وبا اندوہناک ہے، میڈیا اس پر ’’مثبت‘‘ نہیں ہوسکتا
المیہ کی ہولناکی بڑھانے والوں کو جوابدہ بنانا ہی ہوگا
از ۔۔۔سومیا راجندرن
ترجمہ: محمد مجیب الاعلیٰ
کووڈ کی دوسری لہر ہندوستان پر قہر بن کر ٹوٹی ، ملک بھر سےسامنے آنے والی تصاویراندوہناک ہیں۔ شمشان گھاٹوں میں آخری رسومات کی منتظر نعشوں کی طویل قطاریں ، آکسیجن سلنڈرس کے لیے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑ دھوپ کرتے ہوئے مضطرب خاندان، علاج کے لیے دواوں کے مراکز کے باہر قطاریں اور اپنے چہیتوں کو ہمیشہ کے لیے کھودینے والوں کی آہیں دل دہلادینے والی ہیں۔
مختلف ریاستوں سے سامنے آنے والی تصویروں اور کہانیوں نے اس ہوّے کو ہوا میں اڑا دیا کہ بھارت کورونا پر فتح پاچکا ہے جس کا پر زور دعویٰ وزیراعظم نریندر مودی نے اس سال کے اوائل میں کیا تھا۔ ماہ مارچ میں عین اس وقت جب کیسس کی تعداد میں اضافہ کا رجحان سامنے آرہا تھا مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن نے اعلان کیا کہ ’’ہم ہندوستان میں کووڈ ۱۹ کھیل کے اختتامی حصہ میں ہیں‘‘۔
جب ملک کے قائدین وائرس پر فتح کا اعلان کرنے لگیں اور الیکشن کی پرہجوم ریالیوں میں شرکت کے ذریعہ بذات خود کووڈ ۱۹ پروٹوکول کی دھجیاں اڑارہے ہوں ، مذہبی اجتماعات کی حوصلہ افزائی کررہے ہوں اور عوام کے درمیان ماسک لگائے بغیر حاضر ہورہے ہوں تو شہریوں نے بھی یقین کرلیا کہ وبا ختم ہوچکی ہے ۔ سلامتی کا یہی وہ جھوٹا احساس تھا جس نے بہت سوں کو لاپرواہ بنادیا اور جو کووڈ ۱۹ کیسس کی سونامی کا سبب بن گیا جس کا آج ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ تاہم وبا کے کوریج کے ارد گرد ایک بیانیہ پیش کیا جارہا ہے۔
28اپریل کو ذہنی صحت کے ماہرین بی این گنگا دھر ، پرتیما مورتی ، گوتم شاہ اور راجیش ساگر نے میڈیا کے نام ایک کھلے مکتوب میں صحافیوں سے اپیل کی کہ وہ وبا کا احاطہ کرنے میں تحمل کا مظاہرہ کریں، کوریج میں معاون معلومات کی فراہمی کے ذریعہ اندیشوں کا ازالہ کیا جانا چاہیے جیسے دوائیں کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہیں ، انسانی فتح کی امید پیدا کرنے والی کہانیاں ، بحران کی صورتحال میں مدد کرنے والی تنظیمیں اور اسی طرح کی باتوں کو اجاگر کیا جانا چاہیئے نہ کہ میڈیا کوریج تشویش کو ہوا دینے والا ہو جس کے نتیجہ میں دیکھنے والوں کی ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ جیسے ہی یہ مکتوب سامنے آیا۔ ہر طرف اس کے چرچے ہونے لگے۔ واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمس کے ذریعہ اسے خوب پھیلایا گیا اور میڈیا کو ’’گِدوں‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جلتی ہوئی چتاوں کی کئی تصاویر کو سامنے لانے کے لیے میڈیا پر ہندوفوبیا کا الزام دھرا گیا ۔
اس بات کی نشاندہی کی جارہی ہے کہ مکتوب پر دستخط کرنے والے پہلے شخص ڈاکٹر وی این گنگا دھر ہیں جو آر ایس ایس کے رکن ہیں اور آر ایس ایس کے ساتھ ہم نشینی کی ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر زیر گشت ہیں چونکہ ہندوستان کی صورتحال کو بین الاقوامی میڈیا کی توجہ بھی حاصل ہوئی ہے ، بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس بیانیہ پر کنٹرول کرنے اور میڈیا کوریج میں ’’اثباتیت‘‘ (Positivity)بھرنے کے لیے کود پڑی ہے ۔
