
پہلگام حملے میں شہید نیوی افسر کی بیوہ کا جرات مندانہ موقف، کشمیریوں اور عام مسلمانوں کے خلاف نفرت سے اظہار بے زاری
پہلگام حملے میں شہید نیوی افسر کی بیوہ کا جرات مندانہ موقف، کشمیریوں اور عام مسلمانوں کے خلاف نفرت سے اظہار بے زاری
محمد ارشد ادیب
پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں کو ملک بدر کرنے کا معاملہ، زمین کے بعد انسانوں کا بٹوارہ
کسان لیڈر راکیش ٹکیت کی پگڑی اچھالنے پر کسان یونین نے کھولا مورچہ۔ جنگی جنون میں اپنوں سے بھی غیروں جیسا سلوک
نیپال سرحد سے متصل مدارس پر یو پی سرکار کا عتاب، کئی مدرسےبند، انہدامی کاروائی کا خطرہ
چھتیس گڑھ کی سنٹرل یونیورسٹی میں نماز پر تنازعہ،غیر مسلم پروفیسر پر مسلمانوں کے ساتھ دیگر طلبہ سے نماز پڑھوانے کا الزام
پہلگام سانحے کے بعد پورے ملک، خاص طور پر شمالی بھارت میں جنگ کی سی کیفیت طاری ہے۔ کوئی پاکستان کو ملیا میٹ کرنے کی بات کر رہا ہے، کوئی چند سر پھرے انتہا پسندوں کی بزدلانہ کرتوت کا بدلہ پوری کشمیری قوم سے لینا چاہتا ہے اور کوئی ہندو-مسلم منافرت میں اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ عام مسلمانوں کو بھی ملک کا غدار سمجھتا ہے تاہم، جنگی ہیجان اور نفرت کے اس طوفان میں نیوی کے شہید افسر نروال کی بیوہ ہمانشی نروال نے جو بیان دیا ہے وہ کروڑوں ہندوستانیوں کے ساتھ پورے خطے کے لیے امید کی کرن ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ کشمیریوں یا عام مسلمانوں کے لیے نفرت نہیں چاہتی ہیں انہیں امن اور انصاف چاہیے۔ دہشت گردوں کو ان کے کرتوتوں کی سزا ملنی چاہیے۔ یاد رہے کہ بحری فوج کے 26 سالہ افسر ونے نروال کی شہید ہونے سے ایک ہفتہ پہلے ہی شادی ہوئی تھی، دونوں وادی کشمیر میں ہنی مون منانے گئے تھے۔ اس سے آپ ہمانشی کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لیکن مشکل کی اس گھڑی میں بھی ہمانشی نے جو ہمت اور حوصلہ دکھائی ہے اس کی پورے ملک میں تعریف ہو رہی ہے۔ ایکس کے ایک صارف نے ان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے "وقت کے تقاضے کو محسوس کرتے ہوئے بہت ہی اچھا پیغام دیا ہے شہید لفٹننٹ نروال کی اہلیہ نے اہل وطن کو، ایک سچے بھارتی کی یہی پہچان ہے۔” رام نواس کھٹکر نے ہمانشی کی ستائش کرتے ہوئے لکھا کہ ہمانشی کی بات سر پر نہیں دل پر پڑتی ہے یہ آواز ہی بھارت کی اصلی طاقت انسانیت اور ایکتا ہے نفرت سے نہیں انصاف اور پرامن بقائے باہم سے ملک مضبوط ہوتا ہے۔” واضح رہے کہ قومی اور سوشل میڈیا پر ہمانشی کے حوالے سے ہی دھرم پوچھ کر مارا جیسا نفرتی ایجنڈا چلایا گیا ہمانشی کے بیان نے اس پروپگینڈے کی ہوا نکال دی ہے۔
نینی تال میں جنسی جرم بنا فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب
اتر اکھنڈ کے سیاحتی مقام نینی تال میں ایک مجرمانہ واردات فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بن گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نینی تال کے تفریحی مقام ملی تال میں ایک 65 سالہ شخص مسلم شخص پر ایک نابالغہ کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام لگا جس سے مقامی لوگ بھڑک گئے اور انہوں نے ملی تال میں واقع مسجد کے سامنے احتجاج کیا اور اس کے آس پاس مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔ مقامی باشندوں کے نے کہا کہ ملزم کی گرفتاری کے باوجود فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ مسلم دکانداروں کے ساتھ مارپیٹ اور بدسلوکی کی گئی۔ ایک پولیس اہل کار کی مسلم نیم پلیٹ دیکھ کر اس کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک لڑکی نے جب شر پسندوں کو روکنے کی کوشش کی تو اسے بھی برا بھلا کہا گیا۔ شیلا نیگی نام کی اس لڑکی نے نینی تال میں نابالغ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے خلاف احتجاج کے دوران مسلم دکانداروں سے مارپیٹ کی مخالفت کی تھی۔ وائرل ہونے والے ویڈیو میں شیلا نیگی مظاہرین کو سمجھا رہی ہے کہ ایک مجرمانہ واردات میں آپ لوگ ہندو-مسلمان کیوں کر رہے ہیں؟ اس نے موقع پر موجود پولیس والوں کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے۔ جہاں ایک طرف ہمانشی کی طرح شیلا نیگی کی ہمت کی لوگ داد دے رہے ہیں وہیں سوشل میڈیا پر بہت سے شر پسند انہیں گالیاں دے رہے ہیں۔ شیلا نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنا رد بیان کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ مجھے عصمت دری کی دھمکی دے رہے ہیں۔ میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ جب وہ مجھے ہندوستانی شہری ہونے کے باوجود تحفظ کا احساس نہیں دلا پا رہے ہیں تو معصوم بچی کو انصاف کیسے دلائیں گے؟ اس واقعے کے بعد سے نینی تال میں کشیدگی کا ماحول ہے اور بہت سے سیاحوں نے اپنی بکنگ کینسل کرا دی ہے۔ اتر اکھنڈ ہائی کورٹ نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو شر پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ہائی کورٹ نے ملزم عثمان کا گھر توڑنے پر بھی روک لگا دی ہے۔ عدالت کے سخت رویے کو دیکھتے ہوئے مقامی انتظامیہ نے کورٹ سے بلا شرط معافی مانگ لی ہے۔ عثمان جیل میں ہے اور انتظامیہ نے گھر توڑنے کے لیے نوٹس میں صرف تین دن کی مہلت دی جبکہ سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کے مطابق جواب دینے کے لیے 15 دن کی مہلت ملنی چاہیے۔ اتر اکھنڈ ہائی کورٹ نے اس پورے معاملے میں پولیس اور انتظامیہ کی سرزنش کی ہے۔
نینی تال سے متصل شہ تر ہلدوانی میں بھی بی جے پی یوا مورچے کے کارکنوں نے بریانی فروشوں کو نام چیک کرنے کے نام پر ہراساں کیا۔ ہلدوانی کے ایک مقامی صحافی نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت میں بتایا کہ کچھ مفاد پرست عناصر مصیبت میں موقع تلاش کرنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ نینی تال اور ہلدوانی میں ایک مجرمانہ واردات کو بنیاد بنا کر کچھ لوگ مسلمانوں کی روزی روٹی چھینا چاہتے ہیں تاکہ ان کی جگہ پر اپنے کاروبار جما سکیں۔ ہلدوانی کے کملوا گانجا علاقے میں بھی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کی دکانیں زبردستی بند کروائی گئیں جس سے مقامی مسلمان پریشان ہیں۔
سنجولی مسجد کے وجود پر خطرہ
شملہ بلدیہ کی کمشنر کورٹ نے ہماچل پردیش کے سنجولی میں واقع قدیم مسجد کی سبھی منزلیں توڑنے کا حکم دیا ہے۔ وقف بورڈ مسجد کی دستاویز اور تعمیر سے متعلق نقشہ و دیگر دستاویزات عدالت کے سامنے پیش کرنے میں ناکام ثابت ہوا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے مسجد کی بالائی منزل کو توڑنے کی ہدایت دی گئی تھی جس پر مسجد انتظامیہ بھی رضا مند تھی لیکن وقف بورڈ کی لاپروائی اور نا اہلی سے آزادی سے پہلے سے قائم اس قدیم مسجد کے وجود پر ہی خطرہ منڈلانے لگا تھا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس طرح کے خطرات کو بھانپتے ہوئے ہی وقف ترمیمی قانون کی مخالفت کی ہے۔ بورڈ نے پہلگام حملے کے بعد احتجاجی مہم کچھ دنوں کے لیے روک لی تھی لیکن معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے پورے ملک میں بتی گل مہم چلائی گئی۔ بورڈ کے مطابق اس مہم سے پورے ملک کے مسلمانوں میں ملی اتحاد کا جذبہ پیدا ہوا ہے اور وہ آگے بھی اس طرح کے احتجاجی پروگرام چلاتے رہیں گے۔
پاکستانیوں کے ساتھ بنگلہ دیشی اور روہنگیائی بھی نشانے پر
حکومت کے فیصلے کے بعد پاکستانی شناخت رکھنے والے شہریوں کو چن چن کر واپس بھیجا جا رہا ہے جس کے سبب درجنوں خاندان بکھر گئے ہیں۔ ماں پاکستان چلی گئی تو ہندوستانی باپ کے بچے بھارت میں ہی رہ گئے۔ واگھا بارڈر پر اپنی بہنوں کو چھوڑنے کے لیے آنے والے شریف میاں کہتے ہیں "پہلے زمین کا بٹوارا ہوا تھا اب انسانوں کا بٹوارہ ہو رہا ہے” انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو ختم کر دینا چاہیے بھارت اور پاکستان کو مل جل کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے تاکہ انسانی رشتے سلامت رہیں، کسی ماں کو اپنے بچوں سے یا بچوں کو اپنے باپ سے محروم نہ ہونا پڑے.
