ڈاکٹر ساجد عباسی
میڈیا کے ذریعے مسلسل نفرت پھیلانےکے نتیجہ میں نفرت کا زہر بہت تیزی سے معاشرہ کی ہر سطح پرسرائیت کرگیا ہے ۔ مظفر نگر کے ایک نجی اسکول کی ٹیچرکی جانب سے ایک مسلم بچے کو ہم جماعت ہندو بچوں سے تھپڑ لگوانے کا واقعہ اسی کا شاخسانہ ہے ۔ جب کلاس روم میں نفرت کا اظہار اس گھناؤنے طریقے سے ہو تو یہی نفرت کمسن بچوں کے نوخیز ذہنوں میں اس طرح راسخ ہوجائے گی کہ وہ مرتے دم تک باقی رہے گی۔
ریلوے کے پولیس جوانوں کے دل میں جب نفرت اپنے عروج پر پہونچتی ہے تو وہ حفاظت پر مامور ایک پولیس جوان اور تین معصوم لوگوں کا قاتل بن جا تا ہے۔ اس قتل کی وجہ صرف یہ ہے کہ مقتول اپنے چہرے اور لباس سےمسلم لگتے تھے ۔جب ملک کا وزیر اعظم خود کہتا ہے کہ تم ان کو کپڑوں سے پہچان سکتے ہوتو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفرت کواقتدار کے زور پر پھیلایا جارہا ہے۔میوات کے نوح علاقے میں مسلم علاقوں میں مسلح جلوس نکالے جاتے ہیں ۔ شرانگیزی کو روکنے کے لیے کچھ مسلم نوجواں پتھروں کے ذریعے دفاع کرنے لگتے ہیں تو ان کو قید کیا جاتا ہے اور ان کے گھروں کو بلاکسی عدلیہ کے فیصلے کےاندھادھند سامان سمیت منہدم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک ہزار دو سوگھر زمین دوز کردینے کے بعد ہائی کورٹ کی طرف سے اس کارروائی کو روکا جاتا ہے۔جلسوں میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے ارادے علی الاعلان کئے جاتے ہیں اور معاشی و سماجی بائیکاٹ پر پنچایتوں میں حلف لیے جاتے ہیں۔ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ میں گھروں کو خالی کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں جان بچانے کے لیے مسلمان اپنے گھر اور دوکانیں خالی کرکے ہندو علاقوں سے نکل جاتے ہیں۔
آج نفرت کا اظہار حکومت کی سطح پر، تنظیموں کی سطح پر ،عوام کی سطح پر اور افراد کی سطح پر حتی کہ اسکولوں میں بھی ہونے لگاہے۔یعنی نفرت سارے معاشرے میں سرائیت کرگئی ہے۔ایسا کیوں ہے ؟
دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مفسدوں کو بھی کھلاموقع دیا ہے کہ وہ جھوٹ کی بنیاد پر نفرت کا ماحول پیداکریں اور اور نفرت کی بنیادپر قتل وغاتگری اور فساد کا جواز پیداکریں ۔وہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مصلحین کو بھی کھلا موقعہ دیا ہے کہ وہ اصلاح کا کام کریں۔حالات کے اس حد تک بگڑنے کی وجہ یہ ہے کہ نفرت ،فتنہ و فساد برپاکرنے والوں کا کام مسلسل جاری ہے لیکن غلط فہمیوں کو دور کرنے والوں کا کام رکا ہوا ہے۔آج بھارت میں سارے میڈیا کو اس بات کے لیے خریدلیا گیا ہے کہ وہ دن رات نفرت کا زہر اپنی زبانوں سےچیخ چیخ کر اگلتے رہیں۔میڈیا اور فلموں کے ذریعے مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرکے خونی بناکر پیش کیا جاتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور اسلام سے ہندو اور ہندومذہب خطرے میں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ یک طرفہ الزام تراشی کا جواب مدلل طریقے سے دیا جائے ۔