اگرہم یہ فرض کرلیں کہ یہ خدشات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں، تب بھی پیغام رساں پر نشانہ سادھنے کے آسان عمل پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے خاص طورپر ایک ایسے وقت جب اصل دھارے کے نیوز چیانلوں بالخصوص ہندی و انگریزی چیانلوں کے صحافیوں کی تقریباً ہر خبر جو ہیڈ لائن بنتی ہے اس کا متن سرکاری ہی ہوتا ہے۔
المیے ایسے ہی وقوع پذیر نہیں ہوتے یہ لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ میڈیا کا کام نہ صرف اعدادوشمار کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ انسانی کہانیاں بھی بیان کرنا ہے۔ جی ہاں ، ایک برہم بیٹی جو کسی ریاست کے وزیراعلٰی سے سوال کرتی ہے وہ نمایاں ہونے کی اہل ہے۔ ایک دل شکستہ بیٹا جو پولیس سے بھیک مانگ رہا ہے کہ وہ اپنی ماں کا آکسیجن سلنڈر لے کرنہ جائے،وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی آواز سنی جائے۔ میٹرو شہروں کے شکستہ حال دواخانوں میں سانس لینے کے لیے ہانپ ہانپ کر دم توڑنے والوں کے خاندان بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ غم وغصہ کے اظہار کے لیے انہیں ایک پلیٹ فارم ملے ۔
یہ المیہ ایسے ہی کھلے آسمان سے ٹوٹ کر ہماری گود میں نہیں آگرا ۔ یہ حکومت کے لاپروائی اور کامل غفلت کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ ماہرین کے مشورے کو نظر انداز کردینے سے لے کر ویکسینس کے لیے مناسب آرڈر نہ دینے تک اس بحران کے لیے حکومت ذمہ دار ہے۔ پھر بھی اس کے لیے کسے جوابدہ بنایا جائے گا؟
مرکزی وزیر صحت جب اس بات پر اصرار جاری رکھے ہوئے ہوں کہ ہندوستان میں شرح اموات دنیا میں سب سے کم ہے اور سرکاری بلیٹنس ریاست کے ایک ہی شمشان گھاٹ میں انتم سنسکار کی آدھی تعداد کو ظاہر کررہے ہوں تو کیا میڈیا ان کے جھوٹ کو آشکار نہ کرے؟۔ حتی کہ گجرات میں جہاں عام طور پر میڈیا کو بی جے پی زیر قیادت ریاستی حکومت کا دوست سمجھا جاتا ہے اس دوسری لہر نے صحافیوں کو انتظامیہ سے بعض کٹھن سوالات پوچھنے پر مجبور کیا ہے۔
کیا میڈیا کو سرکاری اعداد و شمار کی رپورٹنگ وفاداری کے ساتھ کرنی چاہیے جبکہ حقیقت ان کی آنکھوں کے سامنے ہو، وہ شمشان گھاٹوں کے باہر نعشوں کی قطاریں دیکھ سکتے ہوں ؟ میڈیا جلتی ہوئی چتاوں یا دریا میں بہنے والی نعشوں کی تصویر کو فوٹو شاپ نہیں کرتا۔ یہی بات ہے جو ہورہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ میڈیا پرتوجہ کھیچنے والے کوریج میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جارہا ہے حالانکہ کئی صحافی بذات خود اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں اور بہت سارے اپنے رشتے داروں کو کھوچکے ہیں۔ اس دور میں جینے والے ہم میں سے کسی شخص کے لیے یہ کوئی تماشا نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مضطرب لوگ جہاں کہیں سے ممکن ہو مدد حاصل کرنے کے لیے سرگرمی سے کوشش کررہے ہیں۔ اپنی فوری گزارشات کو پہنچانے کے لیے وہ سوشل میڈیا اور رپورٹرس تک پہنچ رہے ہیں۔ حتی کہ ڈاکٹرس اور دواخانے بھی ٹوئٹر یا میڈیا پر آکسیجن سلنڈرس کی گزارش کررہے ہیں،اس امید کے ساتھ کہ کم سے کم اس طریقہ سے سست حکومت کو ہنگامی طور پر اقدام کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔
صرف ہندوستان کے میڈیا کی بات نہیں ہے دنیا بھر میں چاہے وہ چین ، اٹلی ، جرمنی ہو یا امریکہ و برطانیہ ہم مہلوکین کی تصاویر دیکھتے رہے ہیں۔ اٹلی جیسے ممالک کے تھکے ہارے ڈاکٹروں نے اس وائرس کی دہشت کی طویل کہانیاں لکھی ہیں اور دنیا کو انتباہ دیا کہ وہ اسے ہلکے میں نہ لیں۔ یہ کہانیاں ہندوستان کی حکومت تک بھی پہنچی جہاں وبا بعد میں پھوٹ پڑی۔ یہ پیش بینی کی جاسکتی تھی کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے اور کیا تیاری کرنی ہے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
24 مئی 2020کو نیویارک ٹائمز کے صفحہ اول پر ان امریکیوں کو یاد کیا گیا جو کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ۔ سرخی کچھ یوں دی گئی، ’’یہ فہرست میں شامل محض نام نہیں ہیں، یہ ہم ہی تھے ‘‘ ۔ یہ فرنٹ پیج اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ انتظامیہ پر وبا سے سرگرمی کے ساتھ نہ نمٹنے کے لیے تنقید کی جارہی تھی اور انتظامیہ کی لاپروائی اس وقت تقریباً ایک لاکھ افراد کی اموات کا سبب بنی تھی۔ باالفاظ دیگر وبا محض حقائق و اعداد و شمار کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عوام سے ہے۔ لہٰذا ماہرین کے انٹرویوز ، ادویہ پر رپورٹس ، وسائل ، ویکسینس کی دستیابی اور بہت ساری کہانیوں کے ساتھ ساتھ انسانی کہانیاں بھی اس بات کی مستحق ہیں کہ انہیں بیان کیا جائے۔
بلاشبہ اس وبا نے مختلف وجوہات سے دنیا بھر میں بے شمار افراد کی ذہنی صحت پر شدید اثر ڈالا ہے۔ یقیناً اس مسئلہ سے نمٹنے کی ضرورت ہے لیکن جو اس المیہ کے لیے ذمہ دار ہیں انہیں جوابدہ بنانے پر میڈیا کو مورد الزام نہ ٹھرائیں۔ اگر پیغام دینے والے کے منہ پر پٹی ہوتو پیغام اس کی زبان پر ہی دم توڑدیتا ہے اور اگر ایسا کیا جائے تو یہاں اس کا فائدہ کسے پہنچتا ہے ؟۔ عوام کو یا ان لوگوں کو جو عوام پر حکومت کررہے ہیں؟ ۔ اگر صحافت عوامی بہبود کے لیے ہے تو کوئی غلطی نہ کریں۔ میڈیا کو لازماً بولتے رہنا ہوگا اور اس وقت تک چیخ پکار کرنی ہوگی جب تک کہ پیام کو نظر انداز کرنا ارباب اقتدار کے لیے ناممکن نہ ہوجائے۔
(بشکریہ: دا نیوز منٹ،۱۱؍مئی۲۰۲۱)
***
المیہ یہ ہے کہ میڈیا پرتوجہ کھیچنے والے کوریج میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جارہا ہے حالانکہ کئی صحافی بذات خود اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں اور بہت سارے اپنے رشتے داروں کو کھوچکے ہیں۔ اس دور میں جینے والے ہم میں سے کسی شخص کے لیے یہ کوئی تماشا نہیں ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021