وزیر اعظم کی بیان پر اعتراض کرنے پر راجستھان بی جے پی اقلیتی مورچہ کے صدر پارٹی سے معطل
مسلمانوں سے متعلق وزیر اعظم کے بیان پر اعتراض کرنے پر بی جے پی نے ضلعی صدرعثمان غنی کے خلاف کی کارروائی ،پارٹی کی شبیہ خراب کرنے کا الزام
نئی دہلی ،24 اپریل :۔
راجستھان میں وزیر اعظم نے ایک عوامی جلسے میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح اشتعال انگیز تقریر کی تھی اس کی مخالفت اور مذمت صرف اپوزیشن جماعتیں ہی نہیں کر رہی ہیں بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے بی جے پی سے جڑے مسلم کارکنان بھی مذمت کر رہے ہیں اور اس بیان کو تکلیف دہ قرار دے رہے ہیں لیکن بی جے پی وزیر اعظم مودی کے خلاف کسی بھی طرح کے تبصرے کو نا قابل برداشت تصور کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ راجستھان بی جے پی اقلیتی مورچہ کے صدر عثمان غنی نے جب وزیر اعطم کے بیان کو قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے تنقید کی تو بی جے پی نے ان کو پارٹی سےچھ سالوں کے لئے معطل کر دیا ۔
لوک سبھا انتخابی مہم کے آخری دن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنی رہنما کے خلاف یہی کارروائی کی ہے ۔ بیکانیر سٹی سے بی جے پی اقلیتی مورچہ کے صدر عثمان غنی کو چھ سال کے لیے پارٹی سے نکال دیا ہے۔ تادیبی کمیٹی کے چیئرمین اونکار سنگھ لکھاوت نے بدھ کو ایک حکم جاری کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے۔
حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ غنی کو پارٹی ڈسپلن توڑنے پر نکالا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں عثمان غنی نے میڈیا میں بی جے پی کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔ پارٹی نے عثمان غنی کے اس عمل کو نظم و ضبط کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انہیں بی جے پی سے نکال دیا۔
خیال رہے کہ عثمان غنی 2005 سے بی جے پی سے وابستہ ہیں اور پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے ہی وہ اے بی وی پی کے کارکن تھے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نریندر مودی کی مسلمانوں کے حوالے سے اپنی تقریر کا ورژن میڈیا میں سامنے آنے کے بعد آج انہیں پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ اس بارے میں عثمان غنی کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ پارٹی میں رہتے ہوئے اپنا اپنا ورژن رکھنا ہر کسی کا حق ہے ۔ یہ حق جتنا نریندر مودی کا ہے۔ پارٹی میں میرے بھی اتنے ہی حقوق ہیں۔ وزیر اعظم نے میری برادری کے بارے میں جو کچھ کہا میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ کیونکہ ہمیں زمین پر کام کرنا ہے اور عوام کو جواب بھی دینا ہے۔
انہوں نے میڈیا میں جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اگر میں پارٹی کو چھوڑ دو ں کو وزیر اعظم مسلمانوں کے تعلق سے بیان مجھے اچھا نہیں لگا ،یہ صرف نریندر مودی کی اکیلے کی پارٹی نہیں ہے، بی جے پی میں سیکڑوں مسلمان جڑے ہوئے ہیں ،ہم زمین پر جاتے ہیں لوگوں سے ووٹ مانگتے ہیں تو مسلمان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ایسا بولا وزیر اعظم نے بتاؤ آپ کا اس پر کیا خیال ہے۔ اس پر ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ہندوستان ایک گلستاں ہیں ،ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔
عثمان غنی کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک اخراج کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ مل گیا تو دیکھا جائے گا۔ وہ پارٹی کے مخلص کارکن ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اخراج سے ان کے بی جے پی کے لیے وقف نظریہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عثمان غنی پارٹی اقلیتی مورچہ کے ضلعی صدر تھے اور اس سے قبل وہ نائب صدر سمیت کئی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