چونکہ میڈیا کی طاقت مسلمانوں کے پاس نہیں ہے اس لیے اس کا حل یہی ہے کہ ہم ہندوعوام کے ساتھ انفرادی طور پر اور اجتماعی طورپر فعال طریقے سے (proactively)تبادلۂ خیال کریں۔ان کی غلط فہمیوں کو دورکریں۔اگر کسی پر جھوٹا الزام لگایا جائے اور عدالت میں ملزم اپنی صفائی میں کوئی وضاحت پیش نہ کرے بلکہ خاموشی اختیارکرلے تو جج کی نظر میں جھوٹا الزام بھی جرم ثابت ہوجائے گا۔اسی طرح بھارت کے مسلم عوام کی خاموشی ان کو مجرم ثابت کررہی ہے۔ہماری خاموشی شرافت کا مظہر نہیں ہے بلکہ ناکردہ گناہوں کا اقرار ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ایک طرف مسخ شدہ تاریخ کے مقابلے میں اصلی و سچی تاریخ کو پیش کریں دوسری طرف ہم اپنے فرضِ منصبی کو ادا کرنا شروع کردیں۔اس فرضِ منصبی کا تقاضا یہ ہے کہ نفرت کے مقابلے میں انسانیت کا سبق ہم اپنے ہموطنوں کے سامنے پیش کریں ۔ شرک کے مقابلے میں توحید کو پیش کیا جائے۔دنیا جن مسائل سے دوچار ہے ان مسائل کا حل اللہ کی کتاب کی روشنی میں پیش کریں ۔نفرت کا حل یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام کیا جائے ۔اسکا کم سے کم فائیدہ یہ ہوگا کہ نفرت کی شدت میں کمی آئے گی اور غلط فہمیاں دور ہوں گی ۔اصل بات یہ ہے کہ جب اصلاح کا عمل رک جائے گا تو فساد کاعمل تیزی سے آگے بڑھے گا۔ صفائی کا عمل جب رک جائے گا تو گندگی تیزی سے پھیلے گی۔جب فکرکی اصلاح نہیں ہوگی تو فکری فساد بڑھے گا۔ فکری فساد کی ایک شکل یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جھوٹ اور افواہوں کے ذریعے غلط فہمیوں کو پیدا کیا جائے اوراس جھوٹ کی بنیاد پر نفرت کو پھیلایا جائے۔
آج ہندو قوم کے پاس کوئی مثبت مقصد نہیں ہے جس پر وہ متحد ہوسکے ۔اس لیے انہوں نے ایک منفی مقصد کو اختیار کیا ہے اور وہ ہے مسلم اور اسلام دشمنی ۔اس کا حل یہ ہے کہ مسلمان اپنے خول سے باہر نکلیں اور اسلام کے نمائندہ بن کرغیر مسلموں سے ربط پیداکریں اور اپنے کردار و گفتار سے میڈیا کے پھیلائے ہوئے زہر کوختم کریں ۔۹/اا کے بعد یوروپ اور امریکہ میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں شدت کے ساتھ غلط فہمیوں کو ایک طوفان کی طرح اٹھایا گیا تھا لیکن مسلمانوں نے اپنے اخلاق سے ،نرم رویّے سے ، تعاون و اشتراک سے اور اپنے چہرے کی مسکراہٹ سے میڈیا کے بیانیے کو غلط ثابت کیا ۔ ان حالات میں مسلم اپنے غیر مسلم بھائیوں سے میل ملاپ بڑھائیں ،ان سے بات چیت کریں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
