نصاب میں نام نہاد فنونِ لطیفہ کی شمولیت: تہذیبی بقا یا فکری غلامی!

تاریخ سے کھلواڑ اور منصوبہ بند تعبیرِ نو: مسلم ذہن کو نشانہ بنانے کی پوشیدہ حکمتِ عملی

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

متبادل نصاب کی تیاری: اسلامی اقدار پر مبنی مواد کی اشد ضرورت، تعلیمی خود کفالت ہی بقا کی ضمانت
ہندوستان میں قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت NCERT کی جانب سے حالیہ نصابی تبدیلیاں جنہیں آٹھویں جماعت کے لیے نافذ کیا گیا ہے، بظاہر نئی قومی تعلیمی پالیسی NEP 2020 اور نصاب فریم ورک NCF 2023 کے تحت ہمہ جہتی شخصیت سازی، تخلیقی اظہار اور فنی ترقی جیسے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے لائی گئی ہیں۔ لیکن اگر ان تبدیلیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ فقط تعلیمی اصلاحات نہیں بلکہ اس میں ایک خاص فکری اور تہذیبی ایجنڈے کی آہٹ سنائی دیتی ہے، جو ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب، فکری شناخت اور دینی تشخص کو غیر محسوس انداز میں مٹانے کی حکمتِ عملی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔
این سی ای آر ٹی نے تعلیمی سال 2025–26 سے آٹھویں جماعت میں "فنونِ لطیفہ” کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے لیے "کریتی” کے عنوان سے ایک مخصوص درسی کتاب جاری کی گئی ہے جس میں تھیٹر، رقص، موسیقی، ڈراما، مصوری اور مجسمہ سازی جیسے فنون شامل کیے گئے ہیں۔ اس تبدیلی کو "تخلیقی صلاحیتوں کی افزائش” کا نام دے کر قابلِ ستائش قدم بتایا جا رہا ہے، لیکن یہ بات نظر انداز کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کے دینی اور تہذیبی اقدار کے اعتبار سے یہ مضمون کئی سطحوں پر مسئلہ پیدا کرنے والا ہے۔ اسلامی تہذیب میں فنونِ لطیفہ کا وجود تو رہا ہے مگر ایک مخصوص دائرے اور شرعی اصولوں کی روشنی میں۔ اسلامی فنون میں خطاطی، معماری، شعر و ادب اور خوشنویسی کو مقام حاصل رہا ہے۔ لیکن رقص، ڈرامہ، تھیٹر اور مجسمہ سازی جیسی چیزیں عمومی طور پر اسلامی اخلاقیات کے منافی سمجھی جاتی ہیں، خاص طور پر جب ان میں عریاں یا نیم عریاں لباس، مخلوط ماحول، جذباتی اشتعال انگیزی اور شخصیتوں کی تمثیل کی صورت میں دینی و اخلاقی حدود کو پامال کیا جائے۔
سوالات جن کے جوابات ابھی باقی ہیں۔
ایسے میں ایک بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مسلم طلبہ کو ان فنونِ لطیفہ کے لازمی مطالعہ سے مستثنیٰ رکھا جائے گا؟ کیا اقلیتی تعلیمی اداروں کو اس مضمون کو ترک کرنے کا قانونی اختیار حاصل ہوگا؟ کیا والدین کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو ان سرگرمیوں سے علیحدہ رکھیں؟ ان تمام سوالات کا کوئی واضح جواب فی الوقت موجود نہیں۔ حکومت نے ایسی کسی استثنائی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ درپردہ مقصد مسلمانوں کو مجبوراً ایسے مضامین پڑھانے کا ہے، جو ان کے عقائد، تہذیب اور ثقافت کے خلاف ہوں۔ یہ درحقیقت "تدریسی جبر” کی ایک شکل ہے، جس کے ذریعے سے نہ صرف مسلمانوں کی تہذیبی نفسیات کو مجروح کیا جائے گا بلکہ ان کے اندر اپنی روایات سے بیزاری اور مغرب زدہ فکری غلامی کو فروغ دینے کی راہ ہموار ہوگی۔
تاریخ کی نئی تعبیر یا تاریخی تحریف؟
اسی تناظر میںNCERT کی جانب سے آٹھویں جماعت کے لیے سماجی علوم کی نئی درسی کتاب "Exploring Society: India and Beyond” کی اشاعت ایک اور فکری چال ہے، جس میں مسلم حکم رانوں اور خاص طور پر مغل سلاطین کی تاریخی شخصیتوں کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں بابر کو "بے رحم حملہ آور” اکبر کو "نرم لیکن موقع پرست حکم راں” اور اورنگ زیب کو "متعصب، مندر شکن، رواداری کا دشمن” دکھایا گیا ہے۔ ان تعبیرات کا مقصد فقط تاریخ کا ایک نیا زاویہ پیش کرنا نہیں بلکہ مسلم نوجوانوں میں اپنی تاریخ سے شرمندگی اور لا تعلقی پیدا کرنا ہے۔ یہ وہی نظریاتی راستہ ہے جس پر اسرائیل نے فلسطینیوں کے معاملے میں چلنے کی کوشش کی، اور جسے آج بھارت میں ہندتوا نظریات کے حامل طبقے، مسلم تاریخ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ تاریخی حقائق کے انتخاب اور پیش کش میں جو جانب داری دکھائی جا رہی ہے، وہ ایک مکمل نسل کے ذہن و فکر کو مخصوص رخ پر ڈھالنے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
