پہلی مرتبہ ملک کی پندرہ ریاستوں میں مسلمانوں کی اقتدار میں نمائندگی صفر
بی جے پی نے سیاسی پالیسی ایسی بنائی کی اب کانگریس کے علاوہ دیگر پارٹیاں بھی مسلمانوں کو حصہ داری دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہیں
نئی دہلی ،17دسمبر :۔
یوں تو ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی فیصد کے اعتبار سے 14 فیصد مانی جاتی ہے وہیں مسلمان اس ملک میں دوسری بڑی آبادی ہیں مگر سیاست اور اقتدار میں حصہ داری پر نظر ڈالیں تو ملک بھر میں پندرہ ریاستوں میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے ۔ان ریاستوں میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے ۔نہ ہی بی جے پی نے کسی مسلمان کو وزیر کا عہدہ دیا ہے اور نہ ہی کانگریس نے کسی مسلم کو وزیر بنایا ہے ۔
رپورٹ پر نظر ڈالیں تو پہلی بار، مرکز سمیت 15 ریاستوں کی حکومت میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہوگا۔ ان میں آسام، گجرات اور تلنگانہ جیسی بڑی ریاستیں بھی شامل ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 45 لاکھ سے زیادہ ہے۔مگر اقتدار میں انکی نمائندگی صفر ہے ۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے جو کہ ہندوؤں کے بعد سب سے بڑی آبادی ہے ۔ کانگریس کے زیر اقتدار تلنگانہ میں کابینہ میں توسیع ہوئی ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس نے ہر طبقہ کو حصہ دیا لیکن ایک بھی مسلمان کو وزیر نہیں بنایا۔
بی جے پی کی حکومت والی مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی مسلمانوں کے وزیر بننے کے امکانات صفر ہیں۔ کیونکہ تینوں ریاستوں میں ایک بھی مسلم ایم ایل اے بی جے پی کے نشان پر جیت کر ایوان میں نہیں پہنچا ہے۔
پہلی بار مرکزی حکومت میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔ اقلیتی وزارت کی کمان اسمرتی ایرانی کے پاس ہے مودی حکومت کے پہلے دور میں نجمہ ہپت اللہ اور مختار نقوی جیسے مسلم لیڈروں کو وزیر بنایا گیا۔مختار کو دوسری مدت میں بھی وزیر بنایا گیا تھا لیکن 2021 کی کابینہ کی توسیع میں انہیں ہٹا دیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکز میں 7 بڑے عہدوں پر ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ ان میں صدر، نائب صدر، اسپیکر، چیف جسٹس، وزیر اعظم، چیف الیکشن کمشنر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے شامل ہیں۔
اس وقت ملک میں 28 گورنر مقرر ہیں جن میں سے صرف 2 مسلمان ہیں (عبدالنذیر، آندھرا پردیش اور کیرالہ عارف خان)۔ سپریم کورٹ میں اس وقت کل 34 جج ہیں جن میں سے ایک جج مسلم ہے۔ آسام میں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں، جب کہ تلنگانہ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 45 لاکھ ہے۔
اتر پردیش کی طرح یہاں بھی کسی مسلمان کو وزیر بنانا آسان نہیں ہے۔ اتر پردیش میں کوئی مسلم ایم ایل اے نہ ہونے کے باوجود بی جے پی نے دانش آزاد انصاری کو وزیر بنایا تھا۔ انہیں کونسل کے کوٹے سے ایوان میں بھیجا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ کی بات کریں تو اس وقت ملک کی کسی بھی ریاست میں ایک بھی مسلم وزیر اعلیٰ نہیں ہے۔ اعدادوشمار کی بات کریں تو اس وقت ملک کی 28 ریاستوں اور 2 مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں منخب ہیں۔ان میں سے 25 وزرائے اعلیٰ ہندو، 2 عیسائی اور ایک ایک بدھ اور سکھ کمیونٹی سے ہے۔
کانگریس کی حکومت والی دو ریاستوں میں بھی کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔کانگریس کے پاس اس وقت 3 ریاستیں ہیں۔ کرناٹک کو چھوڑ کر کانگریس نے ہماچل اور تلنگانہ میں کسی مسلمان کو وزیر نہیں بنایا ۔ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کا اقتدار میں حصہ مسلسل کم ہوتا جارہا ہے؟
1.روایت کے مطابق پہلے کی حکومت میں مسلم لیڈروں کو صدر یا نائب صدر یا کوئی اور بڑا عہدہ ملتا اگر موجودہ حکومت نے روایت پر عمل نہیں کیا تو اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
- اسمبلی اور لوک سبھا سیٹوں کی حد بندی بھی ایک وجہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حد بندی کی وجہ سے کئی مسلم اکثریتی سیٹوں پر بھی مسلمان ایم ایل اے اور ایم پی نہیں بن پا رہے ہیں مثلا بہار کا گوپال گنج، یوپی کا نگینہ اور بلند شہر، گجرات کا کچھ اور احمد آباد ویسٹ ایسی لوک سبھا سیٹیں ہیں جہاں مسلم آبادی دلتوں سے زیادہ ہے، لیکن یہ سیٹیں 2009 میں دلتوں کیلیے مخصوص کر دی گئیں-
بتایا جاتا ہے کہ 1990 کے بعد حالات تبدیل ہو گئے اور مسلمانوں کی سیاسی حیثیت بکھرتی چلی گئی ۔مسلمانوں کے علاوہ ہندو ایک پارٹی کے تحت متحد ہوتا چلا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ دھیرے دھیرے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کم ہونے لگی اور اسی طرح وہ اقتدار سے بھی غائب ہوتے چلے گئے ۔اب بی جے پی نے ایسی پالیسی اپنائی ہے کہ ملک کی سیاسی سمت کو ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔اب کانگریس بھی مسلمانوں کو آگے لانے یا سیاسی طور پر حصہ داری دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو رہی ہے ۔