
’’ وسودھایو کٹمبکم ‘‘ سے نسل کشی پر خاموشی تک
بھارتی میڈیا اور سول سوسائٹی کی خاموشی، تاریخی ورثے کے خلاف
نوراللہ جاوید، کولکاتا
فلسطین کے حق میں عوامی احتجاج کی غیر یقینی صورتحال اور سیاسی سناٹا
ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا، بالخصوص مغربی دنیا، جو غیر مشروط طور پر اسرائیل کی حمایت کرتی رہی ہے اور جس میں برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا جیسے طاقتور ممالک شامل ہیں، انسانیت کو شرمناک کر دینے والی اسرائیلی بربریت و سفاکانہ کارروائی کو انسانیت دشمن قرار دیتے ہوئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔ کئی یورپی ممالک نے تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کر لیے ہیں اور ایک یورپی ملک نیدرلینڈ نے تو اسرائیلی کمپنی سے اپنا سرمایہ واپس لینا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت اسرائیل عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے، خود اسرائیل میں جنگ بندی کے لیے احتجاج ہو رہے ہیں۔ گرچہ مایوسی کے شکار اور اقتدار سے محروم ہونے کے خوف نے نیتن یاہو کو خونخوار بنا دیا ہے، اسرائیلی افواج کے سربراہ تک جنگ جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اسرائیل کی سکیورٹی ایجنسی شن بیٹ کے سابق سربراہ امی آیالون، موساد کے سابق سربراہ تامیر پارڈو، آئی ڈی ایف کے سابق سربراہ متان ولنائی اور سابق وزیر اعظم ایہود باراک نے 550 سابق اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے امریکی صدر کے نام ایک کھلے خط پر دستخط کیے ہیں، جس میں محصور فلسطینیوں میں اسرائیل کی فوجی مہم بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایسے حالات میں فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور غزہ کے وجود کو مٹا دینے کے اسرائیل کے سفاکانہ عزم کے خلاف جب پوری دنیا سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں، جاپان جیسے ملک میں بڑے بڑے احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں، بھارت جیسے ملک میں خاموشی اور سناٹا حیران کن ہے۔ بھارت، جس نے دنیا کو ’’اہنسا‘‘ کا سبق سکھایا تھا، جس نے دنیا کو بتایا کہ ہمدردی، انصاف اور مساوات کے ساتھ ممالک کی تعمیر کیسے کی جا سکتی ہے، بھارت نے ہمیشہ ہندوستان کو ایک عظیم تہذیب کے طور پر دیکھا ہے اور مشکل وقت میں دنیا کی رہنمائی کی ہے۔ بھارت کے اس کردار کو جواہر لعل نہرو کے زمانے میں مزید تقویت ملی۔ انہوں نے ناوابستہ تحریک کے قیام کی قیادت کی، جس نے طاقتوروں کی جارحیت کے خلاف ابھرتے ہوئے ممالک کی آواز کے طور پر کام کیا۔ بھارت مظلوم ممالک کا مضبوط اور سخت حامی رہا ہے، اور اس کے ساتھ ہی طاقتور ممالک نے بھارت کو ایک سمجھدار ساتھی کے طور پر دیکھا ہے۔
مہاتما گاندھی کا بہت ہی مشہور قول ہے کہ جب موقع مکمل سچ بولنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا ہو، اس وقت اگر خاموشی اختیار کی جائے تو یہ مصلحت اور حکمت نہیں بلکہ بزدلی ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کی عالمی ساکھ دم توڑ چکی ہے۔ مودی سرکار خاموشی سے دیکھ رہی ہے کہ غزہ جل رہا ہے، جب کہ بھارت، جو کبھی ہر جگہ مصیبت زدہ لوگوں کا بھروسہ مند دوست تھا، اب لوگوں کو مرتے دیکھ کر ایک خاموش تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک ایسا بھارت جسے اخلاقی اتھارٹی اور جارحین کا مقابلہ کرنے کی ہمت کے ساتھ ایک مضبوط آزاد آواز کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اب عالمی طاقتوں کے ایک پیادے سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک ایسا بھارت جس نے کبھی دنیا کو امن کی طرف لے جایا تھا، اس کی عالمی سطح پر کوئی آواز باقی نہیں رہی۔
