وقف ترمیمی بل کسی بھی صورت نا قابل قبول،ہر سطح پر احتجاج کیلئے تیار

 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیة علماء ہند  کی جانب سے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد مشترکہ پریس کانفرنس میں بل کو متفقہ طور پر مسترد کرنے کا اعلان

نئی دہلی،22اگست  :۔

مرکزی حکومت کی جانب سے ایوان میں پیش کیا گیا وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف مسلم تنظیموں کا رد عمل جاری ہے۔ایک طرف جہاں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سر براہ جگدمبیکا پال اجلاس طلب کر کے غور و خوض  کرنے اور اعتراضات کو حل کرنے کی بات کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب ملک میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیمیں مسلسل اس بل کو مشترکہ طور پر مسترد کرنے کا علان کر رہی ہیں ۔

اس سلسلے میں آج  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیة علماء ہند  کی جانب سے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقدہ مشترکہ پریس کانفرنس میں دیگر مسلم تنظیموں کے نمائندوں کی موجودگی میں پارلیمنٹ میں پیش کردہ وقف ترمیمی بل کومکمل طور پر مستردکرنے کا اعلان کیا۔ پریس کانفرنس میں مسلم تنظیموں نے حکومت کو اس بل کو واپس لینے پر مجبور کرنے کے لیے آئین میں دیے گئے احتجاج کے حق کو استعمال کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ وقف ترمیمی بل 2024 وقف املاک کے تئیں حکومت کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس بل کو لا کر حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وقف ترمیمی بل 2024 مسلمانوں کو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ وہ اس کے خلاف ہر سطح پر احتجاج کرنے کو تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بل کے حوالے سے جو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے اسے بلایا جائے اور ہمارے خیالات سنے جائیں اور اس سے ہمارے اعتراضات دور کیے جائیں تو کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال سے ہمارے ملک کو چلانے والی حکومت نے مسلمانوں کے لیے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ جب کوئی بھی حکومت یا فرد اپنے دروازے بند رکھے تو پھر مذاکرات کا کوئی جواز نہیں۔ ہم نے پچھلی حکومت سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس حکومت نے مسلمانوں کو الگ کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب وقف ترمیمی بل 2024 تیار کیا گیا تو اس سے متعلق کسی شخص یا تنظیم سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب حکومت کسی فرد یا کمیونٹی کے لیے کوئی کام کرتی ہے تو اس کا خاکہ متعلقہ لوگوں سے بات کرنے کے بعد تیار کیا جاتا ہے لیکن وہ ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور اس سے متعلق نہ تو مسلمانوں سے کوئی رائے لی گئی اور نہ ہی اس سے متعلق کوئی مشورہ طلب کیا گیا ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وقف املاک کے بارے میں حکومت کی نیت کیا ہے، انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ حکومت میں شامل جماعتوں کے قائدین سے ملے ہیں جن میں چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے کئی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماو ¿ں سے بھی ملاقات کی ہے اور سب نے ہمارے خیالات کو سنا ہے۔

اس معاملے میں جمعیة علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ موجودہ وقف ترمیمی بل ہمیں کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہے۔ اس بل میں 40 سے 42 چیزیں شامل کی گئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وقف املاک کے حوالے سے حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 500 یا 1000 سال پرانی مسجد، مندر اور دیگر مذہبی مقامات کے کاغذات کسی کے پاس نہیں ہیں۔ یہ بات طے ہونی چاہیے کہ عبادت گاہیں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں، وہ کسی بھی طرح ان کی نہیں ہیں۔اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہونی چاہیے۔ جب تک حکومت یہ فیصلہ نہیں کرتی، ہمارے ملک میں کوئی عبادت گاہ محفوظ نہیں ہے۔ وقف جائیداد ہماری اپنی ہے، ہمارے ہی لوگوں نے اسے وقف کے طور پر دیا ہے اور اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس لیے ان املاک کی دیکھ بھال اور حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہونی چاہیے۔ پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی، آل انڈیا جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام سلفی ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی اور ترجمان قاسم رسول الیاس بھی موجود تھے۔