پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

حالیہ تنازعات کے دوران منی پور کے مسلمانوں کا کردار نا قابل فراموش

ابن ایاز فاؔئز عمری

صرف مسلمان ڈرائیور ہی کیوں شورش زدہ علاقے میں داخل ہورہے ہیں؟
کسی میتی یا کوکی کو ایک دوسرے کے علاقے میں جانے کی ہمت نہیں ہے
منی پور پچھلے چند مہینوں سے جس قسم کے قبائلی تشدد کی آگ میں جھلستا رہا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن ملک بھر میں ہنگامے ہونے کے بعد ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کا یہی ماننا ہے کہ حالات پر قابو پالیا گیا ہے اور مرکزی دھارے کی میڈیا میں بھی اس پر کوئی گفت و شنید کا معاملہ نہیں ہورہا ہے جس سے ملک کے عام عوام اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ منی پور میں سارے حالات معمول پر آچکے ہیں لیکن جب حقائق کا جائزہ لیا جاتا ہے اور صحافی حضرات اس شورش زدہ علاقے میں جاکر دیکھتے ہیں تو منظر کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔ یعنی تشدد کے واقعات کے بعد منی پور دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ نہ تو کوئی میتی کوکی کے زیر اثر علاقوں میں جا رہا ہے اور نہ ہی کوکی میتی کے غلبہ والے علاقوں میں آ رہا ہے۔ ابھی بھی میتھی اور کوکی قبائل کے درمیان آپسی نزاعات اس انتہا پر ہیں کہ کوئی بھی ایک برادری کا شخص کسی دوسری برادری کے علاقے میں جانے کا تصور بھی نہیں کررہا ہے ،یہ بات نہ صرف وہاں کے عام شہریوں کے متعلق ہے بلکہ ان دونوں قبائل کے علاقوں میں موجود سرکاری اہلکاروں میں سے بھی کئی لوگ ہمت نہیں کر رہے ہیں کہ وہ کسی سرکاری کام سے ہی سہی دوسرے علاقے میں جائیں ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کے لوگ کس قسم کے خوف و ہراس کے سائے تلے جینے پر مجبور ہیں اورغیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں ۔ان حالات میں ھمل و نقل اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے اس علاقے میں صرف ایک ہی قوم ہے جو دونوں برادریوں کے درمیان ایک پُل کا کام انجام دے رہی ہے اور وہ ہیں مسلمان، کیونکہ مسلمانوں کا کسی بھی قبائلی گروہ سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، وہ بآسانی دونوں کمیونیٹیوں کے علاقوں میں حمل و نقل و کرسکتے ہیں اور اگر کوئی باہر کا شخص ان علاقوں میں جانا چاہے تو اسے وہاں موجود مسلمان ڈرائیوروں کا ہی تعاون حاصل کرنا ہوگا۔
ابھی پچھلے دنوں دی موکنائک کی ٹیم منی پور کے امپھال اور چوراچندپور جیسے علاقوں میں رپورٹنگ کی غرض سے گئی تھی تو ان کو امپھال سے چوراچندپور جانے کیلئے ایک بھی غیر مسلم آٹو ڈرائیور نہیں ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب امپھال میں انہوں نے غیر مسلم ڈرائیوروں سے پوچھا کہ ’’ کیا تم چوراچند پور جاؤ گے…؟‘‘ ان میں سے کئی لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ ’’ ارے وہاں مرنے کون جائے گا؟ وہاں تو گولیاں چل رہی ہیں! ‘‘امپھال میں کسی بھی عام آٹو ڈرائیور، رکشہ چلانے والے، یا ونگر ویان ڈرائیور سے یہ سوال پوچھے گا تو یہی جواب ملے گا۔ اور ساتھ ہی یہ مشورہ بھی ضرور دیا جائے گا کہ اگر آپ چورا چند پور جانا چاہتے ہیں تو کسی مسلمان ڈرائیور کے ساتھ جائیں وہ آپ کی مدد کرسکتا ہے ۔
