit) پر دو آربیٹر بھی گردش میں ہیں۔ اس طرح کُل ملا کر چار روبوٹکس مشین چاند پر موجود ہیں۔ ایسی عظیم الشان کامیابی پر دنیا میں بھارت کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔ اسرو کے سائنس دانوں کے پاس تہنیتی پیغامات بھی آرہے ہیں۔ امریکہ اور چین جیسے سائنسی دنیا کے ممتاز ممالک بھی اس کوشش میں ناکام رہے ہیں اور بھارت کی اس کامیابی کو تہہ دل سے قبول بھی کررہے ہیں۔ اس کامیاب مہم پر خرچہ محض 6015 کروڑ ہوا جو بہت ہی کفایتی ہے۔ کامیاب لینڈنگ کے بعد اس کے اندر موجود چھ پہیوں والا پرگیان روور بھی باہر آچکا ہے جو چاند کی سطح پر گردش کرتے ہوئے کئی طرح کے تجربات کرے گا۔ واضح رہے کہ وکرم اور اور پرگیان دونوں میں زبردست قوت والے کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں جسے اندرون ملک ہی دیسی ٹکنالوجی سے تیار کیا گیا ہے۔ پرگیان پر ایک ایسا پارٹیکل ایکسرے ایکسپکٹرو میٹر لگایا گیا تھا جس سے وہ سطح چاند پر کیمیاوی مادوں اور دیگر معدنیات کے بارے میں تفصیلات اکٹھا کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی لیزر شعاعوں سے چلنے والے ایسپکٹرو اسکوپ لینڈنگ کے مقام کے قریب سطح چاند پر گردش کرتے ہوئے کئی طرح کے تجربات کرے گا۔ واضح رہے کہ وکرم اور پرگیان دونوں میں ہی زبردست قوت والے کیمرے لگے ہوئے ہیں جنہیں اندرون ملک دیسی ٹکنالوجی سے تیار کیا گیا ہے۔ پرگیان پر ایک ایسا پارٹیکل اکسیرے ایکسپیکٹرو میٹر لگایا گیا جس سے وہ سطح چاند پر کیمیاوی مادوں اور دیگر معدنیات کے بارے میں تفصیلات اکٹھا کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی لیزر شعاعوں سے چلنے والے اسپیکٹرو اسکوپ لینڈنگ کے مقام کے قریب سطح چاند پر موجود مٹی اور چٹانوں کے عناصر کا بھی تجزیہ کرے گا۔ لینڈر کے ساتھ رمبھا ایل پی اور ایک مشین ہے جو سطح کے پلازما ڈنسیٹی اور وہاں موجود آیونس اور الکٹرونس کی کثافت اور ان میں موجود وقت کے ساتھ کیسی تبدیلی واقع ہوتی ہے اسے بھی دیکھے گا۔ اس طرح اسرو نے مشین کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے کیونکہ چندریان میں چیسٹ یا چندر سر فیس تھرموفزیکل اسکپریمنٹ نامی تجربوں سے قطبی خطے میں سطح چاند پر درجہ حرارت کا پتہ لگے گا۔ اس کے علاوہ چاند پر لینڈنگ کے مقام کے قریب زلزلہ کے جھٹکوں کی شدت (intensity) کا بھی مطالعہ کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ سپرگیان روور اور وکرم لینڈر کی مہم اصلاً 14 دنوں کے برابر ہوتی ہے کیونکہ چاند کے اس حصہ میں جب 14 دنوں کی رات ہوتی ہے تو سورج کے دوری کی وجہ سے درجہ حرارت منفی 200 ڈگری تک ہو جاتا ہے جس سے زمین پر انفارمیشن کی ترسیل ممکن ہوسکے گی۔ اسرو کے سائنس دانوں کا روور سے براہ راست رابطہ نہیں ہے۔ وکرم لینڈنگ کے لیے اسرو نے چاند کے جس خطہ کا انتخاب کیا ہے اسے کلام ویہاڑ کا نام دیاگیا ہے کیونکہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے چندریان کی پہلی مہم کے وقت اسرو کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ چاند کی آربیٹ میں آربیٹر بھیج رہے ہیں تو اسے سطح چاند پر اتارنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وکرم نے جس مقام پر لینڈنگ کی ہے اسے انڈیا پوائنٹ نام دینے پر بحث ہو رہی تھی مگر اسے ’شیو شکتی پوائنٹ‘ کا نام دیا گیا ہے تاکہ مودی کو اس سے انتخابی فائدہ مل جائے۔ اگر اس مقام پر مستقبل میں قیمتی دھات اور منرلس دریافت ہوتے ہیں تو اس پر سب سے زیادہ دعویداری کا حق ہمارے ملک کو ہی ہوگا۔ مگر سائنس کا اصل ہدف تو انسانیت کی خیر خواہی ہونی چاہیے۔ ایک ملک کی کامیابی کا فائدہ صرف اسی ملک کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو فائدہ ہونا چاہیے۔
یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ اسرو نے اپنی ٹکنالوجیکل سائنسی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے کیونکہ جتنے ذرائع وسائل انہیں فراہم کیے گئے اسے اس نے بہتر طریقے سے استعمال کیا ہے جس کا مقابلہ ایسے درخت سے کیا جاسکتا ہے جسے محض پچاس سالوں تک آبیاری کی گئی اور بہت ہی مناسب اور منظم طریقے سے اس کی حفاظت کی گئی جس کے نتیجہ میں یہ درخت بڑا ہو کر سایہ دار ہوگیا ہے اور اس کی اونچائی اسے چاند تک لے گئی۔ یہ دراصل کئی دہائی کا ثمرہ ہے۔ اسرو میں حکومت نے جو سرمایہ کاری کی ہے اسے اس نے بڑی خوبصورتی سے لوٹایا بھی ہے۔ کیونکہ بھارت کی طرف سے سطح چاند پر جانے کی مہم کا تیسرا باب ہے۔ اولاً 2008ء میں چندریان-1 کو چاند پر بھیجا گیا تھا جسے وہاں پانی کی سالمیے کی دستیابی کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ اس کے 11 سالوں بعد 2019ء میں بھارت نے چندریان-2 مہم کی شروعات کی لیکن لینڈنگ سے قبل ہی لینڈر وکرم بھٹک گیا۔ جبکہ اس کے ساتھ بھیجا گیا آربیٹر آج بھی چاند کے گرد کامیابی کے ساتھ گردش کر رہا ہے۔ اس طرح بھارتی سائنس دانوں نے چندریان-2 کی ناکامی سے سبق لیتے ہوئے بہت سارے تجربات کیے جس سے آج انہیں بھرپور کامیابی ملی۔ واضح رہے کہ بھارتی سائنس دانوں نے اپنے دم پر خود اعتمادی کے ساتھ تمام مہمات کو سر کرلیا ہے۔ مغربی ممالک کی خلائی ایجنسیاں خصوصاً ناسا، اسرو سے تعاون سے کتراتا رہا ہے مگر چندریان-3 کی کامیابی سے ناسا کو بھی خوشی ہوئی۔ اب ناسا کی بھی خواہش ہو گی کہ اسرو کی معاونت کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ ناسا کے چیف نے ہماری کامیابی پر خوشی اور فخر کا اظہار کیا ہے جو ایک مثبت ردعمل ہے۔ اب خلائی سائنس دانوں نے مریخ اور زہرہ کے مشن کی تیاری شروع کر دی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ چندریان-3 کی چاند پر شاندار کامیاب لینڈنگ کے بعد اب اسرو نے سورج پر کمندیں ڈالنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ چنانچہ وہ سورج کے سائنسی مطالعے کے لیے ایک ہفتہ میں ہی دو ستمبر کو آدتیہ ایل کے ذریعہ آفتاب مشن کو بھیجنے کی تیاری میں ہے۔ اسرو کی اطلاع اسپیس اپلی کیشن سنٹر احمد آباد کے ڈائرکٹر نیلیش ایم دیسائی نے دی ہے۔ آدتیہ ایل سورج کا مطالعہ کرنے والی اسپیس بیسڈ انڈین لیباریٹری ہے۔ اسے سورج کے ارد گرد بننے والے کورونا کے ریموٹ آبزرویشن کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایل-1 سورج زمین کے لیگ رینجین پوائنٹ پر رہ کر سورج کے قریب اٹھنے والے طوفان کا مطالعہ کرے گا۔ یہ پوائنٹ زمین سے 15 لاکھ کلو میٹر دور ہے اور اسے وہاں تک پہنچنے کے لیے چار ماہ لگیں گے۔ اس کے ذریعہ لیگ رینجین پوائنٹ کے چاروں طرف کے آربٹس، کرومواسفیر، فوٹو اسفیر سب سے خارجی تہہ کورونا کے مختلف ویب بینڈس سے سات پلے لوڈ کے ذریعے تجربہ کرے گا۔ یہ سٹیلائٹ یو آر راو سیٹی لائٹ سنٹر میں تیار کردہ تھے۔ یہ ملک کے اداروں کی شرکت سے بننے والا مکمل طور سے دیسی ادارہ ہے۔ یہ بنگلورو کے انڈین انسٹیٹیوٹ آف اسٹرو فزکس ( IIA) ویزیبل ایمیشن لائن کورویا گراف سے اس کے پے لوڈ کو تیار کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انٹر یونیورسٹی سنٹر فار اسٹرونومی ایٹاسٹروزفکس پونے نے مشن کے لیے سولر الٹرا وائیلٹ امیجر پے لوڈ کو فعال بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ ایکسرے کے پے لوڈ کا استعمال سورج کی لپٹوں کو مشاہدہ کرنے اور یو وی پے لوڈ چارجڈ پارٹیکلس کے ہیکو آربیٹ تک پہنچنے والی میگنیٹک فیلڈ کے بارے میں اطلاع دے گا۔ آدتیہ یان کو سورج اور زمین کے درمیان ہیلو آربٹ میں نصب کیا جائے گا جو ایل-1پوائنٹ کے قریب ہیلو آربٹ میں نصب کردہ نصب کردہ سٹیلائٹ سورج کا کسی سورج گرہن کی مسلسل نگرانی کرسکتا ہے ۔جس سے ریٹیل ٹائم سولر حرکات اور اسپس سے موسم کی بھی نگرانی کی جا سکے گی۔ توقع ہے کہ آدتیہ ایل اے پے لوڈ کو زونل ہیٹنگ، کورونل ماس (ایبجکشن) پری فلٹیر اور پری فلٹیر حرکات کی خصوصیات، پارٹیکلس کے موومنٹ اور اسپیس ویدر کو سمجھنے کی اطلاع دے گا۔ آدتیہ ایل-1 کے بعد بڑی مہم گگن یان ہوگی۔ اس سے پہلی بار کسی بھارتی اسپیس کے مسافر کو ملکی اسپیس کرافٹ سے خلا میں راونہ کیا جاسکے گا۔ اس مشن پر لاگت دس ہزار کروڑ روپے ہوگی۔ یہ مستقبل قریب میں بہت بڑا مشن ہوگا۔
***

 

***

 بھارتی سائنس دانوں نے چندریان-2 کی ناکامی سے سبق لیتے ہوئے بہت سارے تجربات کیے جس سے آج انہیں بھرپور کامیابی ملی۔ واضح رہے کہ بھارتی سائنس دانوں نے اپنے دم پر خود اعتمادی کے ساتھ تمام مہمات کو سر کرلیا ہے۔ مغربی ممالک کی خلائی ایجنسیاں خصوصاً ناسا، اسرو سے تعاون سے کتراتا رہا ہے مگر چندریان-3 کی کامیابی سے ناسا کو بھی خوشی ہوئی۔ اب ناسا کی بھی خواہش ہو گی کہ اسرو کی معاونت کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ ناسا کے چیف نے ہماری کامیابی پر خوشی اور فخر کا اظہار کیا ہے جو ایک مثبت ردعمل ہے۔ اب خلائی سائنس دانوں نے مریخ اور زہرہ کے مشن کی تیاری شروع کر دی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023