چونکہ حکمراں طبقے کی تمام پالیسی اس وقت ہندوتوا نظریات کی کشید سے عبارت ہے، اس لیے اس نے ’’فلسطین کو مسلمانوں‘‘ کا مسئلہ بنا دیا ہے اور رائے عامہ بھی ہموار کر دی ہے۔ ہندوتوا فکر کے حامی میڈیا نے یہ تاثر پیدا کر دیا ہے کہ ’’فلسطین کی حمایت مسلمانوں کی خوشنودی‘‘ ہے۔ اس لیے چند اپوزیشن جماعتوں اور لیڈروں کو چھوڑ کر بیشتر اپوزیشن جماعتیں بھی کھل کر اسرائیلی جارحیت پر واضح موقف اختیار کرنے سے گریزاں ہیں۔ سول سوسائٹی کی فلسطینی کاز اور اسرائیلی جارحیت پر خاموشی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی لاتعلقی دراصل بھارت کی تاریخی میراث سے غداری اور ناکامی ہے۔
بھارتی حکومت نے نہ صرف اسرائیلی جارحیت پر خاموشی اختیار کی ہے بلکہ بھارت میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ غیر اعلانیہ طور پر جرم بنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ملک کے کئی حصوں میں فلسطین کی حمایت میں احتجاج اور مظاہرے ہوئے مگر مقامی حکومتوں نے ان مظاہروں کو سختی سے کچل دیا ہے۔ حال ہی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ، جو ٹیوشن فیس میں اضافہ اور یونین کے انتخابات کے لیے احتجاج کر رہے تھے، میں ایک سابق طالب علم اور پی ایچ ڈی اسکالر طلحہ منان نے فلسطین کی حمایت میں تقریر کی تو ان کے خلاف سخت ترین دفعات کے تحت مقدمات درج کر کے یہ پیغام دیا گیا کہ بھارت میں اسرائیل مخالفین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
جون میں دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر سول سوسائٹی کے احتجاج میں، جس میں بڑی تعداد میں نوجوان شریک تھے، دہلی پولیس نے طاقت کے ذریعے اسے کچل دیا۔ مظاہرین کے خلاف نئی نافذ شدہ بھارتیہ نیا سنہتا (بی این ایس) کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئیں، جن میں دفعہ 121(1) بھی شامل ہے، جو سرکاری اہلکاروں پر حملہ کرنے سے متعلق ہے، جب کہ یہ مظاہرہ پرامن تھا اور پولیس نے خود لاٹھی چارج کیا تھا۔ مظاہرے میں شریک کئی غیر مسلم اور دلت طلبہ نے بتایا کہ پولیس نے ان سے پوچھ تاچھ کے دوران دباؤ ڈالا کہ وہ ہندو ہو کر اس مظاہرے میں شریک کیوں ہو رہے ہیں، انہیں غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے کیا سروکار ہے؟ دلت طلبہ نے بتایا کہ پولیس نے نسلی بھید بھاؤ پر مبنی گالیاں دیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتِ حال بدلتے ہوئے بھارت کی بدترین تصویر ہے۔
جی-20 کی صدارت کے دوران بھارت نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ’’پوری دنیا‘‘ ایک کنبہ ہے۔ آفاقیت کے اس پیغام کے ذریعے بھارت نے اپنے تاریخی ورثے اور تنوع میں اتحاد کو دیکھنے اور سمجھنے کی دعوت دی۔ مگر گزشتہ 22 مہینوں میں جس طریقے سے بھارت نے اسرائیلی بربریت کے خلاف واضح تنقید کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کر کے خود ثابت کر دیا کہ ’’وسودھیو کٹمبکم‘‘ کا پیغام محض لفاظی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ 24 جولائی کو اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب نے فلسطینیوں کے ساتھ ’’غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا مگر اسرائیل کا نام تک نہیں لیا اور نہ ہی اس کی شیطانی جارحیت کے خلاف ایک لفظ احتجاج بھی درج کرانے کی ضرورت محسوس کی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ غزہ کے حالات بیان کیے جائیں مگر اسرائیل کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے؟ بھارتی سفیر کو واضح ہدایت دی گئی تھی کہ اسرائیل کا ذکر نہ کریں، حالانکہ دنیا بھر کے 28 ممالک، جن میں یورپی یونین، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان شامل ہیں، اسرائیلی مظالم کی مذمت کر چکے ہیں۔
