وقف ترمیمی بل مسلمانوں کی شناخت پر حملہ

حق و انصاف کے لیے آواز اٹھانا ہوگا

نئی دلی (دعوت نیوز بیورو)

پرسنل لاء بورڈ کا اوقاف بل کے خلاف عظیم احتجاج؛ ملکی یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ
ملی و دینی قیادت پر اعتماد کا اظہار۔دیگر مذاہب کے رہنماؤں کی مکمل تائید حاصل
نصف صدی سے زائد عرصے سے مسلمانان ہند کی مذہبی شناخت کے کے لیے سرگرم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پر پچھلے دنوں دہلی کے جنتر منتر پر ہزاروں مسلمان جمع ہو کر بھارت کی جمہوریت اور آئین پر اپنے ایقان و اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ وقف ترمیمی بل ایکٹ انہیں کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہے۔ بورڈ کی قیادت میں ہونے والا یہ مظاہرہ دراصل اس بات کا مظہر ہے کہ بھارت کے مسلمان اگرچہ سماجی و معاشرتی اور علاقائی اعتبار سے مختلف حصوں میں منقسم ہیں مگر جب بات مسلم شناخت اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی آئے گی تو وہ متحد رہیں گے اور آج کا یہ احتجاج اس بات کا واضح ثبوت بھی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانان ہند کی مذہبی شناخت کے تحفظ کے مقصد سے ہی معرض وجود میں آئی اور گزشتہ پانچ دہائیوں میں اس کی قیادت نے پوری قوت کے ساتھ مسلمانان ہند کے اعتماد اور بھروسے کو قائم رکھا۔ بورڈ نے ہر محاذ پر مذہبی شناخت کے تحفظ کی جدوجہد کی۔ بورڈ نے افہام و تفہیم کے ساتھ رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے حکومت وقت کے ساتھ مذکرات اور عدالت میں قانونی مقابلہ کیا ہے مگر نصف صدی کی پوری تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ دہلی کے جنتر منتر پر مرکزی حکومت کے مجوزہ بل کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ دراصل گزشتہ ایک دہائی میں وزیر اعظم مودی کی زیر قیادت مرکزی حکومت اور ہندتوا کے علم بردار مسلم شناخت پر حملہ آور ہونے اور بھارت کی جمہوریت میں اقلیتوں کے لیے امکانات کم سے کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔اظہار رائے کی آزادی، مذہبی آزادی پر تسلسل کے ساتھ حملہ کیا جا رہا ہے۔آر ایس ایس اور اس کے بانیوں کے اس تصور کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کی زمین ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو اگر یہاں رہنا ہے تو انہیں ہندوؤں کی بالا دستی، ہندو تہذیب و ثقافت و کلچر کو قبول کرنا ہوگا۔ آر ایس ایس کی یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے ملک تقسیم ہوا اور آزادی کے بعد جب ملک کی تعمیر ہو رہی تھی اس وقت آئین سازوں نے اتفاق و اتحاد رائے سے ایک ایسے آئین کی تشکیل دی جس میں کسی بھی طبقے کو بالا دستی حاصل نہ ہو بلکہ ہر ایک شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو، ہر ایک شہری کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ آئین ساز اسمبلی نے واضح کر دیا تھا کہ ملک آئین سے چلے گا مگر المیہ یہ ہے کہ آزادی کے 75 برس بعد اسی پارلیمنٹ میں جہاں تاریخ ساز آئین کی تشکیل ہوئی تھی اور جس نے ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کیے تھے، جس نے انصاف، شمولیت، آزادی، مساوات کا بنیادی اصول دیا تھا، آئین کے بنیادی اصول و قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقلیتوں کی مذہبی شناحت پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ وقف ترمیمی بل کے ذریعہ مرکزی