
وقف ترمیمی بل کی سیاسی غرض و غایت
شدت پسند ہندو رائے دہندگان کی خوشنودی کے لیے اوقاف پر نشانہ۔بدترین سیاست
ڈاکٹر سلیم خان
’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے نعرے سے تعصب اور شدت پسندی کی طرف’گھر واپسی!‘
وقف ترمیمی بل کا شوشا بی جے پی نے چھوڑا اور اسے ایوان پارلیمنٹ میں ہر دونوں جگہ منظور کروا لیا۔ سوال یہ ہے کہ بھگوائیوں کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس میں شک نہیں کہ سیاسی جماعتیں ایک تیر سے کئی شکار کرتی ہیں لیکن ان میں اہم ترین ہدف بھی لازمی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ذیلی اہداف کا حاصل ہونا یا خطا ہو جانا کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے وقف ترمیمی بل کا اصل مقصد بی جے پی کے شدّت پسند ہندو رائے دہندگان کی خوشنودی ہے۔ جس وقت 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ لگا کر اقتدار پر فائز ہوئے تھے اس وقت ان کا گیم پلان یہ تھا کہ اٹل بہاری واجپائی کی مانند مسلمان سمیت سبھی طبقات کا اعتماد حاصل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حلف برداری کی تقریب میں میاں نواز شریف کو دعوت دی اور پھر بن بلائے پاکستان کا دورہ بھی کر دیا۔ یہ اپنی شبیہ سدھارنے کی ایک کوشش تھی۔ اس دوران وہ رام مندر جیسے فرقہ وارانہ مسئلہ سے بھی الگ تھلگ اچھے دنوں کا خواب بیچتے رہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی پہلی مدت کار میں انہوں نے سوچا کیوں نہ تین طلاق کا معاملہ اچھال کر مسلمان خواتین کے ووٹ بنک پر ہاتھ مارا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے انتخابات سے قبل سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی آڑ میں صدارتی آرڈیننس جاری کروا دیا۔ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ ملت اسلامیہ نے اسے بجا طور پر شریعت میں مداخلت کے طور پر لیا اور اس طرح ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پھر گیا یعنی ان کی مسلم دشمنی والی شبیہ پھر سے سامنے آگئی۔ انتخابات سے قبل رافیل کی بدعنوانی سامنے آئی تو اس بات کا خطرہ پیدا ہوگیا کہ راجیو گاندھی کے بوفورس کی طرح یہ مودی سرکار کو لے ڈوبے گی۔ سنگھ کے دانشور بھی 220 تک کی توقع کرنے لگے تھے ایسے میں پلوامہ اور سرجیکل اسٹرائیک کا جوا چل گیا اور بی جے پی پہلے سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوگئی۔ اب یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ’ساتھ اور وکاس‘ کا نعرہ نا ممکن ہدف ہونے کے سبب اقتدار میں رہنے کے لیے ہندو شدت پسندی ہی واحد راستہ ہے۔
2019 کے بعد اس نئی حکمتِ عملی پر سفر جاری رکھنے کے لیے راجناتھ سنگھ کو وزیر دفاع بنا کر ملک کی سرحدوں پر دفع کر دیا گیا اور ان کی جگہ وزارت داخلہ کی باگ ڈور امیت شاہ کے حوالے کی گئی۔ انتخابات کے بعد پہلے ہی اجلاس میں تین طلاق پر ایوان ِ پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی اور پھر کشمیر کی دفعہ 370 کا خاتمہ کر کے نہ صرف ریاست کا خصوصی درجہ ختم کیا گیا بلکہ اسے تقسیم کر کے مرکز کے تحت علاقہ بنا دیا گیا۔ اس طرح ہندو شدت پسند رائے دہندگان کی ناز برداری کا زور انداز میں آغاز کیا گیا۔ اس کے بعد رام مندر کا عدالتی فیصلہ کرواکے اس کا سنگ بنیاد اور بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھی۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ہندو عوام میں نفرت پھیلاؤ اور پھر ان پر ظلم کر کے شدت پسند ہندوؤں کو خوش کرو تاکہ وہ مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل کو بالائے طاق رکھ کر بی جے پی کو ووٹ دیتے رہیں۔ دہلی کا فساد یا این آر سی اور سی اے اے کا قانون مسلمانوں کو پریشان کر کے بے علم ہندووں کی خوشنودی کا ذریعہ تھا۔