غزہ میں رپورٹنگ کرنا موت کو دعوت دینا ہے۔ اس کے باوجود دنیا بھر کے صحافی اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے رپورٹنگ کر رہے ہیں اور دنیا کو بھوک سے مرنے والے بچے اور خواتین کی اصل تصاویر دکھا رہے ہیں۔ مگر غزہ فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے لیے بھی قبرستان بن گیا ہے۔ پہلی، دوسری عالمی جنگ، ویت نام جنگ، امریکا-عراق جنگ اور افغانستان جنگ میں جتنے صحافیوں کی موت نہیں ہوئی اتنی غزہ میں ہو چکی ہے۔ اب تک 300 سے زائد صحافیوں کی موت ہو چکی ہے۔ اسرائیل فلسطینی صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہا ہے۔ دنیا اس کی مذمت کر رہی ہے، مگر بھارتی حکومت کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال سے جب صحافیوں کی ہلاکت سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’صحافیوں کا قتل افسوسناک اور انتہائی افسوسناک ہے۔ بھارت نے ہمیشہ تنازعات میں شہریوں کی جانوں کے ضیاع کی مذمت کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی حکام نے پہلے ہی تحقیقات شروع کر دی ہیں‘‘۔ یہاں بھی اسرائیل کے ذریعے صحافیوں کو نشانہ بنانے پر تنقید سے گریز کیا گیا اور سفاکیت کے مجرم کی جانچ پر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔
اس مہینے کے آغاز میں جب کانگریس کی سینئر لیڈر اور رکنِ پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے غزہ میں بچوں کی ہلاکت اور غذائی قلت کے شکار افراد پر اسرائیلی فائرنگ کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ کے شہریوں کا قتلِ عام کر رہا ہے تو بھارت میں اسرائیلی سفیر نے سفارتی آداب کا لحاظ رکھے بغیر پرینکا گاندھی کے خلاف سخت بیان دیا۔ سفارتی آداب کا تقاضا تھا کہ اسرائیلی سفیر اس پر خاموشی اختیار کرتے، مگر جارحانہ مزاج صیہونی ریاست کے فرد نے تمام آداب و ضوابط کو فراموش کر دیا اور المیہ یہ ہے کہ اس پر بھارتی حکومت اور وزارتِ خارجہ نے کوئی ردعمل نہیں دیا، جب کہ ضرورت تھی کہ بھارتی حکومت اسرائیلی سفیر کو ’’شٹ اپ‘‘ کا واضح پیغام دیتی اور یہ واضح کرتی کہ اسرائیل کو بھارت کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہے۔
یہ صورتِ حال واضح کرتی ہے کہ ہندوتوا نظریات کی حامل موجودہ مرکزی حکومت نے بھارت کی خارجہ پالیسی کو اعلیٰ اخلاقی معیار کی بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے مفاد پرستی پر مرتب کیا ہے۔ نہ کوئی اصول ہے، نہ کوئی اخلاق، صرف لین دین کی پالیسی ہے۔ کل تک چین کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی جا رہی تھی، چینی ایپس پر آج تک پابندیاں عائد ہیں۔ چین نے بھارت-پاکستان کے درمیان حالیہ تناؤ میں کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا، جنگی ہتھیار فراہم کیے۔ بلکہ پاکستان کے مشہور اخبار ’’روزنامہ جنگ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، جس رات دونوں ممالک کے درمیان ہوائی حملے ہو رہے تھے، اس رات اسلام آباد میں چینی سفارت خانہ اور کراچی میں چینی قونصلیٹ کھلے ہوئے تھے۔ چینی سفیر اسلام آباد کی وزارتِ خارجہ میں بیٹھ کر جنگ کا جائزہ لے رہا تھا۔ آج ہماری حکومت چین سے دوستی پر فخر کر رہی ہے۔ کل تک امریکا اور ٹرمپ سے دوستی پر فخر تھا اور چین دشمنی تھی، آج امریکا کے خلاف چین اور روس کے ساتھ ہاتھ ملایا جا رہا ہے۔