حکومت مسلمانوں کی مساجد، مدارس، درگاہیں اور فلاحی اداروں اور اس کے لیے مسلمانوں کے ذریعہ وقف کی گئی زمینوں کو ہڑپنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس وقت ملک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ جنوبی ہند میں ہندی کی بالا دستی کے خلاف جدوجہد جارہی ہے اور شمال و جنوب میں آبادی کے عدم توازن کی وجہ سے لوک سبھا کی سیٹوں کی ازسر نوحد بندی کی وجہ سے ملک کی قومی سیاست میں جنوبی ہند کے بے اثر ہونے کے اندیشہ کی وجہ سے وہاں کے عوام میں غم و غصہ کا لاوا پھوٹ رہا ہے تو دوسری طرف اقلیتوں پرحملے جاری ہیں۔ عمومی طور پر یہ تصور دیا جاتا ہے کہ مسلمان پریشان ہیں مگر گیا میں بودھ مت کی تاریخی عبادت گاہ میں جبراً مندر کی تعمیر کردی گئی ہے۔ گرودوارے کی زمینیں چھین لی گئی ہیں۔ چرچ پر تسلسل کے ساتھ حملے ہو رہے ہیں بلکہ ملک میں دلت اور قبائلیوں کو بھی مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔ اس نازک موڑ پر مسلم پرسنل لا بورڈ اور اس کے قائدین نے اپنی جمہوری ذمہ داری اور ملک کے آئین اور اس کے اتحاد کے تحفظ کے لیے ملک کے تمام سیکولر طبقے کو آواز دی اور جنتر منتر پر منعقد مظاہرے میں ملک کی تمام سیکولر سیاسی جماعتوں کے نمائندے، اقلیتوں کے نمائندے اور مختلف سِول سوسائٹی کی تنظیموں کے اراکین نے آواز دی کہ یہ صرف وقف بل کے تحفظ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک کے تنوع اور اتحاد کا مسئلہ ہے۔ سکھ پرسنل لا بورڈ کے صدر پروفیسر جگموہن نے اپنے خطاب میں کہا کہ کالے انگریزوں کی نظریں صرف مسلمانوں کی زمین پر نہیں ہے بلکہ وہ پٹنہ صاحب میں گرودوراہ اور نانڈیر جہاں حیدرآباد کے نظام نے سکھوں کو سیکڑوں ایکڑ زمین فراہم کی تھی، کو حکومت نے ہڑپ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بل کی مخالف اور وقف جائیداد کو بچانا آئینی کے ساتھ مذہبی معاملہ بھی ہے اور اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لڑائی کو مذہبی جذبے کے ساتھ لڑا جائے۔
جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے اپنے مختصر خطاب میں بورڈ کے سامنے لائحہ عمل پیش کر دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو دار و رسن کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اگر ہم اس کے لیے تیار نہیں ہوئے تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ سکھ رہنما بھی اس کے لیے تیار نظر آئے۔ جماعت اسلامی کے امیر انجینئر سعادت اللہ حسینی نے ملک کی سِول سوسائٹی کو اتحاد کے ساتھ آئین کی حفاظت کی لیے جدو جہد کا سبق پڑھایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ بورڈ کی قیادت میں ہم طویل جدو جہد کے لیے تیار ہیں۔
پارلیمنٹ کی جوائنٹ کمیٹی میں وقف ترمیمی بل کے خلاف اہم کردار ادا کرنے والے اسدالدین اویسی نے نریندر مودی کی منشا پر سوال کھڑا کیا کہ وہ اگر سوچتے ہیں کہ مسلمانوں سے وقف جائیداد چھین کر مسلمانوں کو خاموش کرادیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔انہوں نے چندرا بابو نائیڈو، نتیش کماراور چراغ پاسوان کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے وقف ترمیمی بل میں حکومت کا ساتھ دیا تو انہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔تاریخ میں ان کانام مسلمانوں کے مجرم کے طور پر شمار کیا جائے گا۔
