
ٹرمپ انتظامیہ کا کریک ڈاؤن: کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی طالب علم کی گرفتاری
گرین کارڈ بھی منسوخ؟ محمود خلیل کی گرفتاری پر متنازعہ دعوے اور قانونی ماہرین کی تشویش
نیویارک: (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)
امریکی محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) نے کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور غزہ یکجہتی مہم کے سرگرم رہنما، محمود خلیل کو نیویارک میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا۔ خلیل، جو اپنی حاملہ بیوی کے ساتھ گھر میں داخل ہو رہے تھے،انہیں سادہ لباس میں ملبوس دو ایجنٹوں نے عمارت میں گھس کر حراست میں لے لیا۔
حقوقِ انسانی کے کارکنوں کے مطابق، ایجنٹوں نے ابتدائی طور پر خلیل کی شناخت معلوم کرنے کے بعد ان کو اطلاع دی کہ ان کا طالب علم ویزا منسوخ کر دیا گیا ہے۔ لیکن جب ان کی اہلیہ نے ان کا گرین کارڈ پیش کیا تو ایک ایجنٹ نے حیرانی سے فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے کہا، "ارے! اس کے پاس تو گرین کارڈ ہے!” لیکن چند لمحوں بعد ان میں سے ایک نے کہہ دیا کہ گرین کارڈ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ایڈووکیٹس کا کہنا ہے کہ محمود خلیل کی گرفتاری میں قانونی خلاف ورزیاں واضح ہیں۔ خلیل کے وکیل ایمی گریر کے مطابق، انہوں نے DHS اہلکاروں سے بارہا وارنٹ دکھانے کا مطالبہ کیا مگر جواب میں فون کال کاٹ دی گئی۔ اب خلیل کو لوزیانا کے ایک ICE حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ وہ عدالت میں ان کے حقوق کے دفاع کے لیے قانونی لڑائی لڑیں گے۔
سیاسی انتقام یا قانون کا نفاذ؟
محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے بعد میں ایک بیان میں تصدیق کی کہ محمود خلیل کو صدر ٹرمپ کے یہود مخالف سرگرمیوں کے خلاف احکامات کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس دعوے کی کوئی قانونی یا تحریری شہادت فراہم نہیں کی ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے ایک بیان میں کہا
"ہم امریکہ میں حماس کے حامیوں کے ویزے اور گرین کارڈز منسوخ کر کے انہیں امریکہ سے بے دخل کریں گے۔”
محمود خلیل نے گزشتہ سال کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین یکجہتی مہم کے دوران مذاکراتی کردار ادا کیا تھا اور میڈیا میں فلسطینی حقوق کی وکالت کرتے رہے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاری سیاسی انتقام کے مترادف ہے اور اس کا مقصد فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی طلبہ کی سرگرمیوں پر سخت اقدامات کر رہی ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، امریکی حکومت مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی اور مشتبہ فلسطین حامی افراد کے ویزے منسوخ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
یہ واضح نہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ICE اور DHSکو اپنے کیمپس میں مداخلت کی اجازت دی یا نہیں، مگر گزشتہ ہفتے بعض طلبہ کو ایسی ای میل موصول ہوئی جس میں "کیمپس میں ممکنہ حکومتی دوروں” کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ کولمبیا یونیورسٹی نے اس معاملے پر کوئی واضح جواب دینے سے گریز کیا مگر ایک بیان میں کہا،
"ہم قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور عدالتی وارنٹ کے بغیر کسی کو یونیورسٹی کے نجی مقامات میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔”
انسانی حقوق کی تنظیموں اور سِول سوسائٹی نے محمود خلیل کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ناقدین نے کہا ہے کہ ان کے خلاف کوئی واضح جرم ثابت نہیں ہوا اور انہیں صرف سیاسی دباؤ کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی آزادی اظہار کی خلاف ورزیوں اور مسلم طلبہ کے خلاف امتیازی سلوک کے حوالے سے تشویش کو مزید بڑھا رہا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025