نام کتاب:جماعت اسلامی کے فضلاء کی قرآنی خدمات

مصنف:ضیاء الدین فلاحی
ناشر: پروفیسر خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی؛
سن اشاعت:۲۰۱۹ء؛ صفحات:۲۰۸؛ قیمت:۳۵۰ روپے
مبصر: ابوسعد اعظمی (ادارہ علوم القرآن، شبلی باغ، علی گڑھ)

تحریک اسلامی اپنے کارکنان کو قرآن کا ذوق آشنا بنانے کے لیے شروع سے کوشاں رہی ہے، اس کی سرگرمیوں میں دروس قرآن، مطالعہ قرآن اور تزکیہ پروگراموں کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک کے بعض ایسے افرادکو بھی قرآنی خدمات کی سعادت میسر ہوئی جنہیں باقاعدہ کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں مل سکا، لیکن انہوں نے اپنے مطالعہ اور بعض علماء سے عربی سیکھ کر اس میں مہارت پیدا کی اور ترجمہ وتفسیر کا اہم کارنامہ انجام دیا۔ مولانا سید حامد علی، مولانا ابو سلیم محمد عبد الحی،مولانا محمد فاروق خان اور ڈاکٹر محمد عرفان راؤ اس کی واضح مثالیں ہیں۔زیر تعارف کتاب کلمات تشکر اور مقدمہ کے علاوہ جماعت اسلامی کے دس فضلاء کی قرآنی خدمات کے تعارف وتجزیہ پر مشتمل ہے۔
اس کتاب میں سرفہرست بانی جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا تذکرہ ہے۔ ان کی سوانح اورفکر ونظر کے مختلف پہلووں کی طرف صرف اشارہ ہی کیا گیا ہے۔ان کی تفسیر تفہیم القرآن کو بیسویں صدی کی شاہ کار تفسیر قرار دیا گیا ہے۔فاضل مصنف کے الفاظ میں ’’تفسیر تفہیم القرآن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی علمی، تحقیقی، دعوتی اور تجدیدی کاوشوں کا عطر اور نچوڑ ہے جو گہرے مطالعات، مشاہدات، تجربات اور تفکرات کا نتیجہ ہے‘‘۔(ص۱۶) جلد اول کے دیباچہ کے حوالہ سے تفہیم القرآن کی ضرورتِ تصنیف پر روشنی ڈالی ہے اور ترجمہ کے حوالہ سے واضح کیا ہے کہ مولانا نے ترجمہ کے بجائے ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا ہے ۔ترجمانی کرتے وقت متن قرآن کی روح کی پوری رعایت کی ہے اور لغوی ومعنونی تحریف سے اپنے قلم کو پوری طرح محفوظ رکھا ہے۔(ص۱۸-۱۹)تفہیم القرآن کے دیباچہ کے عناوین کے ساتھ ساتھ اس تفسیر کی امتیازی خصوصیات اور اس میں تفسیر وتشریح کے طریقوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس فہرست کا دوسرانام مولانا جلیل احسن ندوی کا ہے۔ ان کی سوانح حیات، اختر احسن اصلاحی سے استفادہ، ثانوی درس گاہ رام پور اور جامعۃ الفلاح بلریا گنج میں تدریس، عربی زبان وادب اور مختلف علوم میں ان کی مہارت کے ساتھ ماہ نامہ زندگی رام پور میں شائع ہونے والے قرآنیات سے متعلق ان کے بعض فقہی مقالات کی تفصیل بھی فراہم کی گئی ہے۔مختلف مجلات میں شائع شدہ ان کے قرآنی دروس نیز، تدبر قرآن پر ایک نظر اور افادات جلیل احسن ندوی کے حوالہ سے ان کی قرآنی بصیرت کو اجاگر کیا گیا ہے۔مولانا ظفر الاثری کے حوالہ سے افادات جلیل احسن ندوی کے تعارف میں فاضل مصنف نے ان کے طریقۂ تدریس پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے ’’ان کا طریقہ تدریس اور منہج یہ ہوتا کہ سورتوں کا عمود اور ان کی توضیح بیان کرتے۔نحوی ترکیبیں اور ان کی روشنی میں فرق معانی کی وضاحت کرتے، نظائر قرآن، اختلاف آراء اور تاویل کے فرق کو طلباء کے سامنے رکھتے۔ احادیث کا بطور خاص التزام کرتے۔الفاظ کے معانی کی تحقیق کے لیے معاجم ولغات عربی کا بطور خاص التزام کرتے اور طلبہ سے از خود الفاظ قرآنی کو حل کرکے آنے کی تاکید فرماتے‘‘۔ (ص۴۹)
