پولیس نے جامعہ کے طلبا کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے ارادے سے حملہ کیا: رپورٹ
نئی دہلی: شہریت قانون کی مخالفت میں دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طالبعلموں کے مظاہرہ کے دوران پولیس کی وحشیانہ کارروائی کولےکر فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ جاری ہوئی ہے۔پیپلس یونین فار ڈیموکریٹک رائٹس (پی یو ڈی آر)کے چھ ممبروں کی ایک ٹیم نے جامعہ کے طالبعلموں، ٹیچنگ، نان ٹیچنگ اسٹاف، ڈاکٹر،زخمی طالبعلموں، مریضوں، مقامی لوگوں اور چشم دید گواہوں سے بات چیت کر کےاس رپورٹ کو تیار کیا ہے۔
اس رپورٹ کا نام بلیڈی سنڈے ہے، جس کو جمعرات کو دہلی میں جاری کیا گیا۔ رپورٹ میں 15 دسمبر کو یونیورسٹی کیمپس میں پولیس کے گھسنے اور طالبعلموں پر وحشیانہ کارروائی کے واقعات کی تفصیل دی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا،ہمیں ٹوٹے ہوئے تالے، آنسو گیس کے گولے کے کھوکھے، ٹوٹی کھڑکیاں اور فرنیچر اور فرش پر پھیلا خون دکھا۔ اس کے ساتھ ہی ایسی کئی علامتیں تھیں جن سے اس رات کو ہوئی تباہی کے منظر کا پورا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، طالبعلموں اور اساتذہ نے شہریت قانون اور این آر سی کی مخالفت میں پارلیامنٹ تک کے مارچ کا منصوبہ بنایا تھا۔اس بیچ پولیس نے مارچ کو روکنے کے لئے بیریکیڈ لگا دیے، جس کے بعد طالبعلموں نے بیریکیڈ توڑکر مارچ جاری رکھا۔اس بیچ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے چھوڑے، جس سے سڑکوں پر افرا تفری مچ گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبعلم زخمی ہوئےاور مبینہ طور پر پولیس نے زخمی طالبعلموں تک طبی مدد پہنچنے سے روک دیا۔
رپورٹ کہتی ہے کہ اس بیچ پولیس بنا منظوری کے کیمپس پہنچی اور بیٹن سے طالبعلموں کو پیٹنا شروع کیا۔ پولیس نے طالبعلموں کی موٹرسائیکل توڑ دی۔پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے اور طالبعلموں پر لاٹھی چارج کرنا شروع کیا۔ اے ایم یو کی طرح ہی جامعہ میں بھی پولیس نےطالبعلموں پر فرقہ وارانہ تبصرہ کیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے طالبعلموں پر وحشیانہ کارروائی کرنے کے دوران ان کے لئے جہادی، غدار اور کٹوا جیسے الفاظ کااستعمال کیا۔ پولیس نے مبینہ طور پر خواتین کو جنسی تشدد کی بھی دھمکیاں دیں۔انڈین ایکسپریس کے مطابق رپورٹ نے جامعہ کے کیمپس کے اندر اور باہر طالب علموں اور مظاہرین پر پولیس کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے جان بوجھ کر لوگوں کو حراست میں رکھا اور جان بوجھ کر زخمیوں تک طبی مدد نہیں پہنچنے دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی زخمی طالبعلم پولیس کی وحشیانہ کارروائی سے بچنے کے لئے کیمپس کے اندر ہی خواتین کے ہاسٹل میں کئی گھنٹوں تک چھپےرہے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کے جموں و کشمیر ہاسٹل میں رہ رہے لوگوں نے جان پہچان والوں اور شدیدطور پر زخمیوں کو ہاسٹل کی پہلی منزل پر پناہ دی اور لائٹیں بند کر دی۔ جب شام کو تقریباً 7.30 بجے ایمبولینس کیمپس میں گھسی تو تین شدیدطور پر زخمیوں کو ہاسٹل سے باہر نکالاگیا۔
رپورٹ میں کہا گیا،پولیس کے ذریعے دکھائی گئی یہ بےرحمی پوری طرح سے ناقابل قبول ہے۔ طالبعلموں کو جس طرح سے چوٹیں آئی ہیں، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پولیس ان کو زیادہ سے زیادہ چوٹ پہنچانا چاہتی تھی۔رپورٹ کہتی ہے کہ تقریباً 85 طالبعلموں کا الشفا ہاسپٹل میں علاج کیا گیا۔ ان 85 طالبعلموں میں سے 35 کو ٹانکے لگائے گئے، 15سے 20 کو آرتھوپیڈک فریکچر ہوا ہے اور تقریباً 20 کے سر میں چوٹیں لگی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیمپس میں تعینات سکیورٹی گارڈ اور کیمپس میں موجود مسجد کے امام کو بھی پیٹا گیا تھا۔ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ وہ رپورٹ میں لگائے گئے تمام الزامات کو خارج کرتے ہیں۔
(بشکریہ دی وائر اردو)