بریلی کے نواب گنج علاقے میں ایک خاندان ایسا بھی ہے جس میں ماں اور بڑی بیٹی پاکستانی شہری ہیں اور شوہر کے ساتھ تین چھوٹی بیٹیاں ہندوستانی ہیں۔ مہتاب فاطمہ اور ان کی بڑی بیٹی کافی عرصے سے طویل مدتی ویزے پر ہندوستان میں مقیم ہیں۔ وہ 2023 میں ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست بھی دے چکی ہیں لیکن ابھی تک ان کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اب انہیں اس بات کا ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں انہیں بھی اپنی بیٹی کے ساتھ ملک بدر نہ کر دیا جائے۔ ایسے بے شمار معاملات ہیں جن پر حکومت کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
گجرات کے بعد یو پی میں بھی بنگلہ دیشی اور روہنگیا مسلمان ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے تمام اضلاع کے حکام کو ہدایت جاری کی ہے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہدایت پر پاکستانیوں کے بعد بنگلہ دیشیوں کی تلاش تیز ہو گئی ہے۔ اس مہم کا مقصد بظاہر غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کر کے واپس بھیجنا ہے لیکن صرف ایک مذہب کے لوگوں کو تلاش کرنے سے دوہرے رویے کے سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ نیپال یا بھوٹان کے باشندوں کو تلاش کرنے کی مہم کیوں نہیں چلائی جاتی؟
جنگی جنون میں اپنوں سے بھی غیروں جیسا سلوک
پہلگام حملے کے بعد کچھ لوگوں پر جنگ کا ایسا جنون سوار ہو گیا ہے کہ وہ حق و انصاف کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ بھارتی کسانی یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت کے ساتھ مظفر نگر کی ریلی میں ایسا ہی ہوا جب انہوں نے دریائے سندھ کا پانی بند کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ سرحد کے اس پار بھی کسان رہتے ہیں۔ ان کے اس بیان کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب وہ مظفر نگر کی جن آکروش ریلی میں پہنچے تو پہلے تو ان کی ہوٹنک کی گئی اور بعد میں مار پیٹ کے ساتھ سر عام پگڑی اچھالنے کی کوشش کی گئی۔ کسان یونین کے کارکن اس واقعے سے برہم ہیں اور انہوں نے مظفر نگر میں جوابی ریلی کرتے ہوئے پگڑی اچھالنے کے واقعے کو پورے کسان سماج کی بے عزتی قرار دیا۔ کیرانا سے سماج وادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقراء حسن نے کہا کہ پگڑی اچھالنے والے دہشت گردوں سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے چودھری راکیش ٹکیت کی مکمل حمایت کا بھی یقین دلایا۔ اس ریلی میں راکیش ٹکٹ کو عوامی نمائندوں اور کھاب پنچایتوں کی موجودگی میں اعزاز کے ساتھ دوبارہ پگڑی پہنائی گئی۔ اس دوران ان کی طبیعت بھی خراب ہوئی جس کے بعد انہیں علاج کے لیے مقامی ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ مظفر نگرپولیس نے اس سلسلے میں ایک کو گرفتار کیا ہے۔ گرفتاری کے بعد اس شخص نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی بھی مانگ لی ہے۔
براک نام کے ایک صارف نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کسانوں کو مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے اور فرقہ پرست گروہوں کو ختم کر دینا چاہیے جو لوگوں کو تقسیم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد قومی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کا کچھ حصہ دن رات ہندو مسلم پروپگنڈے میں مصروف ہے۔ میرٹھ اور علی گڑھ میں کچھ نفرت کے سوداگروں نے سرعام مسلمانوں کو گالیاں دیں اور ویڈیو بنا کر وائرل کیا۔ علی گڑھ پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی ار بھی درج کی ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ اس طرح کے معاملات میں ملزموں کو ہلکی سی تنبیہ کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
