ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی ملکیت میں رہنے والی تمام چیزیں (زمین، جائداد، مکان، دوکان، نقدی وغیرہ) اس کے قریبی رشتے داروں میں تقسیم ہوں، اسے وراثت کہتے ہیں۔دیکھا یہ گیا ہے کہ مختلف سماجوں میں جو شخص زور آور ہوتا ہے وہ اس پر قبضہ کرلیتا ہے اور میّت سے اپنے برابر یا اپنے سے زیادہ قریبی تعلق رکھنے والے دوسرے لوگوں کو محروم کردیتا ہے۔ اس سلسلے میںاسلام نے بہت واضح احکام دیے ہیں۔ اس نے حسب ِمراتب تمام قریبی رشتے داروں کے حصے متعین کیے ہیں اوران کی ادائیگی کی پُرزور انداز میں تلقین کی ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت قرآن مجید کے احکام ِ وراثت پر عمل پیرا نہیں ہے۔
قرآن مجید میں عموماً احکامِ دین کے اصول بیان کیے گئے ہیں اور ان کی جزئیات اور تفصیلات کا تذکرہ احادیث میں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میںنماز کی فرضیت بیان کی گئی ہے، اس کے اوقات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بقیہ تفصیلات حضورِ پاکؐ سے ہمیں ملی ہیں، لیکن وراثت کا معاملہ اس سے مختلف ہے کہ اس کے تقریباً تمام احکام قرآن مجید میں مستقلاً ذکر کیے گئے ہیں اور اس کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔ یہ تمام احکام قرآن مجید کی چوتھی سورت النساء کی آیات:7 تا14 اور 176 میں مذکور ہیں۔
سورۂ نساء کی جن آیات میںاحکام ِوراثت بیان کیے گئے ہیں ان کے شروع اور آخر کی آیات قابل ِ غور ہیں۔آیت نمبر 7 میںبتایا گیا ہے کہ وراثت میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی حصہ ہے اس لیے انہیں ان کا حصہ ضرور دیا جانا چاہیے۔آیت نمبر 8 میں کہا گہا ہے کہ وراثت تقسیم ہونے لگے تو مستحقین کے علاوہ دیگر موجودرشتے داروں کو بھی کچھ نہ کچھ دینا چاہیے۔آیت نمبر9 میںدرست تقسیم پر جذباتی انداز میں ابھارا گیا ہے، چنانچہ کہا گیا ہے کہ ذرا سوچو، اگر تمھارا انتقال ہو اور دوسرے اس پر قبضہ کرلیں اور تمھارے ورثہ کو محروم کردیں تو کیا تمھارے نزدیک یہ پسندیدہ ہوگا، اسی طرح تمھیں بھی اس غلط کام سے بچنا چاہیے۔آیت نمبر 10 میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ آگ کے انگاروں سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ آیت نمبر11-12 میں احکامِ وراثت کا بیان ہے۔اس کے بعد آیت نمبر13-14 میں دھمکی کے انداز میں کہا گیا ہے کہ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔جو لوگ ان حدوں سے تجاوز نہیں گے اور اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کریں گے وہ روزِ قیامت جنت کے مستحق ہون گے اور جو لوگ ان حدوں کو پامال کریں گے اور اللہ اور رسول کی نافرمانی کریں گے وہ جہنم میں جھونک دیے جائیں گے، جس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔ احکامِ وراثت پر صحیح طریقے سے عمل نہ کرنے کی کتنی سخت دھمکی ہے!!
عورتیں مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں اپنے جائز حقِ وراثت سے محروم رہی ہیں اورعموماً انھیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ وراثت کا حق دار صرف بڑا لڑکا ہوتا تھا اور بیوہ اور لڑکیاں اس کے رحم و کرم پر ہوتی تھیں۔ لڑکا نہ ہوتا تب لڑکیاں میراث پاتی تھیں۔ اس کے برخلاف اسلام نے عورتوں کو سماج میں مردوں کے مساوی حیثیت دی اور انھیں بھی وراثت کا مستحق قرار دیا۔ قرآن کریم نے پوری صراحت اورقوت کے ساتھ اس کا اعلان کیاہے :’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہویا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘ (النساء:7)
اس آیت میں کئی باتیں قابل ِ غور ہیں:
(۱) اجمالی طور سے یہ نہیں کہا گیاہے کہ میراث میں مردوں اور عورتوں، سب کا حصہ ہے، بلکہ عورتوں کے حصہ کی الگ سے، مستقل طور پر صراحت کی گئی ہے۔
(۲) صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ مالِ وراثت چاہے زیادہ ہو یا کم ، ہر حال میں عورتیں بھی اس میں سے حصہ پائیں گی۔
(۳) آخر میں’مقرّر حصہ‘ کہہ کر مزید تاکید کردی گئی ہے کہ مال ِ وراثت میں عورتوں کا حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی ،نہ انھیں بالکلیہ محروم کیا جاسکتا ہے۔
اسلام کی جانب سے عورتوں کی مزید عزّت افزائی کا مظہر یہ ہے کہ اس نے تقسیم میراث میں حصۂ نسواں کو اصل پیمانہ قرار دیا اور اس کی نسبت سے مردوں کا حصہ بیان کیا۔ وراثت کی بعض صورتوں کے بارے میںاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔‘‘(النساء:11) قرآن کی یہ تعبیر بڑی بلیغ ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ عورت کے لیے مرد کے حصہ کا نصف ہے ،یا دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر حصہ ملے گا۔ لیکن اس کے بجائے یہ کہا گیا کہ مرد کے لیے دوعورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ قرآن کی نظر میں میراث میں لڑکی کا حصہ اصل ہے، اسی لیے اسے تقسیم میراث کے معاملے میں پیمانہ اور بنیاد بنایا گیا ہے۔