دو طرفہ یلغار، فن اور تاریخ، دونوں محاذوں پر حملہ
ایک طرف طلبہ کو فنونِ لطیفہ کی آڑ میں ایک غیر شرعی اور غیر اسلامی تہذیب میں ضم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری جانب ان کے تاریخی شعور کو مسخ کرکے ان کے آبا و اجداد کے کارناموں کو جرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ دراصل ایک تہذیبی استعمار ہے جو جنگی ٹینکوں اور بندوقوں کے بجائے نصابی کتابوں، نصابی سرگرمیوں اور درسی نظام کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔ اس کو صرف تعلیمی اصلاح کہنا درحقیقت سادہ لوحی ہے۔ مسلم طلبہ پہلے ہی سے تعلیمی پسماندگی، معاشی دباؤ اور سماجی تعصب کا شکار ہیں۔ ایسے میں ان پر ایسی تعلیم کو لازمی قرار دینا جو ان کے مذہب اور ثقافت سے متصادم ہو، ان کے ذہن میں کنفیوژن، احساسِ کمتری اور فکری بغاوت کو جنم دے گا۔ ایک ایسی نسل تیار کی جائے گی جو نہ صرف اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوگی بلکہ اسے بوجھ یا شرمندگی کے طور پر دیکھے گی۔
ہماری ذمہ داریاں، صرف احتجاج نہیں، متبادل ضروری ہے
ان حالات میں محض احتجاجی بیانات، پریس کانفرنسیں یا وقتی غصہ کسی فائدے کا حامل نہیں ہوگا۔ ہمیں علمی، فکری، تعلیمی اور قانونی محاذ پر منظم اور پائیدار حکمتِ عملی اختیار کرنی ہوگی:
1۔متبادل نصابی مواد کی تیاری: اسلامی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کے مطابق فنون و تاریخ کے مواد کو تیار کیا جائے، جو سچائی پر مبنی ہو اور شرعی دائرے میں ہو۔
2۔ اقلیتی اداروں کا اتحاد: مدارس، اسکولوں اور کالجوں پر مشتمل ایک علمی فورم تشکیل دیا جائے جو نصابی تبدیلیوں پر مشترکہ موقف اختیار کرے۔
3۔ قانونی اقدامات: اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی دفعات کا حوالہ دے کر عدالتوں میں رِٹ دائر کی جائے اور قانون ساز اداروں میں نمائندوں کے ذریعے آواز بلند کی جائے۔
4۔والدین، اساتذہ، طلبہ کی بیداری: گھروں اور اسکولوں کی سطح پر بیداری مہمات چلائی جائیں تاکہ مسلم والدین اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔
5 ۔تہذیبی خود مختاری کی تحریک: مسلمانوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ تعلیمی طور پر خود کفیل ہونے کو اپنی ترجیح بنائیں، تاکہ نصابی اور انتظامی آزادی حاصل کی جا سکے۔
یہ تعلیمی مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبی بقا کی جنگ ہے
یہ وقت مسلمانوں کے لیے سخت امتحان کا ہے۔ یہ مسئلہ صرف آٹھویں جماعت کی نصابی تبدیلی یا چند تاریخی ابواب کا نہیں بلکہ یہ ہماری آئندہ نسلوں کی فکری، دینی اور تہذیبی شناخت کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اس فکری حملے کو پہچان کر اس کا مقابلہ نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب ہماری آنے والی نسلیں ہمیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھیں گی۔ یہ تعلیمی تبدیلیاں "میٹھے زہر” کی مانند ہیں، جو آہستہ آہستہ جسمِ ملت میں اتاری جا رہی ہیں۔ اس کا تریاق صرف فکری شعور، دینی بصیرت، تعلیمی خود مختاری اور تہذیبی اعتماد میں پوشیدہ ہے۔

 

***

 یہ وقت مسلمانوں کے لیے سخت امتحان کا ہے۔ یہ مسئلہ صرف آٹھویں جماعت کی نصابی تبدیلی یا چند تاریخی ابواب کا نہیں بلکہ یہ ہماری آئندہ نسلوں کی فکری، دینی اور تہذیبی شناخت کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اس فکری حملے کو پہچان کر اس کا مقابلہ نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب ہماری آنے والی نسلیں ہمیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھیں گی۔ یہ تعلیمی تبدیلیاں "میٹھے زہر” کی مانند ہیں، جو آہستہ آہستہ جسمِ ملت میں اتاری جا رہی ہیں۔ اس کا تریاق صرف فکری شعور، دینی بصیرت، تعلیمی خود مختاری اور تہذیبی اعتماد میں پوشیدہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025