اس فہرست میں تیسر انام مولانا محمد عبد الحی کا ہے۔ان کے تعارف میں مصنف نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ’’مولانا عبد الحی ایک پیکر عمل، مخلص خادم اور اقامت دین کے لیے فنا مرد مجاہد تھے۔انہوں نے نہ صرف خود علم وادب کی خدمت کی بلکہ خدمت گاران ادب وانشاء کی ایک کہکشاں سجائی‘‘۔ (ص۵۵-۵۶)فاضل مصنف نے ان کی قرآنی خدمات کے دو پہلو بیان کیے ہیں: ایک عظیم پہلو قرآن مجید کا ہندی ترجمہ مولانا فاروق خاں سے کروانا،وسائل فراہم کرنا اور اسے طباعت کی مشکل منزل سے کامیابی کے ساتھ گزاردینا ہے اور دوسرا پہلو ان کی بعض قرآنی تحریریں اور بعض پاروں کے تراجم وتفاسیر ہیں۔اسی سیاق میں ہندی ترجمہ قرآن کو غیر مسلموں کے حق میں مفید بنانے کے لیے ان کی کاوشوں کا مصنف نے خصوصی ذکر کیا ہے۔
جماعت اسلامی کے فضلاء کی ایک سنہری کڑی مولانا سید حامد علی کا ذکر خیر ہے۔ان کی سوانح کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف نے واضح کیا ہے کہ’’انہیں غیر مسلموں میں دعوتی کام سے خصوصی لگاؤ تھا۔ان کی سادگی اور دعوتی تڑپ کودیکھ کرغیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئی۔انہوں نے تمل ناڈو کے علاقے میں خصوصی دورے کیے اور پسے طبقات کو اسلام کی آغوش فراہم کی‘‘۔(ص۷۵)ان کی قرآنی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’’ان کی آخری خدمت مصری عالم سید قطب شہید کی رجحان ساز تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔سورہ فاتحہ تا سورہ توبہ اور آخری پارہ ہی کو اردو میں منتقل کرسکے کہ آخری وقت آگیا۔مولانا مرحوم کی جملہ تحریریں اردو ادب عالیہ کا شاہ کار ہیں‘‘۔(ص۷۶)اس کے بعد
فی ظلال القرآن کاتعارف، اس کی امتیازی خصوصیات، ترجمہ، دوران ترجمہ پیش نظر سات تراجم کا ذکر کرتے ہوئے ترجمہ کے بعض امتیازات، تفسیری نوٹس اور حواشی، ان حواشی کی اہم خصوصیات وغیرہ کو مثالوں کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔خلاصہ کلام میں مصنف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’۔۔۔وہ ایک داعی بے بدل اور جری محقق تھے۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں غیر مسلم اذہان کی رعایت کی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہندو ادیان کی رعایت کرنے والی خدماتِ حامدی کا الگ سے مطالعہ کیا جائے تاکہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا ایک روشن باب دنیا کے سامنے نکھر کر آسکے‘‘۔(ص۹۰)
مولانا شمس پیرزادہ کے تعارف میں ان کے اس وصف کو خاص طور سے اجاگر کیا ہے کہ’’عقیدہ ومسلک کے اعتبار سے سلفی ہونے کے باجود وہ جماعت اسلامی کو آخردم تک ترجیح دیتے رہے۔ جماعت سے بعض جزوی اختلاف کی وجہ سے انہوں نے علیحدگی اختیار کرلی لیکن آخر عمر تک اس جماعت سے عقیدت باقی رکھی اور اس کے خلاف محاذ آرائی سے ہمیشہ گریز کرتے رہے‘‘۔(ص۹۴)ان کی قرآنی خدمات کے ضمن میں تفسیر دعوۃ القرآن کی ضرورت پر انہیں کے الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔پھر دیباچہ کے حوالہ سے اس تفسیر کی خصوصیات کو دس نکات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔دعوۃ القرآن کی تالیف کا مقصد شمس پیرزادہ کے الفاظ میں یہ ہے کہ’’۔۔۔قرآن کی دعوت، قرآن ہی کے ذریعہ بندگان خدا تک پہنچائی جائے۔ غیر مسلموں میں قبول حق کا جذبہ اور مسلمانوں میں قرآن فہمی کا ذوق پیداہو‘‘۔