ووٹر لسٹ پر ’جامع نظرثانی‘ یا NRC کا خفیہ نفاذ؟

بہار میں 8 کروڑ ووٹروں کی جانچ: محض 25دن کافی ہیں یا پھر یہ حقِ رائے دہی پر وار ہے؟

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

رائے دہندگان کی تجدید نو پر سوالات کو بوچھاڑ، بہار میں ووٹر لسٹ کی نئی چھان بین پر عوامی خدشات
الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) نے بہار میں ووٹر لسٹ کی ’’اسپیشل انٹینسیو ریویژن‘‘ یعنی خصوصی جامع نظرثانی کا جو عمل شروع کیا ہے، اس نے انتخابی شفافیت سے زیادہ شہریوں کی شہریت، ووٹنگ کے حق اور NRC جیسے متنازعہ منصوبوں کے خفیہ نفاذ پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ عمل جو صرف چند ماہ بعد متوقع ریاستی انتخابات سے قبل شروع ہوا ہے، بہار کے تقریباً 8 کروڑ ووٹروں کو متاثر کر سکتا ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس بار نہ صرف ووٹروں کو اپنے پیدائش یا رہائش کی دستاویزات دینے ہوں گے بلکہ ان کے والدین کی پیدائش سے متعلق تفصیلات بھی لازمی طور پر پیش کرنے ہوں گے۔
شہریت کا نیا فارمولا؟
الیکشن کمیشن کی 24 جون کی ہدایت کے مطابق:
جن کی پیدائش یکم جولائی 1987 سے پہلے ہوئی ہو، انہیں صرف اپنی تاریخ یا مقام پیدائش کا ثبوت دینا ہوگا۔
یکم جولائی 1987 تا 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والوں کو اپنی تاریخِ پیدائش کے ساتھ والد یا والدہ میں سے کسی ایک کی تاریخ/مقامِ پیدائش کا ثبوت بھی دینا ہوگا۔
2 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والے افراد کو اپنی اور دونوں والدین کی تاریخ اور مقام پیدائش کا ثبوت دینا ہوگا۔
یہ نئی شرائط عام شہریوں، خاص طور پر قبائلی آبادی، دیہی عوام، غریب، ناخواندہ اور مائیگرینٹ طبقے کے لیے نہایت پیچیدہ اور ناقابلِ رسائی بن سکتی ہیں اور یہی سب سے بڑا خدشہ ہے۔
کیا یہ NRC کا خفیہ نفاذ تو نہیں؟
2003 میں بہار میں آخری مرتبہ ایسی جامع ووٹر لسٹ کی نظرثانی ہوئی تھی۔ اسی کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے یہ ہدایت دی ہے کہ 2003 سے پہلے درج ہونے والے ووٹروں کو شہری تصور کیا جائے گا، جبکہ 2003 کے بعد شامل ہونے والوں کو اضافی ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کے بانی جگدیپ ایس چھوکر نے سوال اٹھایا ہے کہ:
’’کیا 2003 کے بعد ہونے والے تمام انتخابات میں جن ووٹروں نے حصہ لیا کیا وہ اب مشتبہ ہو گئے ہیں؟ کیا 21 سالوں سے کمیشن نے غلط فہرستوں پر الیکشن کرائے تھے؟ اگر نہیں تو اب ان ووٹروں کو کیسے غیر شہری یا غیر مستند مانا جا رہا ہے؟‘‘
یہی وہ بنیاد ہے جو اس سارے عمل کو NRC جیسے متنازعہ عمل سے جوڑتی ہے۔ یاد رہے کہ آسام میںNRC کے تحت 19 لاکھ سے زائد افراد فہرست سے خارج ہوئے تھے اور ان میں ایک بڑی تعداد قبائلی، غریب، دیہی، نا خواندہ اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔
جمہوری حق پر حملہ؟
بہار میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس عمل کی کھلے الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ غریبوں، اقلیتوں سے ووٹ کا حق چھیننے کی ایک چال ہے‘‘۔
آر جے ڈی لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے واضح الفاظ میں کہا کہ:
’’آٹھ کروڑ افراد کی ووٹر لسٹ تیار کرنے کے لیے صرف 25 دن دینے کے کیا معنی ہیں؟ کیا 25 دنوں میں یہ ممکن ہے؟ اور جن دستاویزات کی مانگ کی گئی ہے، کیا غریبوں کے پاس وہ دستیاب ہوں گے؟ یہ انتخابی اصلاح نہیں، انتخابی صفائی کا بہانہ ہے تاکہ پچھڑے اور غریب کے طبقے کے لوگوں کو فہرست سے نکالا جا سکے۔‘‘
اسی طرح مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اسےNRC سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق:
’’اس کا ہدف صرف بہار نہیں بلکہ مغربی بنگال ہے۔ دیہی ووٹروں کو ہٹایا جائے گا، اور ان کی جگہ بہار، یو پی، راجستھان، ہریانہ جیسے علاقوں سے نام شامل کیے جائیں گے۔‘‘
شہریت کے ثبوت، کس کے لیے؟