دارالحکومت امپھال سے مویرونگ کھوئیل کیتھل بازار، پھر وہاں سے فوگکچاو پولیس اسٹیشن تک کوئی بھی عام ڈرائیور بآسانی جا سکتا ہے، اس کے آگے نہ تو کسی ڈرائیور میں آگے بڑھنے کی ہمت ہے اور نہ ہی وہاں پر تعینات سیکورٹی فورسز کسی مقامی یا غیر مسلم ڈرائیور کو آگے بڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں ۔ اس کا مطلب آسان الفاظ میں یہی ہے کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بھی یہ بات طے شدہ ہے کہ گاڑی کا ڈرائیور یا تو مسلمان ہو یا جس علاقے میں جایا جارہا ہے وہاں کی اکثریت والی کمیونیٹی سے اس کا تعلق ہو تبھی اس کو آگے بڑھنے کی اجازت ہوگی ورنہ روک لیا جائے گا۔
بلآخر موکنائک کی ٹیم کو عارف نامی ایک مسلمان ڈرائیور کو ہی ہائر کرنا پڑا جو امپھال کے شہری ہیں اور ان کے پاس کار بھی ہے۔ عارف کے کہنے کے مطابق جب سے ریاست میں تشدد کے واقعات سامنے آرہے ہیں ، انہوں نے ریاست کے سب سے حساس مقام چورا چند پور کے کئی دورے کیے ہیں۔ اس میں کئی میڈیا والےبھی شامل ہیں جنہیں بحفاظت عارف نے ہی ان مقامات پر پہنچایا تھا کیونکہ اگر عارف یا کسی دوسرے مسلمان کو چھوڑ کر کسی میتھی یا کوکی ڈرائیور کی خدمات حاصل کی جاتیں تو دوران سفر ہی اہل قافلہ اپنے رہنما و رہبر یعنی ڈرائیور سے محروم ہوجاتے ۔اور بے یارو مددگار سر ِراہ کسی نصرتِ غیبی کے انتظار میں ٹہر جاتے ۔اسی لیے اکثر و بیشتر بلکہ تقریباً تمام ہی لوگ مسلم ڈرائیوروں کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
دی موکنائک کے راجن چودھری کہتے ہیں کہ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جب عارف سے ہماری ٹیم نے چورا چند پور لے جانے کے لیے کہا تو وہ مان گئے۔ انہوں نے تشدد سے متاثرہ کشیدہ سڑک اور اس کے خطرات اور دارالحکومت سے تقریباً 63 کلومیٹر دور پہاڑی پر جانے کے لیے 8000 روپے کا کرایہ مانگا۔ تاہم، ہم نے وہاں جانے کے لیے خود خطرہ مول لیا اور ہم کئی مقامی گاڑیوں اور سیکورٹی فورسز کی مدد سے چورا چندپور پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
دوران سفر ان لوگوں کو بھی سیکورٹی فورسز نے چورا چندپور کی طرف بڑھنے سے روکا کیونکہ آگے سیکورٹی فورسز کی تقریباً ایک درجن سے زیادہ چیک پوسٹیں بنا دی گئی ہیں۔ اس میں دو چار چیک پوسٹیں خود کوکی لوگوں کی ہی ہیں۔ وہ بھی ہر گزرنے والی گاڑی کو روک کر تفتیش کرتے ہیں کہ گاڑی میں بیٹھا ہوا مرد یا عورت کون ہے اور کہاں اور کس مقصد کے لیے جا رہا ہے۔ تسلی بخش جواب ملنے کے بعد ہی آگے بڑھنے کی اجازت دی جائے گی۔ راستے میں تقریباً ہر چیک پوسٹ پر یہاں آنے جانے والی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں سے ایک ہی سوال کیا جاتا ہے کہ ’’آپ میتی تو نہیں‘‘؟ اس کے بعد سرکاری شناختی کارڈ دیکھے جائیں گے، گاڑی کی تفصیلات چیک پوسٹ کے رجسٹر میں نوٹ کی جائیں گی اور ڈرائیور کی انٹری اس کے دستخط کے ساتھ ہوگی، اس کے بعد ہی گاڑی آگے بڑھے گی۔ یہ عمل پورے راستے میں تقریباً کئی بار ہوتا ہے۔
حقائق جمع کرنے اور یہ معلوم کرنے کے کہ آخر چورا چندپور کو صرف مسلمان ڈرائیور ہی کیوں جائیں؟ امپھال کے رہائشی بصیرنے کہا،ل کہ ہم میتیوں اور عیسائیوں (کوکی برادری) کے درمیان ہونے والی اس لڑائی میں شامل نہیں ہیں، اس لیے ہمیں دونوں طرف جانے کا راستہ دیا جا رہا ہے۔‘‘
اسی طرح امپھال میں ہی مائی کانگلا ٹورز اینڈ ٹریولز کی کیب سروس کے ایک ملازم نے دی موک نائک کو بتایاکہ ان کے پاس بہت سی گاڑیاں ہیں، لیکن وہ صرف مسلمان ڈرائیوروں کو ہی چوراچند پور جانے کے لیے بھیجتے ہیں،ان کے علاوہ کسی کو نہیں ۔اس نے چورا چندپور کا کرایہ 7000 روپے بتایا۔