مثلاً ہندو قوم میں میڈیا کے ذریعے یہ چیز پھیلائی گئی ہے کہ مسلم بادشاہوں نے ہندؤوں کا قتلِ عام کیا، ان کی خواتین کو بے آبرو کرکے ان کی عزتیں لوٹیں اور مندروں کو توڑ کر مسجد بنوائے ۔ان کو یہ بتلایا جائے کہ یہ محض پرپیگنڈہ ہے ۔اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔اگر مسلم بادشاہ ہندو قوم کا قتل ِ عام کرتے ہوتے تو تاریخ سے یہ چیز ثابت ہوتی ۔ اگر ایسا ہوتا تو مسلم بادشاہوں کا ہم عصر کوئی ہندو مصنف ،شاعر یا مورخ ضرور ان قتل کی وارداتوں کو لکھتا۔بابر اور اکبر کے زمانے میں تلسی داس موجود تھے ۔اگر ظلم کی جھوٹی داستان صحیح ہوتی تو وہ اپنی کتابوں میں ضرور لکھتے ۔اگر قتلِ عام کے الزام میں کچھ حقیقت ہوتی تو مسلمان آج اقلیت میں اور ہندو اکثریت میں کیوں ہیں؟اگر مسلم بادشاہ مذہب کی بنیاد پر جنگیں برپا کرتے ہوتے تو ان کے وزراء میں اور سپہ سالاروں میں برہمن اور راجپوت کیوں ہوتے ؟ان کی فوج میں اکثریت ہندؤوں کی کیوں ہوتی ؟مسلم بادشاہوں کی لڑائیاں صرف ان کی حکومتوں کی لڑائیاں ہوتی تھیں ۔ہندو مسلم کا اس وقت جھگڑا ہی نہیں تھا۔اگر ہم صفائی پیش نہ کریں تو ہماری خاموشی ہم کو مجرم بنادے گی ۔ خاموشی معصوم کو بھی مجرم بنادیتی ہے۔
اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ برہمنوں نے بھارت کے اصلی باشندوں کو نچلی ذات قراردیکران پر صدیوں سے ظلم کرتے رہے۔ مسلم حکمرانوں سے بہت پہلے بھارت میں بودھ دھرم اور جین مذہب کے ماننے والے پائے جاتے تھے ۔جگہ جگہ پر بودھ کے مندر بنے ہوئے تھے ۔بودھ کی مورتیاں ان مندروں میں رکھی ہوئیں تھیں ۔بودھ مذہب کی تعلیمات کی بدولت یہ امن پسند لوگ تھے۔جب برھمن آریہ قوم کی صورت میں باہر سے آئے تو انہوں نے یہاں کی بودھ قوم کا قتلِ عام کیا اور اس حد تک کیا کہ لوگوں نے بودھ مذہب چھوڑا اور وہ برہمنوں کے تسلط میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔چونکہ برہمن اقلیت میں تھے تو انہوں نے اپنی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت کی آبادی کو طبقوں میں بانٹ دیا اور ان کو مخصوص پیشوں تک محدود کردیا۔ان کو ذہنی غلام بنا نے کے لیے یہ عقیدہ ایجاد کیا گیا کہ اس جنم میں نچلی ذات والے اگر برہمنوں کی خدمت کریں گے تو وہ اگلے جنم میں برہمن بن کر پیدا ہوسکتے ہیں ۔یہ تصور عام کردیا کہ اس جنم میں اگر کوئی تکلیف میں ہوتو وہ اس کے پچھلے کرموں(اعمال ) کا نتیجہ ہے اور وہ اسی حالتِ زار کا مستحق ہے ۔ اس طرح اپنی مکاری اور عیاری سے ۵ فیصد برہمنوں نے ۹۵ فیصد لوگوں کو ذہنی غلام بنایا ۔بھارت کی عوام کو چار حصوں میں بانٹ دیا :برہمن مذہبی امور کو انجام دینے والے ،چھتریوں کا طبقہ حکومت کرنے والا،ویشی طبقہ تجارت وزراعت کرنے والا اور شودرں کے ذمہ یہ تھا کہ وہ اوپر کے تین طبقات کے لیےمحنت اور مزدوری کریں اور بستی میں ہر طرح کی گندگی کو صاف کریں ۔شودروں کے کوئی حقوق نہ تھے اور نہ ہی ان کو اجازت تھی کہ مذہبی تعلیم حاصل کریں ۔اگر وہ ویدوں سے کچھ سن گن لیں تو ان کے کانوں میں سیسہ پگھلاکر ڈالا جاتا۔چھوت چھات کا نظام سختی سے رائج تھا۔