2024 کی انتخابی مہم میں نہ صرف ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ اپنی موت مرگیا بلکہ پاکستان کے بجائے ہندوستانی مسلمان نشانے پر آگئے۔ ان کے ذریعہ ہندو خواتین کے منگل سوتر کو لاحق خطرات کا ذکر ہونے لگا اور ہندوؤں کو ڈرانے کے لیے کانگریس کے ان کی بھینس اور نل کی ٹونٹی بھی چھین کر مسلمانوں کو دینے کے خدشات پیدا کیے گئے۔ اس بار یہ جادو نہیں چلا اور 400 پار کا خواب دیکھنے والی بی جے پی 240 پر آگئی۔ حکومت سازی کے لیے اسے نتیش کمار اور نائیڈو کی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا۔ ایسے میں جن ہندوؤں کے دل میں مسلمانوں کا خیالی خوف پیوست کر دیا گیا تھا ان کے اندر اندیشوں کا پیدا ہونا فطری بات تھی۔ وہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ یہ لنگڑی لولی بی جے پی سرکار کیسے ہمارا تحفظ کر پائے گی؟ یہ سوال بی جے پی کے لیے سمِ قاتل تھا کیونکہ اسی طرح ووٹ بنک کھسکتا تھا۔ بی جے پی کے ساتھ رائے دہندگان اسی وقت تک رہتے ہیں جب تک کہ وہ دماغ کے بجائے نفرت بھرے دل سے سوچتے ہیں۔ ٹھنڈے دماغ سے اپنے مسائل پر غور وخوض عوام کو بی جے پی سے دور لے جاتا ہے۔ پچھلے قومی انتخابات میں مہاراشٹر اور اترپردیش میں اس کا مظاہرہ ہو چکا ہے۔
بی جے پی نے اپنے کٹّر ووٹروں کا اعتماد بحال رکھنے اور انہیں یہ احساس دلانے کے لیے کہ اس گئی گزری حالت میں بھی مودی سرکار مسلمانوں کو پریشان کر سکتی ہے انتخابات کے بعد پہلے ہی اجلاس میں یہ وقف بل پیش کر دیا۔ اسے نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو سے ناراضی کی توقع نہیں تھی لیکن جب ایسا ہوا تو وہ ٹی ڈی پی کی تجویز یعنی جے پی سی کے لیے راضی ہوگئی۔ اس طرح اسے اپنے دونوں حلیفوں کو للچانے اور بلیک میل کرنے کے لیے 7 ماہ کا وقت مل گیا۔ ان لوگوں نے بھی اپنے مسلم رائے دہندگان کو سمجھا بجھا کر ساتھ رکھنے کے لیے کچھ ایسی تجاویز بل میں شامل کروائیں جن پر مسلمانوں کو سخت اعتراض تھا مثلاً وقف املاک کے تحفظ کی سب سے بڑی ضمانت ’وقف بائی یوزر‘ کی دفعہ تھی یعنی اگر کسی متنازع زمین کے کاغذات نہ ہوں تو اس کے استعمال کی بنیاد پر ملکیت کا فیصلہ کیا جائے۔ اس ترمیم میں یقین دلایا گیا کہ ’تمام وقف از صارف جائیدادیں جو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے نفاذ سے پہلے رجسٹرڈ ہیں، وقف جائیداد رہیں گی، الا یہ کہ وہ متنازعہ نہ ہو یا سرکاری ملکیت نہ ہو۔‘ یہ ایک فریب ہے کیونکہ کسی بھی املاک کو متنازع بنا کر اسے’وقف بائی یوزر‘ سے مستثنیٰ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
ٹی ڈی پی کی یہ تجویز بھی ترمیم کے اندر شامل کی گئی کہ وقف کے معاملات میں کلکٹر کو حتمی اتھارٹی ماننے کے بجائے ریاستی حکومت ایک نوٹیفکیشن جاری کر کے کلکٹر سے اعلیٰ افسر کو نامزد کر سکتی ہے جو قانون کے مطابق انکوائری کرے گا۔ یہ چونکہ اختیاری عمل ہے اس لیے بی جے پی ریاستی سرکار اس کی زحمت ہی نہیں کرے گی اور کرنا ہی پڑے تو حکومت کے تلوے چاٹنے والے سنگھی اعلیٰ افسروں کا کون سا کال پڑا ہے؟ ڈیجیٹل دستاویزات کے لیے مزید چھ ماہ کی توسیع بھی کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ جے ڈی یو نے حکومت سے کہا کہ چونکہ زمین ریاست کا موضوع ہے، اس لیے نئے قانون میں بھی اسی ترجیح کو برقرار رکھا جانا چاہیے اور اس میں مرکز کا عمل دخل نہ ہو۔ اس کی دوسری تجویز یہ تھی کہ وقف جائیداد اگر رجسٹرڈ ہو تو نیا قانون سابقہ اثر کے ساتھ لاگو نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رجسٹرڈ وقف املاک متاثر نہیں ہوں گی۔
