نفرت کی آندھی ۔بھارت کی یکجہتی و اتحاد خطرےمیں

مابعد پہلگام و آپریشن سندور :مسلم مخالف بیانیے کو فروغ دینے والے ٹی وی چینلز بے نقاب

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

یوٹیوب پر تھم نیلز کے ذریعے فرقہ واریت: ہیٹ واچ ٹیم کی تشویشناک رپورٹ
20 ریاستوں میں نفرت انگیز جرائم کی لرزہ خیز تفصیلات آشکار۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا تبصرہ امید کی ایک کرناشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمد محمودآبادی کو آج صبح 18 مئی کو دہلی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے ڈرامائی انداز میں ہریانہ پولیس نے گرفتار کر لیا۔ علی محمد محمود آبادی کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے 8 اور 11 مئی کو اپنے فیس بک پوسٹ میں چند بنیادی سوالات اٹھائے تھے۔ علی محمد محمود آبادی کے خلاف یہ کیس فیس بک پر ان کے دو پوسٹوں کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ سندور آپریشن کے ایک دن بعد 8 مئی کو انہوں نے فیس بک پوسٹ پر ایک طویل تحریر لکھی جس میں انہوں نے بھارتی افواج کے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملے کو ناگزیر بتایا۔ میڈیا میں بھارتی افواج کی دو خواتین آفیسرز بشمول کرنل صوفیہ قریشی کے ذریعے پریس بریفنگ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک نے جنگ کے موقع پر تنوع میں اتحاد کی بہترین علامت کا اظہار کیا۔ کرنل صوفیہ قریشی کی تعریف میں دائیں بازو کے لوگوں کے رطب اللسان ہونے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے یاد دلایا کہ اس طرح کے تنوع کا اظہار اور یکجہتی اگر زندگی کے تمام شعبوں میں نہیں ہے تو پھر یہ منافقت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ موب لنچنگ، ہیٹ کرائم، تعصب اور اقلیت مخالف رویے کی اسی طرح سے مذمت کی جانی چاہیے جس طرح سے ایک مسلم آفیسر کی تعریف کی جا رہی ہے۔
11 مئی کو علی خان ایک اور پوسٹ لکھتے ہیں جس میں انہوں نے جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جو جنگ کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ پورا پوسٹ پڑھنے کے قابل ہے۔ علی خان کے ان دونوں پوسٹ میں کہیں پر بھی بھارتی افواج اور حکومت ہند کے اقدامات پر ایک حرف بھی تنقید میں نہیں لکھا۔ پہلے ہریانہ خواتین کمیشن نے علی خان کو نوٹس جاری کیا۔ اس پر علی خان نے وضاحتی بیان جاری کیا اور اپنی پوزیشن واضح کی۔ علی خان کی حمایت میں 80 سے زائد ملک کے معروف دانشوروں اور اکیڈمک شخصیات نے اپیل جاری کی اور ہریانہ خواتین کمیشن کے نوٹس کی تنقید کی۔
اسی دوران بی جے پی یوتھ لیڈر کی شکایت پر ہریانہ سونی پت پولیس نے ڈرامائی انداز میں صبح 6:30 بجے علی خان کو گرفتار کر لیا۔ گرفتاری سے قبل نہ کوئی نوٹس جاری کی گئی اور نہ اطلاع دی گئی۔ علی خان کے خلاف سنگین دفعات عائد کی گئی ہیں جن میں غداری، ملک میں یکجہتی کو نقصان پہنچانے اور دو فرقوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کے الزامات شامل ہیں۔