ماضی میں بھارت فلسطینیوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتا رہا ہے، لیکن اب یہ توازن ختم ہو چکا ہے۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی، تکنیکی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ خاص طور پر کارگل جنگ کے دوران اسرائیل کی فوجی مدد کے بعد یہ رشتہ گہرا ہوا۔ بھارت اور اسرائیلی خفیہ اداروں کے درمیان تعاون بھی بڑھ رہا ہے، جو بھارت کو امریکا سے اسٹریٹجک طور پر مزید قریب لا رہا ہے۔ گزشتہ دہائی میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاعی و اسٹریٹجک تعلقات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ 2015 میں بھارت-اسرائیل دفاعی تجارت کا حجم صرف 6.5 ملین ڈالر تھا، آج یہ بڑھ کر 185 ملین ڈالر سالانہ سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ بھارت اسرائیل سے ڈرونز، نگرانی کے نظام اور درست نشانے والے میزائلوں کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ یہ ہتھیار محض تجرباتی لیبارٹریوں میں نہیں بنتے، ان میں سے کئی ٹیکنالوجیز “battle-tested” کہلاتی ہیں، یعنی انہیں فلسطینیوں پر آزمایا گیا ہے۔ جب بھارت یہ ہتھیار خریدتا ہے تو وہ دراصل قبضے، نسلی دیوار، گھروں کی مسماری اور غزہ میں جاری نسل کشی میں شریک بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ گاندھیائی فلسفے، جو بھارت کی پالیسی کا بنیادی حصہ تھا، سے خروج کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ظاہر ہے کہ نہرو اور گاندھی کا یہ بھارت نہیں ہے۔ غزہ میں مودی حکومت کی بزدلانہ خاموشی کئی سطحوں پر ناکامی ہے۔ یہ ایسے لوگوں کے تئیں انسانی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکامی ہے جنہیں منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے۔ کمزوروں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا اخلاقی ذمہ داری میں ناکامی ہے۔ یہ خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ لیکن شاید سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ ہندوستان کی تاریخی میراث کو برقرار رکھنے اور عالمی ترتیب میں کھڑے ہونے میں ناکامی ہے۔
اس پورے صورتِ حال کا سب سے المناک پہلو حکومت سے زیادہ بھارت کے عوام کی مجموعی خاموشی ہے۔ کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی اور کانگریس کی ایک دو ریلیز کے علاوہ کانگریس پارٹی کی سطح پر خاموشی ہے۔ بائیں محاذ کی جماعتیں دیگر سیکولر سیاسی جماعتوں کے مقابلے کھل کر فلسطین کے مسائل پر بول بھی رہی ہیں اور احتجاج بھی کر رہی ہیں، دیگر سیکولر جماعتیں مکمل طور پر خاموشی اختیار کر چکی ہیں۔ بنگال میں ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت کے باوجود یہاں کوئی بڑے احتجاج اور مظاہرے نہیں ہوئے ہیں۔ بنگال میں بایاں محاذ اپنے طویل اقتدار کے بعد زوال کا شکار ہے، ہندوتوا کی مقابلہ آرائی والی سیاست میں اس کے لیے اپنی راہ الگ بنانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود بایاں محاذ احتجاج کر رہا ہے، مگر کیرالہ جہاں بایاں محاذ کی حکومت ہے وہاں کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا ہے۔
دو دن قبل انگریزی ویب سائٹ دی وائر نے کننر صحافی رگھونندا کا ایک مضمون انگریزی ترجمے کے ساتھ Priyanka Gandhi, Palestine and the Congress کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں پرینکا گاندھی کے بیان کا تجزیہ کرتے ہوئے کرناٹک کی کانگریس حکومت کے منافقانہ رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’کرناٹک میں فلسطین کی حمایت میں عوامی میٹنگز انڈور یا کھلی جگہوں پر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بنگلورو میں فریڈم پارک کے باہر ایک کونے کی رعایت کے ساتھ، ایک ایسی جگہ جہاں واقعی بہت کم مرئیت ہے، کسی بھی موضوع پر کھلے عام جلسوں کی اجازت نہیں ہے، بشمول اور خاص طور پر فلسطین سے متعلق کسی بھی پروگرام کی اجازت نہیں ہے۔ فلسطینی جھنڈا آویزاں کرنا ممنوع ہے اور اس طرح کے اجلاس منعقد کرنے پر کئی لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ کئی مرتبہ پروگرام کی اجازت ملنے کے بعد رد کر دی گئی ہے۔‘‘