اسلام بھارت میں جنوب سے تاجروں کے ذریعے آیا۔کیرالامیں پہلی مسجد کی تعمیر ۶۲۹عیسوی میں ہوئی ۔ جبکہ شمال میں فاتحین کی صورت میں آیا۔مسلمانوں کی آمد کے بعد لوگ نامساوات سے تنگ آکر اسلام میں مساوات سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے ۔بعض اعلی ذاتوں کے لوگ اسلام کی حقانیت کو دیکھ کر اورسمجھ کر اسلام قبول کرتے گئے۔کبھی یہاں پر جبر و اکراہ سے اسلام نہیں پھیلا ۔اگر پھیلا ہوتا تو ہندؤوں کا بھی ایسے ہی خاتمہ ہوتا جیسے برہمنوں کے ہاتھوں بودھ مت کے ماننے والوں کا ہوا کہ وہ بھارت میں تقریباً ناپید ہوگئے۔بودھ دھرم کی مندروں کو ہندو مندروں میں تبدیل کردیا گیا ۔آج بھی ہندؤوں کے مندروں میں بودھ کی مورتیا ں ملتی ہیں۔اور مورتیوں کو بنانے کا رواج برہمنوں میں بودھ مذہب سے لیا گیا ۔جب کبھی ہندو مندر کے نیچے کھدوائی ہوتی ہے تو آج بھی بودھ کے استوپا ملتے ہیں ۔
برہمنوں نے بھارت کے اصل باشندوں پر صدیوں سے جو ظلم ڈھائے تھے انکی اس خونین تاریخ پر پردہ ڈالنے کے لیے مسلم بادشاہوں پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے یہاں کی ہندو اکثریت پر ظلم ڈھاکر ان کو تلوار کے زور سے مسلم بنایا اور لاکھوں کا قتل کیا ۔ اسی جھوٹ کو پھیلاکرایک طرف وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈال رہے ہیں اور دوسری طرف مسلموں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کررہے ہیں۔آج مسلم خاموش بیٹھ کر اپنے اسلاف کے ناکردہ گناہوں پر شرمندہ ہوکر ان کے ظلم کو جواز فراہم کررہےہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی صفائی میں کئی ہندو سوشل میڈیا کے ذریعے آواز بلند کررہے ہیں۔وہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ بھارت کے اصل باشندے بودھ دھرم کے ماننے والے تھے ۔جہاں بھی کھدائی کی جاتی ہے وہاں پر بودھ کی مورتیا ں نکلتی ہیں نہ رام اور کرشنا کی مورتیاں۔ہندو مذہبی کتابیں جس میں انسانیت کی تقسیم اور چھوت چھات کی تعلیم دی گئی ہے سب دیڑھ ہزار سال سے زیادہ قدیم نہیں ہیں۔ان کو مسلم دور ہی میں لکھا گیا ہے ۔ پتھروں پرلکھی ہوئی سنسکرت زبان کی کوئی تحریر کبھی زمین سے برامد نہیں ہوئی۔جو بھی تحریر کھدائی کے دوران برامد ہوئی وہ پالی زبان کی تحریر ہے جو بودھ کے زمانے میں رائج تھی ۔سنسکرت بھارت میں اس زمانے میں رائج ہوئی جب برہمنوں کا بھارت میں تسلط ہوا اور بودھ دھرم اور ان کی زبان کو زوال ہوا۔لیکن سنسکرت بھی خواص کی زبان بن کررہ گئی اس لیے کہ نچلی ذاتوں کو سنسکرت پڑھنے ،سیکھنے اور ویدوں کو سننے کی اجازت نہیں تھی۔اور بعض ہندو مورخین لکھتے ہیں کہ رامائن بھی بودھ کے ماننے والوں کی جاتک کتھاؤوں سے لی گئی ہے ۔مہابھارت اور رامائن میں جن شخصیا ت کا ذکر ہے ان کی کوئی تاریخ نہیں ہے بلکہ یہ محض کہانیوں سے ماخوذ ہیں۔ اگر واقعی مہابھارت ،ہندوستان میں وقوع پذیر ہوتی تو ان جنگوں میں استعمال شدہ ہتھیار کھدائی کے بعد کبھی نہ کبھی برامد ہوتے ۔ اس وقت تاریخ کو معلوم کرنے کا ایک ہی مستند ذریعہ ہے وہ ہے کھدائی سے برامد ہونے والی اشیاء کا تجزیہ ۔اس میں نہ ہی سنسکرت زبان پتھروں پر لکھی ہوئی ملتی ہے اور نہ ہی مہابھارت کے ہتھیاراور نہ ہی ان شخصیات کی مورتیاں ؟ بھارت کی اصل تاریخ کے علم کی تحقیق کرنے والے وہ لوگ ہیں جو امبیڈکر سے متاثر ہیں ۔ایسے لوگ منوسمرتی کو ایک ظالمانہ کتاب قرار دیتے ہیں جس کو امبیڈکر نے جلایا تھااور اس کے مقابلے میں بھارت کو ایک ایسا دستوربناکر دیا جس میں انسانی مساوات کو ملحوظ رکھا گیا۔اس دستور کی وجہ سے نچلی قوموں کے اندر خوداعتمادی پیدا ہوئی ۔
یہ اللہ کا بے حد فضل ہے کہ برہمنوں کے ظلم کی داستان کو امبیڈکر کے ماننے والے کھل کر پیش کررہے ہیں اور ان کی اصلیت کو دنیا کے سامنے لارہے ہیں ۔کچھ لوگ ہیں جو مسلم بادشاہوں کے حق میں صفائی پیش کرتے ہیں کہ ان کی جنگ و جدل میں مذہب کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ ان کی ساری لڑائیاں اپنی بالادستی اور سرحدوں کی لڑائی تھی ۔اس سلسلے میں پروفیسر رام پنیانی کا اہم رول رہا ہے۔ یہ کام اللہ تعالیٰ غیرمسلموں سے لے رہا ہے۔مسلمانوں کے ذمے جو کام تھا اس کا انہیں شعور نہیں ہے۔وہ ہے دعوت الی اللہ کا کام جس میں بھارت کے تمام مذاہب و طبقا ت سے تعلق رکھنے والوں کی دنیاوی اور اخروی بھلائی موجود ہے۔اس کام سے غفلت کا جو براہ راست نتیجہ جس صورت میں آرہا ہے وہ ہے مسلمانوں سے ہمہ گیر نفرت ۔یہ دراصل اللہ کے حکم کی نافرمانی پر تنبیہ ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم کو جگانا چاہتا ہے اس غفلت سے جس میں ہم صدیوں سے مبتلا ہیں ۔
اس وقت دو طرح کا مکافاتِ عمل جاری ہے۔ایک مکافات ِ عمل وہ ہے جس کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔
چونکہ مسلمان اپنے ہم وطنوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر سے بے نیاز ہوکر زندگی گزاررہے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہم وطنوں میں سے ایک قوم پرست جنونی گروہ کو ہمارے پیچھے لگادیا ہے۔ہم نے ان کی آخرت سنوارنے کا کام نہیں کیا ہے اس لیے اللہ نے ان کو ہماری دنیا بگاڑنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔جب ہم ان کی اخروی بھلائی کی فکر میں ان کو دعوت الی اللہ دیں گے تو پھر اللہ تعالی ٰ ان کے مقابلے میں ہماری حفاظت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول ﷺ کو بھی لوگوں کے شر اور ضرر سے بچانے کا وعدہ اس صورت میں کرتا ہے جب وہ ابلاغِ دین کی ذمداری ادا کریں گے۔يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ۔اے پیغمبرؐ ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا ۔اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔سورۃ المائیدہ ۶۷۔