دوسری طرف مدھیہ پردیش کے بی جے پی لیڈر اور وزیر اجے شاہ ہیں جنہوں نے کرنل صوفیہ قریشی کو دہشت گردوں کی بہن اور پاکستان کی بیٹی قرار دیتے ہوئے انتہائی نازیبا تبصرہ کیا۔ المیہ یہ ہے کہ اجے شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی۔ عدالت کی واضح ہدایت کے باوجود بی جے پی لیڈر اجے شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس نے لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے بہت ہی کمزور دفعات کے تحت مقدمات درج کیے۔ دوسرے دن مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پھر احکامات جاری کیے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی اجے شاہ کے خلاف سخت تبصرے کیے اور مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے ججوں کے تبصرے کی حمایت کی۔
مگر کئی دن گزر جانے کے باوجود نہ نام نہاد نیشنلزم کی علم بردار بی جے پی نے اجے شاہ سے استعفیٰ لینے کا اشارہ دیا ہے اور نہ ہی مدھیہ پردیش کی پولیس نے کارروائی کے لیے کوئی پہل کی ہے۔ یہ دو واقعات نہ صرف ادارہ جاتی تعصب اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ اس ملک کے نظام میں مسلمانوں کے تئیں نفرت انگیز رویے کو بھی واضح کرتے ہیں۔ علی خان جنہوں نے بھارتی افواج کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا مگر ان کے خلاف غداری کے مقدمات عائد کرکے پس زنداں کر دیا گیا۔ دوسری طرف بی جے پی لیڈر جس نے بھارتی افواج کے وقار کو مجروح کیا، ایک خاتون آفیسر کی تذلیل کی اور بھارتی افواج کے درمیان مذہبی بنیاد پر تفریق پیدا کی، اس کے باوجود وہ آزاد ہے اور وزارت کا لطف لے رہا ہے۔
22 اپریل کو کشمیر کے پہلگام میں سیاحتی مقام پر دلدوز دہشت گردانہ حملے کے جواب میں 7 مئی کو بھارت نے آپریشن سندور کا آغاز کیا۔ پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) میں دہشت گردی کے نو کیمپوں پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد پریس بریفنگ میں خارجہ سکریٹری وکرم مسری نے دو خواتین مسلح افواج کے نمائندوں کے ساتھ اعلان کیا کہ پہلگام حملے کا مقصد فرقہ وارانہ تنازع کو ہوا دینا تھا۔
انہوں نے اندرون ملک اتحاد اور یکجہتی کی اپیل کی لیکن مسری کے اتحاد کے پیغام سے زیادہ پریس بریفنگ میں کرنل صوفیہ قریشی کی موجودگی موضوع بحث بن گئی۔ بہت سے لوگوں نے اسے ’’حقیقی بھارت‘‘ کے طور پر سراہتے ہوئے کہا کہ بھارت کے تنوع میں ہی اتحاد کی علامت کا شاندار مظہر ہے۔
تاہم، کچھ مبصرین نے صوفیہ قریشی کی پریس بریفنگ موجودگی کو سیکولر ٹوکنزم اور بھارت میں مسلمانوں کو درپیش امتیازی سلوک اور تشدد کی روزمرہ کی حقیقت کو چھپانے کے علاوہ کچھ نہیں قرار دیا۔
چنانچہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد کشمیر میں یکجہتی اور غصے کی لہر زبردست دیکھی گئی۔ کشمیری سیاست دانوں، سِول سوسائٹی، ٹریڈ یونینوں اور مقامی مسلم بیوپاریوں نے مکمل شٹر ڈاؤن کا اہتمام کیا۔ وادی کشمیر میں کینڈل لائٹ مارچ اور عوامی مظاہرے ہوئے۔
جموں و کشمیر اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اس بے رحمانہ قتل عام کی مذمت کی گئی۔ بہت سے کشمیری مصیبت زدہ سیاحوں کی مدد کے لیے آگے آئے۔ ملک بھر کے مسلمانوں نے یک زبان اس حملے کی مذمت کی۔
اسدالدین اویسی جیسے مسلم سیاست داں نے کھل کر اس قتل عام کی مذمت کی اور ہندو مخالف نوعیت کو تسلیم کیا۔ ملک بھر مساجد میں نماز جمعہ کے دوران احتجاج دیکھنے میں آیا۔
ملک کی تمام بڑی مسلم تنظیموں بشمول جماعت اسلامی ہند، جمعیۃ علمائے ہند، مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی ملک گیر تنظیموں نے پہلگام حملے کی واضح لفظوں میں مذمت کی۔
اس کے باوجود پہلگام حملے کے بعد بھارت کے مسلمان، دائیں بازو کے نظریات کے حاملین اور ان کی ترجمانی کرنے والی میڈیا کی نفرت سے نہیں بچ سکے۔