کننر صحافی و شاعر نے لکھا ہے کہ:
’’آج فلسطین پر اپنے مؤقف کو دوبارہ ثابت کرنے کا واحد طریقہ ان تین اصولوں بائیکاٹ، ڈس انویسٹ، منظوری (BDS) پر عمل کرنا ہے۔ ہمیں اسرائیل کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، جس میں تمام درآمدی و برآمدی اشیا کے ساتھ ساتھ ثقافتی، سائنسی اور تعلیمی تبادلے بھی شامل ہیں۔ بھارتی کمپنیوں نے اسرائیل میں سرمایہ کاری کی ہوئی رقم واپس لے لیں۔ ان افراد، تنظیموں اور ممالک کے ساتھ ہمارے کاروبار کو کم یا مکمل طور پر منقطع کر دیں جن کے اسرائیل کے ساتھ مکمل یا جزوی تعلقات ہیں، جیسا کہ مناسب سمجھا جائے۔ بنگلورو میں 9 کمپنیاں ہیں جو اسرائیل کو ہتھیار یا ان کے پرزے فراہم کرتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ سدارامیا، نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار اور وزیر صحت دنیش گنڈو راؤ نے گزشتہ سال بنگلور میں منعقدہ انڈیا-اسرائیل بزنس سمٹ میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ جب جنوبی ہند کے لیے اسرائیل کے قونصلیٹ جنرل کے دفتر کے سربراہ اور نائب وزیر اعلیٰ شیوکمار سے ملنے گئے تو انہوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا، جو سرکاری تقاضوں سے کہیں زیادہ تھا، اور سوشل میڈیا پر دوستی کی تصاویر شیئر کرکے اس کا جشن منایا گیا۔ اب گاندھی اور کانگریس کے دیگر لیڈروں کے لیے ریاستی حکومت کی پالیسی اور شیوکمار جیسے لوگوں کے طرزِ عمل دونوں کو تبدیل کرنا سب سے ضروری کام ہونا چاہیے۔ اگر پرینکا گاندھی کا فلسطین پر مؤقف سچا ہے تو انہیں اسے ثابت کرنا ہوگا۔‘‘
کننر صحافی و شاعر کا یہ مضمون ملک کی مجموعی صورتِ حال کی عکاسی کرتا ہے۔ سیاسی جماعتیں یا تو اسرائیل کی حامی ہیں یا پھر واضح مؤقف اختیار کرنے سے گریزاں ہیں۔ تاہم سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی، بایاں محاذ سے وابستہ لیڈروں اور دیگر اہم شخصیات کا مؤقف قابلِ قدر ہے اور اندھیرے و ظلم و جبر کے اس ماحول میں امید کی ایک اہم روشنی ہے۔ اسی طرح گزشتہ ہفتوں میں ممبئی کے آزاد میدان اور دہلی کے جنتر منتر میں فلسطین کی حمایت اور اسرائیلی مظالم کے خلاف جو احتجاج کیا گیا ہے وہ اس معنی میں کافی اہم پیش رفت ہے کہ اس تصور کو ختم کیا جا رہا ہے کہ بھارت میں اسرائیل کے خلاف احتجاج اور فلسطین کی حمایت میں فلسطینی جھنڈا لہرانا کوئی جرم ہے۔ بلکہ یہ بھارت کے تاریخی ورثے کو زندہ کرنے کی جرات مندانہ کوشش ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کی تاریخ کو تجارتی اعداد و شمار یا جغرافیائی حساب و کتاب سے نہیں بلکہ اس بات سے یاد رکھا جائے گا کہ جب معصوم بچے قطار میں کھڑے روٹی مانگ رہے تھے تو اسرائیل ان بچوں کو بموں سے اڑا رہا تھا۔ مگر سوال یہ پوچھا جائے گا کہ بھارت اس وقت کہاں کھڑا تھا؟ غزہ میں نسل کشی ایک معمولی واقعہ نہیں بلکہ اس عہد کا سب سے بڑا اخلاقی سوال ہے اور اس سوال سے بھارت بچ نہیں سکتا۔
***
***
جی-20 کی صدارت کے دوران بھارت نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ’’پوری دنیا‘‘ ایک کنبہ ہے۔ آفاقیت کے اس پیغام کے ذریعے بھارت نے اپنے تاریخی ورثے اور تنوع میں اتحاد کو دیکھنے اور سمجھنے کی دعوت دی۔ مگر گزشتہ 22 مہینوں میں جس طریقے سے بھارت نے اسرائیلی بربریت کے خلاف واضح تنقید کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کر کے خود ثابت کر دیا کہ ’’وسودھیو کٹمبکم‘‘ کا پیغام محض لفاظی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025