ایک طرف جہاں مین سٹریم میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف منفی ماحول بنایا گیا ہے اور ماضی قریب تک بھی برسر اقتدار بی جے پی کی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کے کئی واقعات سامنے آتے رہے ہہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ،وہیں منی پور میں مسلمانوں کے خلاف معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں یہ مسلمان ہیں جو دو کشیدہ علاقوں کے درمیان لوگوں کو پہنچانے کے لیے ایک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کوکی اور میتی کے درمیان، جو ایک دوسرے کو بالکل پسند نہیں کرتے، تیسرے شخص کا واحد سہارا مسلمان ڈرائیور ہی ہیں ۔
حقائق سے پتہ چلا کہ کوکی اور میتی کے درمیان تناؤ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اگر کوئی سرکاری ملازم بھی ہے تو وہ غیر برادری کے زیر اثر علاقوں میں جانے سے گریز کر رہا ہے۔ موک نائک ٹیم کو چورا چندپور سے واپسی کا کوئی ذریعہ نہیں ملا اور اس وقت وہاں کوئی بھی مسلمان ڈرائیور موجود نہیں تھا اسی لیے انہوں نے چورا چند پور کے ڈی سی (ڈپٹی کمشنر) سے ملاقات کی اور کراس اوور کرنے کے لیے سیکورٹی فورسز سے تعاون طلب کیا۔ چورا چندپور کے ڈی سی دھرون کمار نے انہیں اپنے ایک اہلکار کو چورا چندپور کے باہر حساس مقامات پر قائم چیک پوسٹوں پر لے جانے کی ہدایت کی۔ تاہم چورا چندپور سے باہر نکلتے ہی کوکی والوں نے ساتھ آنے والی سرکاری گاڑی کو روکا اور شناخت پوچھی۔ یہ لوگ جس سرکاری گاڑی میں تھے اس کا ڈرائیور کوکی برادری سے تھا۔ اس نے کہا کہ ہمیں صرف کانگوے تک چھوڑ دو۔ اس نے راستے میں بتایا کہ وہ سرکاری گاڑی کا ڈرائیور ہونے کے باوجود میتی لوگ اس پر گولی چلا سکتے ہیں، اس لیے وہ آگے نہیں جا سکتا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشیدگی کی صورتحال ایسی ہے کہ کوکی اور میتی برادری ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ دونوں برادریوں کے درمیان تصادم کسی بھی وقت کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کسی بھی طرف سے کوئی شخص اپنے علاقے سے باہر غیر برادری کے زیر اثر علاقوں میں نہیں جا رہا ہے۔ دریں اثنا، یہ صرف مسلم ڈرائیور ہی ہیں جو اس شخص کو دوسرے علاقے میں لے جا سکتے ہیں جس کا کسی کمیونٹی سے کوئی تنازعہ نہ ہو۔
اگر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب دیکھا جائے تو صرف سات یا آتھ فیصد ہی ہے کیونکہ ریاست میں 2022 اور 2023 کی مسلم آبادی کا ڈیٹا ابھی تک پبلک ڈومین میں دستیاب نہیں ہے، لیکن اس سے پہلے کے اعداد و شمارکہتے ہیں کہ ریاست منی پور میں ہندو اکثریت میں ہیں۔ منی پور کی 41.39 فیصد آبادی کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ ریاست منی پور کے مجموعی طور پر 9 میں سے 4 اضلاع میں ہندو مذہب اکثریتی مذہب ہے۔ منی پور میں مسلم آبادی کل 28.56 لاکھ میں سے 2.40 لاکھ (8.40 فیصد) ہے۔ جبکہ منی پور میں عیسائی آبادی کل 28.56 لاکھ میں سے 11.79 لاکھ (41.29 فیصد) ہے۔
ان تمام حقائق سے صرف یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں مسلمان ہمیشہ سے پُر امن رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے اورمنی پور کے اس جنگ جیسے ماحول میں بھی حمل و نقل کے لیے اور دونوں برادریوں کے درمیان معاملات کی بحالی کے لیے مسلم کمیونیٹی ایک اہم کردار ادا کررہی ہے ۔جو ایک ناقابل فراموش خدمت ہے ۔
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
بشکریہ : راجن چودھری ،دی موکنائک

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023