کرنل صوفیہ قریشی جنہیں سیکولر کے ٹوکن کے طور پر پیش کیا گیا، وہ بھی مذہبی تعصب اور نفرت سے نہیں بچ سکیں۔
پہلگام حملے کے بعد چند ہفتوں میں مسلمانوں، بالخصوص کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات پر گہری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف فرقہ وارانہ حملہ، پروفیسر علی خان کی گرفتاری اور نفرت انگیز واقعات کوئی الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں۔
فرقہ وارانہ تشدد، نفرت انگیز جرائم اور منظم دھمکیوں کی ایک خطرناک اور منظم لہر دیکھی گئی۔ گھناونے اور المناک دہشت گردانہ حملے کے جذباتی ردعمل کے طور پر ابتدا میں جو کچھ شروع ہوا، وہ تیزی سے منظم جارحیت کے ملک گیر نمونے میں تبدیل ہو گیا۔ بھارت کے مسلمان، خاص طور پر کشمیری مسلمان، اجتماعی سزا کا بنیادی ہدف بن گئے۔ نفرت انگیز جرائم پر اے پی سی آر کی رپورٹ
ملک بھر میں حقوق انسانی شعبے میں سرگرم اسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سِول رائٹس (اے پی سی آر) نے 22اپریل سے 8مئی 2025 کے درمیان 20ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 180سے زیادہ واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد ہجومی تشدد، نفرت انگیز تقاریر، توڑ پھوڑ، سماجی ہراسانی، قتل و غارت، حتیٰ کہ ہجومی تشدد کے ایک سرد منظر کو ظاہر کیا گیا ہے۔
اے پی سی آر سے وابستہ سِول سوسائٹی گروپس کی مرتب کردہ رپورٹ تشدد اور دھمکی کے ایک مربوط اور منظم انداز کو بے نقاب کرتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں سیاسی لیڈران، دائیں بازو کی ہندتوا تنظیموں، یہاں تک کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بھی مجرمانہ چشم پوشی کی حمایت کی گئی ہے۔ پہلگام حملے کے بعد تشدد کے واقعات صرف کشمیر تک محدود نہیں تھے۔ اتر پردیش، ہریانہ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، پنجاب، راجستھان، ہماچل پردیش، اور تلنگانہ میں واقعات کی سب سے زیادہ تعداد رپورٹ ہوئی ہے۔
رپورٹ میں ملک بھر میں 84 نفرت انگیز تقاریر، 39 حملے، 19 توڑ پھوڑ اور 3 قتل کے ساتھ ملک گیر فرقہ وارانہ واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس پورے عرصے میں نفرت انگیز تقریر نے ہجوم کو متحرک کرنے، تشدد کو جواز فراہم کرنے اور دہشت کا ماحول پیدا کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
بی جے پی لیڈر جن میں پشکر سنگھ دھامی، پون گپتا، راکیش، مغربی بنگال میں بی جے پی کے سابق ممبر پارلیمنٹ ارجن سنگھ نے مسلمانوں کے خلاف تشدد، اخراج اور معاشی بائیکاٹ کی کھلے عام اپیل کی۔
بنگال میں اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے پہلگام حملے میں ہلاک ہونے والے شخص کی بیوہ کو مجبور کیا کہ وہ بولیں کہ مذہب پوچھ کر مارا گیا۔
غازی آباد میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یتی نرسنگھانند اور گجرات میں وشو ہندو پریشد کے سابق رہنما پروین توگڑیا نے اشتعال انگیز تقریریں کرتے ہوئے ہندوؤں سے اپیل کی کہ خود کو مسلح کریں اور پہلگام حملے کا بدلہ لیں۔
جودھ پور، بھاگلپور، فتح آباد اور بھوپال میں منعقد احتجاجی مظاہروں میں نفرت انگیز نعرے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی گئی ہے۔
مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل اب معمول کا حصہ بن گئی ہے اور اس کا اثر سماجی و معاشرتی سطح پر واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔
اے پی سی آر کی رپورٹ میں دائیں بازو کی ہندتوا کی تنظیموں بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، ہندو رکشا دل اور دیگر مقامی ہندتوا تنظیموں کے نفرت انگیز جرائم میں کردار کو واضح کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ اس نفرت انگیز جرائم کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ حکومتی مشنریوں کی مدد انہیں حاصل ہے۔
پولیس انتظامیہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور نفرت انگیز جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے واضح طور پر نفرتی ٹولے کے ساتھ کھڑی نظر آئی اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
اے پی سی آر کی رپورٹ میں اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے چند واقعات کا ذکر کیا جس میں پولیس انتظامیہ متاثرہ افراد کی مدد کرنے کے بجائے نفرتی ٹولے کو بچانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔
سانتا کروز، مہاراشٹر میں بجرنگ دل کے ہجوم نے کئی مسلم خاندانوں پر حملہ کیا گیا مگر پولیس نہ صرف ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا بلکہ متاثر خاندان کے افراد کو ہی گرفتار کرلیا گیا۔
دہرادون اور پریاگ راج میں مسلم طلبہ کو ’’سیکیورٹی خدشات‘‘ کی آڑ میں ہاسٹل چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
اب بات صرف مسلمانوں کے خلاف تشدد تک محدود نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا سماجی و معاشرتی بائیکاٹ کی اپیلیں معمول کا حصہ بن گئی ہیں۔
رپورٹ میں آگرہ اور انبالہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ مارکیٹ اسوسی ایشن اور سیاسی لیڈروں کے ذریعہ مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے۔
کولہاپور، مہاراشٹر، اور گونا، مدھیہ پردیش میں کھلے عام بینر لگائے گئے جن میں مسلمانوں کے سماجی و معاشرتی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔
نفرت انگیز مہم سے خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔
اے پی سی آر کی یہ رپورٹ بہت ہی احتیاط کے ساتھ مرتب کی گئی ہے۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت سے ایسے واقعات رہ گئے ہیں جن کا رپورٹ میں ذکر نہیں ہوسکا ہے۔
تاہم پہلگام حملے کے بعد تسلسل کے ساتھ نفرت انگیز جرائم اور فرقہ وارانہ بیانات مسلمانوں کے خلاف مربوط، ادارہ جاتی ماحولیاتی نظام کو ظاہر کرتے ہیں۔
بھارتی جمہوریت کے لیے یہ خطرناک مثال ہے۔
ایک طرف دعویٰ کیا گیا کہ پہلگام میں دہشت گرد حملے کے پیچھے بھارت کے سماجی و معاشرتی تانے بانے کو نقصان پہنچانا تھا مگر سوال یہ ہے کہ ہندتوا تنظیموں کی نفرت انگیز مہم آخر کس کے مقاصد کی تکمیل ہے۔
اگر دہشت گردوں کا مقصد بھارت کے سماجی و معاشرتی تانے بانے کو نقصان پہنچانا ہے تو کیا ہندتوا تنظیموں کی نفرت انگیز مہم سے سماجی و معاشرتی تانے بانے کو نقصان نہیں پہنچ رہا ہے؟
کیا اس معاملے میں دونوں ایک صفحے پر نہیں ہیں؟
اے پی سی آر کی رپورٹ کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے کہ ’’اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو نفرت کی یہ لہر ہندوستان کی آئینی اقدار کو ختم کر دے گی، پولرائزیشن کو گہرا کر دے گی اور فرقہ وارانہ تشدد کی خونی اقساط کی بنیاد ڈالے گی۔‘‘
نفرت انگیز جرائم میں بھارتی میڈیا کا کردار
