نریندر دابھولکر قتل معاملے میں دس سال بعد آیا فیصلہ ، دو کو عمر قید کی سزا، تین بری
توہم پرستی کے خلاف مہم چلانے والے دابھولکر کو 2013 میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا،بیٹے حمید دابھولکر نے فیصلے کا خیر مقدم کیا
ممبئی، 10 مئی :۔
آخر کار دس سال کے طویل انتظار اور لمبی جدو جہد کے بعد ڈاکٹر نریندر دابھولکر قتل معاملے میں فیصلہ آ گیا ہے۔مہاراشٹرا توہم پرستی مٹاؤ کمیٹی کے بانی ڈاکٹر نریندر دابھولکر کے قتل کیس میں جمعہ کو خصوصی عدالت کے جج پی پی جادھو نے سچن اندورے اور شرد کالسکر کو عمر قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ اس معاملے میں تین دیگر ملزمان ڈاکٹر وریندر سنگھ تاوڑے، وکرم بھاوے اور سنجیو پونالیکر کو ٹھوس ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا گیا ہے۔ نریندر دابھولکر کے بیٹے حمید دابھولکر نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ دابھولکر نے کہا کہ تینوں ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے اور وہ انہیں سزا دلانے کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔
فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی جج پی پی جادھو نے کہا کہ پولیس اور حکومت اس معاملے میں تینوں ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر پائی ہے۔ اس لیے تینوں ملزمان کو اس جرم سے بری کیا جا رہا ہے۔ سچن اندورے اور شرد کالسکر نے فائرنگ کا اعتراف کیا ہے۔ پولیس نے عدالت میں اس کے خلاف مضبوط ثبوت پیش کئے۔ دونوں کو ایک ہی بنیاد پر سزا دی جا رہی ہے۔ جج پاٹل نے یہ بھی کہا کہ تفتیشی افسران کی طرف سے مناسب تفتیش نہیں کی گئی اور تحقیقات میں لاپرواہی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ تحقیقاتی ٹیم یو اے پی اے کی دفعہ کو ثابت نہیں کر سکی۔
اس قتل کی ابتدائی تحقیقات پونے پولیس نے کی تھی۔ اس کے بعد اے ٹی ایس اور آخر کار سی بی آئی نے قتل کے تمام معاملات کی جانچ کی۔ اس کیس میں 72 گواہوں کی شناخت کی گئی جن میں سے صرف 20 گواہوں پر جرح کی گئی باقی گواہوں پر جرح نہیں کی گئی۔ اس کے بعد 15 ستمبر 2021 کو ملزم ڈاکٹر وریندر سنگھ تاوڑے، سچن اندورے، شرد کالسکر، سنجیو پونالیکر اور وکرم بھاوے کے خلاف الزامات عائد کیے گئے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر دابھولکر ایک سرگرم کارکن، عقلیت پسند اور توہم پرستی کے خلاف جنگجو کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ مہاراشٹرا اندھ شردھا نرمولن سمیتی یعنی ایم اے این ایس کے بانی تھے۔ ان کو 20 اگست 2013 کی صبح پونے کے وی آر شندے پل پر دو موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ قتل کے مجرموں کو سزا دینے کے لیے ایک طویل جنگ لڑی گئی۔ اس کے لیے عدالت کو بار بار مداخلت کرنا پڑی۔ اس کے لیے کئی بار عدالت نے تفتیشی ایجنسیوں کی سرزنش بھی کی۔