یہ غضب احمقانہ تجویز ہے کیونکہ جن املاک کا اندراج ہے اس کو نہ ترمیمی بل سے کوئی خطرہ ہے اور نہ اس اضافی تحفظ کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ تو ان املاک کا ہے جن کا گوناگوں وجوہات کی بنیاد پر اندراج نہیں ہو سکا۔ اب اگر ان کو تحفظ سے مستثنیٰ کر دیا جائے تو یہ ایک بے معنیٰ بات ہوگی ہے۔ جے ڈی یو کی ترمیمی تجویز کے مطابق کسی بھی متنازعہ جائیداد کے مستقبل کا فیصلہ وقف بل میں طے شدہ معیارات کے مطابق کیا جائے گا۔ یعنی سرکار یا انتظامیہ کی نیت جس جائیداد پر خراب ہوگی اسے پہلے متنازع بنایا جائے گا اور پھر اس پر من مانی فیصلہ تھوپ کر اپنے قبضہ میں لے لیا جائے گا۔ تیسری تجویز یہ تھی کہ اگر کوئی وقف جائیداد سرکاری زمین پر ہے تو اس کا فیصلہ بھی بل کے مطابق ہوگا۔ وقف کا سرکاری زمین پر ہونا بے معنیٰ ہے۔ کوئی بھی سرکاری زمین کو وقف کر ہی نہیں سکتا۔ وہ تو اپنی ذاتی ملکیت خیرات کرتا ہے اس لیے یہ تجویز بجائے خود گمراہ کن اور فتنہ پرور ہے۔
اس نوٹنکی سے قطع نظر ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو کی ان شرائط کو قبول کرنا بی جے پی کی کمزوری ظاہر کرتا ہے کیونکہ اس سے پہلے تو وہ کسی سے کچھ سننے کی روادار ہی نہیں تھی۔ شیوسینا کے سریش پربھو کا مرکزی وزیر بنانا یاد کیجیے جب اس نے جب کہا تھا کہ ہمارے کوٹے سے کسے وزیر بنایا جائے؟ اس کا فیصلہ بی جے پی نہیں کرسکتی اور اگر ایسا کیا گیا تو اس کے ارکان حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کریں گے تو مودی کا جواب تھا اپنی بلا سے۔ آناً فاناً سریش پربھو کو شیوسینا سے نکال کر بی جے پی میں شامل کرنے کے بعد وزیر بنا دیا گیا اور شیوسینا والے منھ دیکھتے رہ گئے کیونکہ دس سال قبل بی جے پی کو اپنے بل پر اکثریت حاصل تھی مگر اب وقت بدل گیا ہے۔ بھگوائیوں کے پاس اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے یوگی اور شاہ کے اشتعال انگیز بیانات کا سہارا لینا پڑتا ہے تاکہ بھکتوں کو یہ باور کرایا جائے کہ ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ وقف ترمیمی بل کی منظوری کے باوجود مودی-3 کی اپنے حامیوں کے سامنے لاچاری ساری دنیا کے سامنے آگئی ہے۔ بھکتوں کو بہلانے کے لیے اسے چھپانا بی جے پی کی مجبوری ہے بقول سیف الدین سیف؎
غم دل کسی سے چھپانا پڑے گا
گھڑی دو گھڑی مسکرانا پڑے گا
ہندتوا نوازوں کی اس رعونت پر تبصرہ کرتے ہوئے کانگریسی لیڈر پرمود تیواری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’آمریت اور فسطائیت بی جے پی کے ڈی این اے میں سرایت کر گئی ہے‘‘ اس دعویٰ کے حق میں موصوف نے یہ مثال پیش کی کہ ’’منی پور پر بحث کے لیے 3 گھنٹے مختص کیے گئے تھے لیکن اس پر صرف 50 منٹ ہی بحث ہوئی۔ حکومت نے اس موضوع پر طویل بحث سے بچنے کے لیے قصداً رات میں راجیہ سبھا کی کارروائی چلائی۔‘‘ پرمود تیواری کے مطابق بی جے پی اراکین سے منظوری لیے بغیر ایوان کے نظام الاوقات کو من مانی طریقے سے بدل دیتی ہے۔ اس موقع پر کانگریس رکن پارلیمنٹ گورو گوگوئی نے سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ایوان پارلیمنٹ اب عوام کی آواز اٹھانے کا پلیٹ فارم نہیں رہ گیا بلکہ وزیر اعظم مودی کا دربار بن گیا ہے۔ یہاں ان کی تعریف تو قبول کی جاتی ہے لیکن حکومت کی تنقید کو دبا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے برسر اقتدار پارٹی کے جواب دہی اور ذمہ داری سے بچنے کے لیے ایوان میں رخنہ انداز ی کی کئی مثالیں پیش کیں۔ وقف ترمیمی بل کی بحث کے دوران وزیر اعظم خود تو بنکاک روانہ گئے مگر چاپلوس درباری ان کی تعریف و توصیف کے پُل باندھتے رہے۔