پہلگام حملے سے لے کر آپریشن سندور تک بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ اپنے آپ میں مذاق بن گئی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ کوریج، فیک نیوز پر تو بھارتی حکومت کو انتباہ جاری کرنا پڑا۔ کئی مرتبہ پی آئی بی نے بھارتی میڈیا کی خبروں کا فیکٹ چیک کرکے غلط ثابت کیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی ٹی وی نیوز چینلوں نے پہلگام حملے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولرائزنگ، فرقہ وارانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایک نیا موقع تلاش کیا۔
پولرائز سوشل میڈیا اور ٹی وی نیوز چینلوں کی بیان بازی کی وجہ سے مسلم مخالف بائیکاٹ مہمات، نفرت انگیز ریلیاں، اور کشمیری طلبہ اور مسلم نوجوانوں کے خلاف تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ حقوق انسانی کی سرگرم تنظیم سی جی پی اور ہیٹ واچ ٹیم نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بھارتی میڈیا کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، بالخصوص یوٹیوب پر تھمب نیل کے ذریعہ فرقہ واریت کو فروغ دینے اور مسلمانوں کے خلاف منظم طریقے سے نفرت کو بڑھاوا دینے کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
اشتعال انگیزی اور بے لگام تشدد کے بعد تقاضا تھا کہ مرکزی اور ریاستی قیادت اس پوری صورت حال پر فیصلہ کن رد عمل کا اظہار کرتی۔ انتہاپسندوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کرنے والوں کو انتباہات جاری کرتی۔
حکومت نے آپریشن سندور کے بعد فوجی معاملات میں غیر ذمہ دارانہ، سنسنی خیز، ذرائع پر مبنی رپورٹنگ سے گریز کرنے کی ہلکی سی ہدایت جاری کی مگر حکومت نے جعلی خبروں کے ذریعہ فرقہ وارانہ ماحول کو کشیدہ کرنے اور عوامی شعور کو زہر آلود کرنے کی کوششوں پر کوئی ہدایت جاری کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ، جن کی ان حالات میں سب سے زیادہ ذمہ داری تھی، ملک کی یکجہتی، سالمیت اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے ان سربراہوں نے اپیل جاری کرنا تک گوارا نہیں کیا۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے ججوں کا تبصرہ: امید کی ایک کرن
پہلگام حملے کے بعد جب مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم عروج پر تھی اور اس کی زد میں کرنل صوفیہ بھی آئیں، تو اس وقت مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جسٹس اتل سریدھرن اور جسٹس انورادھا شکلا پر مشتمل ڈویژن بنچ نے 14اور 15مئی کی سماعت کے دوران جو تبصرے اور ہدایات جاری کیں، وہ مایوسی کے اندھیرے میں امید کی کرن ہیں۔ ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت، پھر پولیس کے ذریعے ایف آئی آر کو جان بوجھ کر کمزور کرنے کی کوشش پر مواخذہ، نفرت انگیز مہم اور فرقہ وارانہ بیانات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے حوصلہ فراہم کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے اس پورے معاملے میں قانون کی جو تشریح کی ہے، وہ عدالتی چارہ جوئی کی راہ بھی دکھاتی ہے۔ تاہم یہ حقیقت ایک بار پھر بے نقاب ہوگئی ہے کہ سیاست اور پولیس کا گٹھ جوڑ کس قدر مضبوط ہے کہ عدالتی احکامات اور ہدایات کو بھی خاطر میں نہیں لایا جا رہا۔ پولیس انتظامیہ کا ایکو سسٹم مکمل طور پر سیاست کے زیر اثر ہے اور آزادی و خود مختاری سے محروم ہے۔