(ص۹۹)اس کی ہرسورہ میں ایک دیباچہ کا اہتمام ملتا ہے جس میں سورہ کانام، زمانہ نزول،مرکزی مضمون اور نظم کلام کی سرخیوں کے تحت قاری کو اس سورہ کے متعلق موٹی موٹی باتیں بتادی جاتی ہیں۔اس کے بعد مثالوں کی ذریعہ اس کو مزید واضح کردیا گیا ہے۔اسی سیاق میں دعوۃ القرآن کے ماخذ ومراجع،تصاویر، نقشہ جات، اشاریہ مضامین اور اس کے اہم مباحث کا بھی سرسری تعارف کراتے ہوئے مثالیں پیش کی گئی ہیں۔خلاصہ بحث میں اس تفسیر کے امتیازات کو ان الفاظ میں اجاگر کیا گیا ہے کہ ’’اس تفسیر میں بطور خاص غیر مسلم ذہن کو سامنے رکھا گیا ہے چنانچہ عقیدہ تناسخ، وحدت ادیان، اہنسا، اوتار، دیو مالائی تصوراتِ شرک وبت پرستی وغیرہ کے بارے میں قرآن کے نقطہ نظر کو بحسن وخوبی واضح کیا گیا ہے ۔۔۔اسی طرح ان جدید افکار وخیالات سے بھی تعرض کیا گیا ہے جو آج ذہنوں پر بری طرح مسلط ہیں مثلاً تحدید نسل، کاروباری سود، مساوات مرد وزن، طلاق کے معاملہ میں مغربی طرز فکر، دین کا محدود تصور، شخصیت پرستی، روایات پرستی، اوہام وخرافات وغیرہ، ان تمام مباحث ومسائل کو اس تفسیر میں بطور خاص واضح کیا گیا ہے‘‘۔(ص۱۰۹)
اس فہرست میں ایک اہم نام مولانا صدر الدین اصلاحی کا ہے۔ مصنف نے انہیں فکر فراہی اور فکر مودودی کا سنگم قرار دیا ہے۔ان کی مختصر سوانح کے بعدان کی قرآنی خدمات کے طور پر ان کی چار کتابیں تیسیر القرآن، تلخیص تفہیم القرآن، قرآن مجید کا تعارف اور دین کا قرآنی تصور کا خصوصی تجزیہ کیا گیا ہے۔ تیسیر القرآن کی تالیف کا پیش منظر پیش کرتے ہوئے اس کے بعض امتیازات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ صراحت کی ہے تفہیم القرآن سے استفادہ کی بے شمار قدریں اس میں نظر آتی ہیں۔(ص۱۱۹)تیسیر القرآن کی سب سے بڑی خوبی فاضل مصنف نے یہ بیان کی ہے کہ’’ہندوستان کے غیر مسلم ذہن کو سامنے رکھ کر یہ تفسیر تالیف کی گئی ہے۔ چنانچہ اصطلاحاتِ قرآن یا مفرداتِ قرآن کے ضمن میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ جو باتیں برادرانِ وطن کے فہم قرآن کے لیے ضروری ہیں ان کو ذکر کیا جائے‘‘۔(ص۱۲۱)اس کے بعد ان کی بقیہ تین قرآنی کتابیں قرآن کا تعارف، دین کا قرآنی تصور اور تلخیص تفہیم القرآن کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے۔
اس فہرست میں اگلا نام مولانا محمد سلیمان قاسمی کا ہے۔سب سے پہلے ان کی مختصر سوانح اور ان کی تصنیفی خدمات کا اجمالی تذکرہ ہے۔اس کے بعد ان کی قرآنی خدمات کے ضمن میں ان کے دروس القرآن کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ مصنف کے الفاظ میں ’’جماعت اسلامی ہند نے روز اول سے عام مسلمانوں کو قرآن سے جوڑنے کی خاطر حلقہ ہائے دروسِ قرآن منعقد کیے۔۔۔تحریک اسلامی کے حلقوں میں پڑھنے پڑھانے اور سنانے کے لیے موزوں کتاب کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی تھی اس ضرورت کے تحت پورے قرآن مجید کے دروس’’دروس القرآن‘‘ کے نام سے تیار کیے گئے جو تحریک اسلامی کی جامع فکر کے حامل ہیں‘‘۔ (ص۱۳۵-۱۳۶)اس کے ان دروس کے عناوین کی معنویت کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے افتتاحیے کا مختصراً تعارف کرایا گیا ہے، پھر اختصار وجامعیت، روح شریعت کی تشریح قرآنی اصطلاحات کے ذریعہ، سوالات کا قیام اور ان کے جوابات وغیرہ عناوین سے مختلف مثالیں پیش کرکے دروس القرآن کے امتیازات بیان کیے گئے ہیں۔