نیپال کی سرحد سے متصل مدرسوں پر عتاب
مشرقی اتر پردیش کے کئی اضلاع میں نیپال کی سرحد سے متصل مدرسوں پر یو پی حکومت کا عتاب نازل ہو رہا ہے۔ اضلاع بہرائچ اور سرابستی میں کئی مدرسوں کو جانچ کے بعد سیل کر دیا گیا ہے۔ سدرشن نیوز چینل نے دعویٰ کیا کہ اس علاقے میں تقریباً 300 مدرسوں اور مسجدوں کے خلاف کارروائی کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ سرابستی میں جمیعت علماء کے ایک وفد نے ضلع حکام سے ملاقات کر کے مدرسوں کو سیل نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس پر ضلع کلکٹر نے سیل کرنے کی کارروائی روکنے سے اتفاق کیا ہے لیکن کہا ہے کہ جانچ جاری رہے گی۔ واضح رہے کہ یو پی کی ریاستی حکومت مدرسوں کی کئی بار جانچ کرا چکی ہے اس کے باوجود غیر مجاز مدرسوں کے نام پر مسلسل پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جبکہ دستور کے مطابق اقلیتی طبقے کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ریاستی حکومت، ان منظور شدہ مدارس پر بھی کنٹرول چاہتی ہے جو اپنے نصاب تعلیم کے ساتھ دینی ادارے چلا رہے ہیں۔ ان مدارس کو زمین کے کاغذات مکمل نہ ہونے یا عمارت کے نقشہ پاس نہ کرانے کی وجہ سے غیر قانونی بتایا جا رہا ہے۔
مدھیہ پردیش میں کانگریس کے مسلم ایم ایل اے کو کھلے منچ سے دھمکی
مدھیہ پردیش کے بھوپال سے کانگریس کے رکن اسمبلی عارف مسعود کو بی جے پی لیڈر نے کھلے منچ سے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا کے قریبی اور بی جے پی ریاستی مجلس عاملہ کے رکن کرشنا گھاٹکے نے دھمکی دی کہ وہ پہلگام حملے میں مارے گئے لوگوں کے لیے تعزیتی مجلس میں ہی عارف مسعود سے نپٹ لیں گے۔ عارف مسعود کے حامیوں نے پولیس سے اس معاملے کی شکایت کی ہے۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر ۱۱
بھوپال میں ہی عصمت دری کے ایک ملزم فرحان کو پولیس کسٹڈی میں گولی لگی ہے۔ پولیس کے مطابق فرحان نے پولیس اہلکار سے پستول چھیننے کی کوشش کی جس سے اس کے پیر میں گولی لگ گئی۔ اس کے بعد اسے حمیدیہ ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا ہے۔ واضح ہے کہ فرحان پر ہندو تنظیموں کی جانب سے لڑکیوں کو لَو جہاد کے جال میں پھنسانے کا الزام ہے۔
چھتیس گڑھ میں ہندو طلبہ کو جبراً نماز پڑھوانے پر تنازعہ
چھتیس گڑھ کے بلاس پور میں گرو گھاسی داس سنٹرل یونیورسٹی میں مسلم طلبہ کے ساتھ غیر مسلم طلبہ کو بھی جبراً نماز پڑھوانے کے تنازعے نے طول پکڑ لیا ہے۔ ہندو تنظیموں کی شکایت کے بعد کئی اساتذہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی میں 26 مارچ سے یکم اپریل تک چار روزہ این ایس ایس کیمپ لگایا گیا تھا جس میں چار مسلم طلبہ تھے۔ ان کی دلجوئی کے لیے کیمپ کے دوران عید کی نماز ادا کرائی گئی جس میں غیر مسلم طلبہ نے بھی شرکت کی۔ اے بی وی پی کے ساتھ ہندو تنظیموں نے وائس چانسلر سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے پروفیسر دلیپ جھا کو معطل کر دیا۔ ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کے بغیر کارروائی کر کے نماز پڑھوانے کے ذمہ دار پروفیسر کو بچانے کا کام کیا گیا ہے، وہ آسانی سے کورٹ سے بحال ہو جائیں گے۔ کونی پولیس نے اس معاملے میں پروفیسر دلیپ جھا سمیت کیمپ کے دیگر ذمہ داروں کے خلاف بی این ایس کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس یونیورسٹی کے اساتذہ پر کمیونسٹ نظریے کی حمایت کرنے کا الزام لگ چکا ہے۔ ہندو تنظیموں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025