انتخابی کمیشن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس عمل کا مقصد غیر ملکیوں کے اندراج کو روکنا اور شفاف ووٹر لسٹ تیار کرنا ہے۔ اس لیے گھر گھر جا کر بی ایل اوز ووٹروں سے فارم وصول کریں گے اور شہریت کے دستاویزی ثبوت حاصل کریں گے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ:
جن کے والدین وفات پا چکے ہوں؟
جو لوگ دوسرے شہروں میں روزگار کی غرض سے مقیم ہوں؟
جن کے پاس والدین کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ موجود نہ ہوں؟
ان کا کیا بنے گا؟ اس پورے عمل کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایک طرف الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ تمام معلومات ’’صرف انتخابی حکام‘‘ کو ہی دستیاب ہوں گی۔ تو کیا یہ ’’مکمل شفافیت‘‘ ہے؟ آر ٹی آئی کارکن انجلی بھردواج کا کہنا ہے کہ:
’’جب بھی حکومت یا کمیشن شہریوں سے زیادہ سے زیادہ دستاویزات مانگتا ہے، تو اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ ووٹر لسٹ سے باہر ہو جاتے ہیں۔ دستاویزات کی یہ مانگ جمہوری حق کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘
شہریوں پر ایک اور بوجھ2011 کی مردم شماری کے مطابق، بہار کی 88 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے اور خواندگی کی شرح صرف 61.8 فیصد ہے۔ کیا ایسے افراد آن لائن فارم ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں؟ کیا انہیں انٹرنیٹ، بجلی اور پرنٹر تک رسائی حاصل ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے اتنے بڑے پیمانے پر نظرثانی کے لیے صرف دو مہینے ہی کیوں دیے ہیں؟ اور یہ عمل صرف انتخابی فہرست کی بہتری کے لیے ہے یا کچھ اور مقاصد اس کے پیچھے کار فرما ہیں؟
سابق افسروں کی رائے: کیا خدشات بے بنیاد ہیں؟
سابق چیف الیکشن کمشنر این گوپال سوامی کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک معمول کی مشق ہے جو شہروں میں زیادہ ضروری ہے، جہاں مائیگریشن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی گھر پر نہیں ملا تو بی ایل اوز بعد میں دوبارہ آئیں گے۔ اور اگر دستاویزات نہ ہوں تو دوسرے ذرائع سے بھی شہریت کی تصدیق ممکن ہے۔‘‘لیکن سوال یہ ہے کہ اگر تصدیق کے دوسرے ذرائع موجود ہیں تو اس حد تک تفصیلی دستاویزات کیوں مانگے جا رہے ہیں؟ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب انتخابات سر پر ہوں۔
انتخابی شفافیت یا ووٹروں کا اخراج؟
بظاہر یہ اقدام انتخابی فہرست کو درست اور غیر ملکیوں سے پاک کرنے کے لیے معلوم ہوتا ہے۔ مگر زمینی حقائق کچھ اور نظر آتے ہیں، دی گئی مختصر مہلت، غریب و کمزور طبقات کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر کھڑی ہو سکتی ہے۔ شہریت کے ایسے پیچیدہ اصول جمہوری عمل میں شراکت کو محدود کرتے ہیں۔ اگر یہ مشق صرف شفافیت کے لیے ہے تو اسے وسیع تر مشاورت، مناسب وقت اور دیگر دستاویزات کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ بصورت دیگر یہ وہی ہوگا جس کا خدشہ ممتا بنرجی نے ظاہر کیا ہے یعنی یہ ’’NRC سے بھی زیادہ خطرناک‘‘ خاموشی سے شہریوں کے حقِ رائے دہی کو چھیننے والا عمل ہوگا ۔

 

***

 بظاہر یہ اقدام انتخابی فہرست کو درست اور غیر ملکیوں سے پاک کرنے کے لیے معلوم ہوتا ہے۔ مگر زمینی حقائق کچھ اور نظر آتے ہیں، دی گئی مختصر مہلت، غریب و کمزور طبقات کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر کھڑا ہو سکتا ہے۔ شہریت کے ایسے پیچیدہ اصول جمہوری عمل میں شراکت کو محدود کرتے ہیں۔ اگر یہ مشق صرف شفافیت کے لیے ہے، تو اسے وسیع تر مشاورت، مناسب وقت، اور دیگر دستاویزات کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ بصورت دیگر، یہ وہی ہوگا جس کا خدشہ ممتا بنرجی نے ظاہر کیا ہے، یعنی یہ NRC سے بھی زیادہ خطرناک خاموشی سے شہریوں کے حقِ رائے دہی کو چھیننے والا عمل ہوگا ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025