اس فہرست میں ایک اہم نام پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کا ہے۔ان کی ابتدائی سوانح، تصانیف ومقالات کا اجمالی تذکرہ کرنے کے بعد تفہیم القرآن کے انگریزی ترجمہ نیز اس میں مترجم کے اضافے اور عطایا کو ان کا بے مثال کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔فاضل مصنف کے الفاظ میں ’’پروفیسر ظفر اسحاق انصاری نے متعدد اشاریے اور انڈکس تیارکرنے میں بے پناہ محنت صرف کی ہے اور تفہیم القرآن کے انگریزی قالب کو عصری تحقیقاتی پیراہن عطا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے‘‘۔(ص۱۵۸)اس کے بعدمصنف نے فرہنگ مصطلحات، سوانحی اشاریہ، کتابیات،فہرست موضوعات، عمومی انڈکس وغیرہ عناوین کے ذیعہ وہ ظفر اسحاق انصاری کی جگر کاوی کی ستائش کی ہے اور سید مودودی کے اردوئے مبین کو عصر جدید کے معیاری انگریزی ادب میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش قرار دیا ہے۔(ص۱۶۵)
اس کے بعد ڈاکٹر عرفان احمد خان کی قرآنی خدمات کا تعارف ہے۔ان کے سوانحی تعارف کے بعد مصنف نے واضح کیا ہے کہ’’چونکہ فلسفہ کے عالم وماہر تھے لہٰذا ان کی تخلیقات میں، قرآنی آیات کی تشریحات میں فلسفیانہ رنگ غالب ہے۔ مغربی فلسفہ اوراسلامی دینیات کے پارکھ نے سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی تفسیر پیش کی ہے‘‘۔(ص۱۷۳-۱۷۴)اس کے بعد ان کی انگریزی تفسیر(Reflection on the Quran: Understanding Surah Al-Fatiha and Al-Baqara) نیز(Understanding The Quran- An Oytline Study of the Last -Thirty Divine Discourses(Surah85-Surah114))کا بھرپور تعارف وتجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کی امتیازی خصوصیات کو اجاگر کیا ہے۔
اس فہرست میں آخری نام مولانا محمد فاروق خاں کا شامل ہے۔ سب سے پہلے سوانحی تعارف ہے پھر ان کے ہندی ترجمہ نیز مولانا مودودی کے ترجمہ وحواشی کے ہندی ترجمہ کا ذکر کیا گیا ہے۔اور پھر ان کے سب سے اہم کارنامہ ’’قرآن مجید ہندی انواد اور عربی مول گرنتھ کے ساتھ‘‘ کا بھرپور تعارف پیش کیا گیا ہے اور بجا طور پر اسے مولانا فاروق خاں کا شاہ کار قرار دیا گیا ہے۔اس کے بعد متعدد مثالیں پیش کرکے اس ترجمہ کی انفرادیت کو اجاگر کیا ہے۔اس ضمن میں مولانا فاروق خاں کی دیگر قرآنی تصانیف(ص۲۰۲) کی فہرست بھی شامل کردی گئی ہے۔
مقدمہ میں فاضل مصنف نے صراحت کی ہے کہ’’تفسیر قرآن میں جماعت کے ان علماء کرام نے قرآن کے پیغامِ ہدایت کو کلیدی اہمیت دی ہے۔ یہ تمام کوششیں نہ کسی مسلک کے زیر سایہ پروان چڑھیں اور نہ کسی خاص ’’قرآنی صنعت‘‘ کو فروغ دینے کے لیے نمودار ہوئیں بلکہ تمام کا مشترکہ اصولِ تصنیف یہ رہا کہ رب العالمین کے اس آخری ہدایت نامے کو انسانیت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ بطور خاص ہندوستان کی امت اسلامی قرآن سے وابستہ ہوکر دین اسلام کے احیاء کی علم بردار اور امین بن جائے‘‘۔ (ص۱۲-۱۳)
واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے فضلاء کی قرآنی خدمات قابل رشک ہیں۔ اس کتاب میں دس ہی شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے، ابھی اور بہت سے ناموں کے اضافہ کی گنجائش ہے، جن کی قرآنی خدمات وقیع اور قابل تقلید ہیں۔
***

 

***

 جماعت اسلامی کے فضلاء کی قرآنی دمات قابل رشک ہیں۔ اس کتاب میں دس ہی شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے، ابھی اور بہت سے ناموں کے اضافہ کی گنجائش ہے، جن کی قرآنی خدمات وقیع اور قابل تقلید ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024