وارثین میں تین خواتین ایسی ہیں جو کسی بھی حال میں بالکلیہ میراث سے محروم نہیں ہوتیں۔ وہ ہیں ماں، بیوی اور بیٹی ۔ اس کے علاوہ مختلف صورتوں میں پوتی، حقیقی بہن، باپ شریک بہن، ماں شریک بہن اور دوسری خواتین بھی حصہ پاتی ہیں۔تقسیم میراث کے متعدد حالات ایسے ہیں جن میں عورت کا حصہ مرد کے برابر ہوتا ہے اور ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ مثلاً میت کے وارثین میں اگر اس کی اولاد بھی ہو اور والدین بھی تو ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ (النساء:11)
انسانوں کے بنائے ہوئے قانون اعتدال، توازن اور فطری تقاضوں کی رعایت سے محروم ہوتے ہیں اور ان میں بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے اس کا مظہر یہ ہے کہ کہاں تو پہلے عورت وراثت سے ہی محروم تھی اور کہاں اب اسے مرد کے برابر کا حق دار بنا دیا گیا ہے اور چوں کہ اسلام میںتقسیمِ وراثت کی چند مخصوص حالتوںمیں عورت کاحصہ مرد کا نصف ہوتا ہے اس لیے اس پر اعتراض بھی کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے اور اس کا حصہ مرد سے کم متعین کر کے اس کی حق تلفی کی ہے۔ حالاں کہ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وراثت کی بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے کم ہونے کا سبب نظامِ معاشرت میں دونوں کی مخصوص پوزیشن ہے۔ اسلامی نظام معاشرت میں کمانے، گھر کا خرچ چلانے اور ماتحت افراد کی مالی کفالت کرنے کی ذمہ داری مرد پر عائد کی گئی ہے، جب کہ عورت کو معاشی جدّو جہد سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ بچپن میں اس کی کفالت باپ کے ذمے ہے، جوانی میں شادی کے بعد شوہر کے ذمّے اور بڑھاپے میں اولاد کے ذمے۔ وہ جس قدر مال کی مالک بنتی ہے سب اس کے پاس محفوظ رہتا ہے، دوسروں پر خرچ کرنا اس کی ذمہ داری نہیں، لیکن مرد جو کچھ مال حاصل کرتا ہے اسے زیر کفالت افراد پر خرچ کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس بنا پر یہ بات قرینِ انصاف ہے کہ مرد کاحصہ عورت کا دوگنا رکھا گیا ہے۔ اگر دونوں کا حصہ برابر کردیا جاتا تو یہ مرد کے ساتھ ناانصافی ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ جن صورتوں میں مرد کی معاشی ذمہ داریاں کم یا ختم ہوجاتی ہیں ان میں تقسیم میراث کے معاملے میں عورت اور مرد کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً میت کی اولاد ہو اور اس کے ماں باپ بھی ہوں تو میراث میں ماں اور باپ ہر ایک کا چھٹا حصہ مقرر کیاگیا ہے۔ اس لیے کہ جس شخص کی اولاد بھی صاحبِ اولاد ہو اس کی معاشی ذمہ داری بڑی حد تک کم یا بالکل ختم ہوجاتی ہیں، اس کی حیثیت بالعموم اپنے پوتوں پوتیوں کے سرپرست کی ہوتی ہے، لیکن اگر میّت کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کا باپ صاحبِ اولاد ہو (یعنی میّت کے بھائی بہن ہوں) تو اس صورت میں اس (یعنی میّت کے باپ) کی معاشی ذمہ داری ہوسکتی ہے۔ اسی وجہ سے باپ کا حصہ ماں سے زیادہ رکھا گیا ہے (ماں کوایک تہائی اور باپ کو دو تہائی ملتا ہے)۔
مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دین کے تمام احکام پر عمل کرے۔ان احکام میں کچھ احکام کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے اور کچھ احکام کا تعلق انسانوں کے حقوق سے۔ متعدد احادیث میں صراحت سے مذکور ہے کہ حقوق اللہ میں کوتاہی تو اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمی سے معاف کردے گا ، لیکن حقوق العباد میں کوتاہی اور ظلم و زیادتی کسی بھی حال میں قابلِ معافی نہ ہوگی جب تک کہ وہ شخص نہ معاف کردے جس کی حق تلفی کی گئی ہوگی۔
وراثت کے احکام کا نفاذ اسلامی خاندان کی روح بھی ہے اور اہلِ خاندان کے معاشی حقوق اور خاندانی قدروں کے استحکام کی ضمانت بھی۔ اگر ہم ایک مضبوط، مستحکم اور اسلامی خاندان کی تشکیل کے خواہش مند ہیں تو اسلام کے نظام وراثت کو بھی اس کی قرآنی اسپرٹ کے ساتھ خوش دلی سے نافذ کرنا ہوگا۔
انسانوں کے بنائے ہوئے قانون اعتدال، توازن اور فطری تقاضوں کی رعایت سے محروم ہوتے ہیں اور ان میں بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے اس کا مظہر یہ ہے کہ کہاں تو پہلے عورت وراثت سے ہی محروم تھی اور کہاں اب اسے مرد کے برابر کا حق دار بنا دیا گیا ہے اور چوں کہ اسلام میںتقسیمِ وراثت کی چند مخصوص حالتوںمیں عورت کاحصہ مرد کا نصف ہوتا ہے اس لیے اس پر اعتراض بھی کیا جاتا ہے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021