کانگریس، سماجودای پارٹی، ترنمول کانگریس، سی پی آئی ایم، ڈی ایم کے، انڈین یونین مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے بورڈ کی قیادت کو یقین کرایا کہ چوں کہ یہ لڑائی آئین کے تحفظ کی ہے اس لیے وہ بورڈ کے ساتھ ہیں اور یہ لڑائی پارلیمنٹ سے لے کر سڑکوں تک ان کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔لوک سبھا میں ڈپٹی اپوزیشن گورو گوگوئی، ترنمول کانگریس کی تیز و طرار لیڈر مہوا موئترا، ممبر پارلیمنٹ پپو یادو، سماج وادی پارٹی سے دھرمیندر سنگھ یادو اور فیض آباد سے ممبر پارلیمنٹ اودھیش پرساد نے مختصر خطاب کیا۔مہوا موئترا نے سوال اٹھایا کہ وقف بورڈ میں غیر مسلم نمائندے کیوں ہیں اور یہ کہ کیا مرکزی حکومت کسی مسلمان کو رام مندر ٹرسٹ کا ممبر بنائے گی، اور کیا گرودوراہ بندھک کمیٹی میں مسلم نمائندہ ہوگا؟ کیا کولکاتا کے کالی گھاٹ مندر کے ٹرسٹ میں مسلمان کو شامل کیا جائے گا؟ انہوں نے کہا کہ یہ سیکولرازم کا سوال نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ بی جے پی اپنے فاشسٹ نظریہ کو تھوپنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟ اور ہم تو اس کے خلاف جدوجہد کرتے رہیں گے۔
جمہوریت میں احتجاج اور مظاہرہ ہر ایک شہری کا حق ہے مگر مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی اس مرتبہ بھی کوشش کی گئی جب ہندو تنظیموں کے نمائندوں نے مظاہرہ گاہ پہنچ کر رخنہ ڈالنے کی کوشش۔ مسجدوں کے سامنے جے شری رام کے نعرے لگا کر فساد برپا کرنے والوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ احتجاج کے دوران اللہ اکبر نعرے کیوں لگائے جا رہے ہیں۔ پولیس نے اگرچہ اس کوشش کو ناکام کر دیا مگر مظاہرے میں شریک مسلم نوجوانوں نے صبر و تحمل سے کام لیا۔ یہ کوششیں اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ہندتوا تنظیموں کو جمہوریت اور آئین پر اعتماد نہیں ہے اس لیے مسلمانوں سے ان کا حق بھی چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شیوسینا کے لیڈر سنجے نروپم کھلی دھمکی دیتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے شاہین باغ کے طرز پر ایک بار پھر احتجاج کرنے کی کوشش کی تو جلیاں والا باغ کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ سنجے نروپم کی طرح کے بیانات بی جے پی کے دیگر لیڈروں نے بھی دیے۔ شاہین باغ کا احتجاج جمہوریت اور آئین کے دائرے میں تھا۔ آئین کی روح کو پامال کر کے شہریت قوانین بنانے کے خلاف شاہین باغ میں خواتین نے احتجاج کیا تھا۔ اس احتجاج کے خلاف جارحانہ رویہ ہندتوا اور بی جے پی حامیوں کی فاشسٹ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔سنجے نروپم جو اصل میں ایک مفاد پرست سیاست داں ہیں، ان کا جلیاں والا باغ کو دہرانے والا بیان ثابت کرتا ہے کہ ماضی میں بھی ہندتوا تنظیموں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا اور 75 برس بعد میں انگریزوں کی غلامی ان کے ذہن و دماغ پر حاوی ہے۔
اب دیکھنا ہوگا کہ بورڈ کی قیادت میں وقف ترمیمی بل کے خلاف جد وجہد کس مرحلے میں جا پہنچے گی۔
مذکورہ احتجاج نے بورڈ کی قیادت اور مسلم تنظیموں کو حوصلہ ضرور بخشا ہے اور مسلم نوجوانوں کا بھی اپنی مذہبی قیادت پر اعتماد بڑھا ہے۔ پہلے مرحلے کی جدو جہد میں بورڈ کامیاب ثابت ہواہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہبی قائدین پر اعتماد و بھروسا قائم رکھنا ہوگا۔ جب بھی بورڈ آواز دے تو بورڈ کی آواز پر لبیک کہنا مسلمانوں کے علاوہ ملک کے ہر امن پسند شہری کی ذمہ داری ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025