اس آیت میں ابلاغِ وحی کو رسول اللہ ﷺ کا اصل کام قرار دیا گیا ۔یعنی ابلاغِ وحی کا کام نہ کیاگیا تو گویا رسالت کا حق ہی ادا نہ ہوا۔پھر اللہ نے فرمایا کہ اس کام میں مشغول ہوکر اپنی حفاظت کی فکر کو اللہ کے حوالے کردو ۔اللہ تمہاری حفاظت کرے گا اور لوگوں کے شر سے بچائے گا۔ایسی صورت میں کافروں کی کاوشوں کو ناکام بنادے گا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ اہل ِ ایمان سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔سورۃ محمد۷۔اس آیت میں اللہ کی مدد مشروط ہے اس شرط کے ساتھ کہ ہم اللہ کے دین کو بندگان ِخدا تک پہونچانے میں اللہ کی مدد کریں۔
مکافاتِ عمل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان گمنام نیک بندوں کی خاطر جو تعداد میں بہت کم ہیں لیکن وہ دعوت الی اللہ کے مشن پر گامزن ہیں، مکافات عمل کو اس طرح انجام دے رہا ہے کہ کفار و مشرکین کو بھی ان کے گھروں سے بے دخل کیا جارہاہے جب وہ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبورکرتے ہیں ۔ہریانہ میں مسلم گھروں کو بلڈوزر کے ذریعے بلا کسی عدالت کے فیصلہ کے اپنی طاقت کے زعم میں منہدم کیا گیا ۔ہماچل پردیش میں مسلمانوں کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں اور دوکانوں کو خالی کرکے چلے جائیں ورنہ برا انجام ہوگا۔ مسلمان خوف وہراس کے ساتھ اپنے ذاتی گھروں کو چھوڑکر دوسری جگہ پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو پھرموسلادھار بارش کی صورت میں اللہ کا ایسا قہر نازل ہوا کہ پہاڑوں پر تعمیرکی گئی عمارتوں اور سڑکوں کے نیچے کی مٹی نرم ہوکرکمزور ہوتی گئی جس سے لینڈ سلائیڈنگ کے سینکڑوں واقعات پیش آئے ۔ہزاروں گھرکھنڈر بن گئے اور جو گھر بچ گئے ہیں ان کے اندر بھی شگاف نمودار ہوچکے ہیں اور لوگ ان میں رہنے سے خائف ہیں کہ یہ کسی بھی وقت زمین دوز ہوسکتے ہیں۔ہماچل پردیش میں شملہ اور کلوکے اضلاع بہت متاثر ہوچکے ہیں۔ہماچل پردیش کے بعداتراکھنڈ میں بھی اسی طرح کی صورتحال پیش آئی ہے۔ کاش کہ اس تباہی سے فرقہ پرستوں کی آنکھیں کھل جائیں ۔
***
ہماچل پردیش میں مسلمانوں کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں اور دوکانوں کو خالی کرکے چلے جائیں ورنہ برا انجام ہوگا۔ مسلمان خوف وہراس کے ساتھ اپنے ذاتی گھروں کو چھوڑکر دوسری جگہ پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو پھرموسلادھار بارش کی صورت میں اللہ کا ایسا قہر نازل ہوا کہ پہاڑوں پر تعمیرکی گئی عمارتوں اور سڑکوں کے نیچے کی مٹی نرم ہوکرکمزور ہوتی گئی جس سے لینڈ سلائیڈنگ کے سینکڑوں واقعات پیش آئے ۔ہزاروں گھرکھنڈر بن گئے اور جو گھر بچ گئے ہیں ان کے اندر بھی شگاف نمودار ہوچکے ہیں اور لوگ ان میں رہنے سے خائف ہیں کہ یہ کسی بھی وقت زمین دوز ہوسکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023