جسٹس اتل سریدھرن اور جسٹس انورادھا شکلا پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ریاستی وزیر جے شاہ کی گوشمالی صرف اس لیے نہیں کی کہ انہوں نے بھارتی افواج کے ایک اعلیٰ افسر کی توہین کی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ اعلیٰ افسر ایک مسلمان ہے۔ عدالت نے وزیر کے بیان کو نہ صرف ’’توہین آمیز‘‘ اور ’’خطرناک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر کا بیان ’’گٹروں کی زبان‘‘ کی طرح ہے۔
ججوں نے کہا کہ یہ ریمارکس ذاتی توہین سے بہت آگے نکل گئے ہیں اور درحقیقت ایک ادارے کے طور پر مسلح افواج کی شدید توہین ہے۔ مسلح افواج ملک کی سالمیت، نظم و ضبط، قربانی، بے لوثی اور جرأت کے آخری گڑھ ہیں۔ بھارتی افواج ہر ایک محب وطن شہری کو عزیز ہونی چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ کرنل قریشی، جو ایک مسلمان افسر ہیں، ان کو ’’دہشت گردوں کی بہن‘‘ کے طور پر لیبل لگانا واضح طور پر علیحدگی پسند جذبات اور مسلمانوں کے خلاف شکوک و شبہات کی حوصلہ افزائی ہے۔ اس طرح قومی اتحاد کو خطرے میں ڈالا گیا ہے۔ مسلم عقیدے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو علیحدگی پسند قرار دینا ملک کی خود مختاری کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ ایک خطرناک اشارہ ہے۔
مزید برآں، عدالت نے پایا کہ دفعہ 196(1)(b) جو مذہبی، نسلی، لسانی یا علاقائی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے متعصبانہ کارروائیوں کی سزا دیتا ہے، کو متحرک کیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر کرنل قریشی کا مذاق اڑانا نازک سماجی تانے بانے اور عوامی سکون کو متاثر کرتا ہے۔
مذہبی شناخت کو توہین آمیز طریقے سے استعمال کر کے وزیر نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ دفعہ 197(1)(c) کے تحت کسی ایسے بیان یا اپیل کے مرتکبین کو مجرم قرار دیا جاتا ہے جو برادریوں کے درمیان دشمنی یا بدخواہی کا سبب بنتی ہے یا اس کا امکان ہو۔
عدالت نے کہا کہ اس سے قطع نظر کہ کرنل قریشی ایک فوجی افسر ہیں، اس طرح کے بیانات تفرقہ بازی اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔ عدالت کے ذریعے سیاسی نفرت انگیز تقریر کی مذمت ایک مضبوط اشارہ ہے کہ منتخب نمائندوں کی طرف سے نفرت انگیز، فرقہ وارانہ بیان بازی ایک قابل سزا مجرمانہ طرز عمل ہے۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا حکم ایک اہم آئینی لمحہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ عدالت نے سیاسی تقاریر اور نفرت انگیز مہم کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ان تقاریر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو مجرمانہ عمل کو فروغ دینے والی ہوں۔ عدالت اپنے فیصلے میں ہر ایک کردار کو جواب دہ بناتی ہے۔
***

 

***

 پہلگام حملے کے بعد جب مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم عروج پر تھی اور اس کی زد میں کرنل صوفیہ بھی آئیں، تو اس وقت مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جسٹس اتل سریدھرن اور جسٹس انورادھا شکلا پر مشتمل ڈویژن بنچ نے 14اور 15مئی کی سماعت کے دوران جو تبصرے اور ہدایات جاری کیں، وہ مایوسی کے اندھیرے میں امید کی کرن ہیں۔ ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت، پھر پولیس کے ذریعے ایف آئی آر کو جان بوجھ کر کمزور کرنے کی کوشش پر مواخذہ، نفرت انگیز مہم اور فرقہ وارانہ بیانات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے حوصلہ فراہم کرتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025