پرشانت بھوشن توہین عدالت کے مجرم ہیں، سزا کا فیصلہ 20 اگست کو: سپریم کورٹ
سینیئر وکیل پرشانت بھوشن کو چیف جسٹس ایس اے بوبڑے اور عدالت عالیہ پر دو ٹویٹ کرنے پر توہین عدالت کا مجرم قرار دیا گیا
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کل سینئر وکیل پرشانت بھوشن کو چیف جسٹس ایس اے بوبڑے اور سپریم کورٹ کے خلاف دو ٹویٹ پیغام ارسال کرنے کی پاداش میں توہین عدالت کا مجرم قرار دیا ہے۔ عدالت عظمی اس معاملے میں سزا کا فیصلہ 20 اگست کو سنائے گی۔
جسٹس ارون مشرا، جسٹس بی آر گوانی اورجسٹس کرشنا مراری پر مشتمل سہ رکنی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا۔
جناب بھوشن نے 3 اگست کو ایک حلفیہ بیان میں کہا تھا کہ انھیں اپنے ٹویٹ کے ’’ایک حصے ‘‘ پر افسوس ہے اور کسی جج کی نکتہ چینی کرنے سے عدالت یا اس کے اختیار کی توہین نہیں ہوجاتی۔
انھوں نے چیف جسٹس بوبڑے کی ایک سپر بائک پر تصویر پر تبصرہ کیا تھا۔ 2 اگست کے اپنے حلفیہ بیان میں جناب بھوشن نے کہا تھا کہ انھیں افسوس ہے کہ انھوں نے یہ پوچھ لیا کہ جسٹس بوبڑے نے ہیلمٹ کیوں نہیں پہنا ہوا تھا، کیوں کہ بائک اسٹینڈ پر کھڑی تھی۔
’’سب سے پہلے میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا تھا کہ بائک اسٹینڈ پر کھڑی تھی، تاہم ٹویٹ کے بیان کے بقیہ حصے پر میں اب بھی قائم ہوں۔‘‘
عدالت نے توہین عدالت کے الزام سے یہ کہتے ہوئے ٹوئٹر کو بری کردیا کو وہ مائکروبلاگنگ سائٹ کی وضاحت کو قبول کرتی ہے۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ ’’بھوشن کے ٹویٹ مسخ شدہ حقائق پر مبنی ہیں جو مجرمانہ توہین کے مترادف ہیں۔ مذکورہ ٹویٹ عوام میں عدلیہ کے کام کی منصفانہ تنقید نہیں کرتے۔ اس طرح کی فحش الزام تراشی جو عدالت کی اہانت کا میلان رکھتی ہو، کسی ایسے وکیل سے متوقع نہیں ہے جس کا 30 سالہ تجربہ رہا ہو۔‘‘
جناب بھوشن نے کہا کہ وہ اپنے آزادی رائے کے حق کا استعمال کر رہے تھے اور عدالت کے کام پر اپنی رائے رکھنا ’’انصاف میں خلل‘‘ ڈالنا نہیں ہے جس سے عدالت کی اہانت کا مقدمہ چلائے جانے کی ضروت پڑ جائے۔
گذشتہ سماعت میں جناب بھوشن کے وکیل دشینت دوے نے کہا تھا کہ دونوں ٹویٹ عدلیہ کے خلاف نہیں ہیں۔ ’’یہ ذاتی حیثیت میں ججوں کے عمل کے خلاف تو ہیں لیکن یہ عناد پر مبنی نہیں اور انصاف دینے کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتے۔‘‘