بہار کے نائب وزیر اعلیٰ وجئے کمار سنہا نے مسلمانوں کو احتجاج پر گرفتاری کی دھمکی تو دی مگر انہوں نے وقف ترمیمی بل کے حوالے سے تیجسوی یادو کا کھلا چیلنج نہیں دیکھا یا جان بوجھ کر انجان بن گئے۔ تیجسوی نے صاف کہا کہ اگر بہار میں ان کی حکومت آئی تو اس بل کووہ کچرے کے ڈبے میں پھینک دیں گے۔ ان کے مطابق وقف کی لڑائی ایوان اور سڑک سے لے کر عدلیہ تک لڑی جائے گی۔ انہوں نے اس مزاحمت کا موازنہ ریزرویشن کی لڑائی سے کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے بھی سڑک سے ایوان تک آواز اٹھاتے ہوئے عدالت کا رُخ کیا گیا تھا۔ تیجسوی نے یقین پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ وقف بورڈ کو لے کر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف راشٹریہ جنتا دل سپریم کورٹ پہنچ چکی ہے۔
تیجسوی یادو نے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے ذریعہ اس بل کے خلاف ووٹ دینے کے کئی جواز پیش کیے۔ ان کے خیال میں یہ غیر آئینی آرٹیکل 26 میں بیان کردہ مذہبی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ وقف بل کی آڑ میں کھیلی جانے والی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے لوگ پولرائزیشن کی سیاست کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ مہنگائی، نقل مکانی اور ملک کی معاشی حالات جیسے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور صرف اور صرف اپنی سیاسی روٹی سینک رہے ہیں۔ انہوں نے آر ایس ایس اور بی جے پی پر آئین مخالف ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ مسلسل دستورِ ہند کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ یہ پورے ملک میں ناگپوری قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ ملک کے عوام، اتحاد اور نظریے کی سیاست نہیں کر رہے ہیں۔ نریندر مودی اور بی جے پی کی مسلم خیر خواہی نا قابلِ فہم ہونے کی وجہ سے قابلِ قبول نہیں ہے۔
تیجسوی یادو نے اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر کہا کہ ’’یہ لوگ دن و رات مسلمانوں کو کھلے عام ٹی وی پر گالیاں دیتے ہیں۔ ان کے رکن پارلیمنٹ ایوان میں مسلمانوں کو ملّا کہتے ہیں، ان کے لیڈر گولی مارنے کی بات کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ انہیں کپڑوں سے پہچانو، منگل سوتر چھین لیں گے۔‘‘ وہ وقف کے قانون میں ترمیم کرکے مسلمانوں کی خیر خواہی کیسے کرسکتے ہیں؟ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں سے ووٹنگ کا حق چھین لینے کا مطالبہ کرنے والے مسلمان بھائیوں کے خیر خواہی کا ڈھونگ بھی نہیں کرسکتے۔ان کے مطابق عوام اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے وقف بل لایا گیا ہے اس لیے جب بہار میں ان کی حکومت آئے گی تو وہ اسے کسی بھی قیمت پر نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ اس دعویٰ کو ہلکے میں نہیں لیا جاسکتا کیونکہ وقف کی ترمیم کو ریاستی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر نافذ کرنا غیر آئینی ہے۔ تمل ناڈو، کیرالا اور کرناٹک کی صوبائی حکومتیں اس کو نافذ کرنے سے انکار کرچکی ہیں اور ممکن ہے امسال کے اواخر میں بہار اور پھر یوگی کی شکست کے بعد یو پی میں بھی وقف بل کا نفاذ کھٹائی میں پڑ جائے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025