خرم منصور
کچھ رشتے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں، الگ رہ کر اس کی تکمیل نہیں ہو پاتی۔ ایسے رشتوںمیں ایک رشتہ ہے بیوی اور شوہر کا جو کہ دیگر تمام رشتوں سے بڑھ کر اہم اور لازمی ہے تو دوسری جانب اس سے زیادہ کمزور، ناپائیدار اور بے یقینی کی کیفیت کا حامل کوئی رشتہ بھی نہیں۔ ازدواجی زندگی گڈے گڑیا کا کھیل نہیں ہوتی کہ کھیل ختم ہوا اور اٹھ کر چل دیے، بلکہ شادی شدہ زندگی کو پیار، محبت، سمجھوتے اور سمجھ بوجھ کے ساتھ آگے لے کر چلنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر یہ رشتہ کامیاب اور زندگی خوش حال ہوتی ہے۔ اس رشتے کو نبھانے کی خاطر لڑکے اور لڑکی دونوں کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
تاہم دیکھنے میںیہ آیا ہے کہ اس حوالے سے زیادہ بوجھ لڑکی پر ہی پڑتا ہے جو تمام رشتے ناتے قربان کر کے نئے رشتوں کو اپناتی ہے اور کچھ اس طرح کہ ہمہ وقت اسے دل اور ذہن کو کھلا رکھنا پڑتا ہے اور بہت سی باتوں کو برداشت کر کے خود کو منوانا پڑتا ہے۔
لڑکی جب پرائے گھر، جو اس کا اپنا بن جاتا ہے، جاتی ہے تو ضروری نہیں ہے کہ اسے ہر چیز مکمل اور اپنی پسند کے طابق ملے مگر یہی اس کا اصل امتحان ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے ناپسندیدہ رویوں، عادتون اور باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اندر حوصلہ اور صبر و برداشت پیدا کرے۔ اسے خود کو ماحول سے کسی نہ کسی طرح ہم آہنگ کرنا ہی ہوتا ہے اور جب وہ تمام باتوں کو سہنا اورمخالف رویوں میں جینا سیکھ لیتی ہے تب کہیں جاکر اپنا گھر آباد کر پاتی ہے۔ شادی کے بعد پرائے گھر میں آنے والی لڑکی یکایک سب کچھ اپنی پسند کے مطابق نہیں ڈھال سکتی بلکہ وہ رفتہ رفتہ اجنبی افراد میں اپنی جگہ بنا سکتی ہے اور جب اپنے حسن اخلاق اور رویوں سے وہ پسندیدگی کی سند پا جاتی ہے تو پھر اس کے لیے دوسروں کے رویوں کو اپنی پسند کے مطابق ڈھالنا کوئی مسئلہ نہیں رہتا، تاہم اس کے لیے محنت، وقت اور صبر درکار ہوتا ہے۔ جب لڑکی شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور میں قدم رکھ رہی ہوتی ہے تو اس کے پیش نظر صرف شوہر کا مزاج یا عادات و اطوار ہی نہیں ہوتے بلکہ سارے سسرال کا ماحول اس کی آمد کا منتظر ہوتا ہے جسے ایک بہو ہونے کے ناطے قبول کیاجاتا ہے۔
یہ بات ۱۰۰ فیصدی درست ہے کہ شادی سے پہلے اور بعد کی زندگی مین زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے اس کی پسند کو اولین ترجیح سمجھا جاتا ہے اور والدین کے علاوہ بہن بھائیوں کی محبت اس پر نچھاور ہو رہی ہوتی ہے مگر شادی کے بعد اسے اپنی پسند اور مرضی کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے اور دوسروں کی مرضی کو ترجیحاً دیکھنا ہوتا ہے۔ جہاں لڑکی یہ مرحلہ کامیابی سے طے کرلیتی ہے وہاں زندگی مثل بہشت ہے اور جہاں زندگی کی حقیقتوں کو دل سے تسلیم نہیں کرتی تو اس کی اپنی زندگی بے ترتیبی اور بے سکونی کا شکار ہوجاتی ہے اور رشتوں میں کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے۔
سب سے بہترتو یہ ہے کہ ایسی نوبت آنے ہی نہ دی جائے اور اسے روکنے کی کوشش کی جائے لیکن اس کے لیے لڑکی کو حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اور کرنا چاہیے مگر عام طور پر لڑکیاں یہ نہیں کر پاتیں۔ گھر کو بنانے کے لیے شوہر اور گھر والوں کو اس کا ساتھ دینا پڑتا ہے، خاص طور پر شوہر کو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ لڑکی کی اپنے شوہر سے اچھی ہم آہنگی ہو کیوںکہ سسرالی جب کسی لڑکی کو بیاہ کر لاتے ہیں تو اس وقت تو بے پناہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے، اپنے ظاہری رویے سے ثابت تو یہ کیا جاتا ہے کہ لڑکی ہماری ہوگئی ہے مگر رویہ میں وہ باہر کی اور غیر ہی رہتی ہے جس کی حرکات و سکنات پر گہری نگاہ رکھی جاتی ہے۔ اگر وہ کسی کام کو درستگی سے انجام نہ دے سکے یا وہ سسرال والوں کی مرضی کے عین مطابق نہ ہو تو اسے شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے یہاں تک کہ اس کی تربیت اور والدین کے کردار کو بھی لتاڑا جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس صورت حال میں دل نفرتوں اور کدورتوں کی آماج گاہ بن جاتے ہیں اور ماحول کشیدہ تر ہوجاتا ہے۔ اگر لڑکی معاملہ فہم اور ٹھنڈے مزاج کی ہے تو وہ یہ سب کچھ برداشت کرلیتی ہے اور دب کر رہنا بھی قبول کرلیتی ہے لیکن اگر وہ تیز طرار یا تنک مزاج ہے تو معاملات برعکس ہو جاتے ہیں اور گھر میدان جنگ کا نظارہ پیش کرنے لگتا ہے اور دونوں محاذوں پر رشتوں کی جنگ میں لوگ سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔
ایک اور پہلو قابل غور ہے کہ سسرال کے رہن سہن، کھانے پینے اور لوگوں سے ملنے ملانے کے طریقہ کار پر ناگواری کا اظہار کیا جائے تو اس طرح بھی لڑکی کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔لڑکی کے منہ سے جہاں یہ بات نکلی کہ آپ کے یہاں فلاں چیز ٹھیک نہیں ہے تو اس کے بعد ساس اور نندیں اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھنے لگتی ہیں اور ناگواری ان کے چہروں سے ظاہر ہوجاتی ہے جس کے بعد ماحول میں نفرت گھل کر دونوں کے مابین ایک ایسی بداعتمادی پیدا کردیتی ہے کہ گھر کا ستیا ناس ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ لڑکی سسرال میں کبھی خوش نہیں رہ سکتی جو بات بے بات سسرال اور میکے کا موازنہ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اس کا یہ کہنا بھی سسرالیوں کو چراغ پا کر سکتا ہے کہ ’’آپ کے یہاں تو ایک ہی سالن پکتا ہے جب کہ ہمارے یہاں تو دو یا تین پکتے ہیں۔‘‘ یا پھر کچھ ایسی بات کہ ’’آپ کی واشنگ مشین تو لوکل ہے میری امی تو الیکٹرانکس کی تمام چیزیں جاپانی پسند کرتی ہیں۔‘‘ زندگی کے مختلف معاملات کا تواتر کے ساتھ موازنہ لڑکی کی اہمیت کو گھٹاتا رہتا ہے اور دلوں کی کدورتیں بڑھتی رہتی ہیں۔ جب دلوں میں محبت، پیار اور ادب و احترام نہ رہے تو پھر تمام رشتے صرف نام کے رہ جاتے ہیں۔
اگر آپ اپنی ازدواجی زندگی کو خوشیوں سے لبریز رکھنے کے خواہش مند ہیں تو غلط فہمیاں پیدا کرنے والی چھوٹی چھوٹی باتوں سے گریز کریں اور ان کو اپنے دل اور ذہن میں جگہ نہ بنانے دیں کیوں کہ یہی باتیں وقت کے ساتھ منفی صورتِحال اختیار کرلیتی ہیں جس کے بعد زندگی الجھ کر رہ جاتی ہے۔ دراصل شادی کے بعد دونوں کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور حتی الامکان ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
یاد رہے کہ یہ سب کچھ پلک جھپکتے میں نہیں ہوسکتا، لہٰذا ایک دوسرے کو تھوڑا سا وقت دیں کیوں کہ جیسے ہی ایک دوسرے کو سمجھنے کا مرحلہ مکمل ہوگا تو اس کے ساتھ ہی غلط فہمیاں بھی دم توڑ دیں گی۔ اگر شادی طے شدہ ہے تو کشیدگی اور نااتفاقی کا تمام تر الزام ماں باپ کے سر منڈھ دیا جاتا ہے کہ یہ آپ کی پسند ہے، آپ ہی اسے لائے ہیں، ہماری پسند کو اولیت دی جاتی تو یہ نوبت نہ آتی۔
ازدواجی زندگی کو کامیاب اور خوش گوار بنانے کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنا ہی عقل مندی ہوتی ہے۔ براہِ کرم رشتوں کے تقدس کو پہچانیں ان کو اولین ترجیح سمجھیں کہ ان رشتوں کے ساتھ ہی انسان ساری زندگی گزارتا ہے۔ جب باتوں اور اختلافات کو چھوڑ کر رشتوں کو اہمیت دی جائے گی تو تمام تر مشکلات خود ہی دم توڑتی چلی جائیں گی کیوںکہ رشتوں کی بہرحال اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے جن کو قائم رکھنے کی خاطر سب کچھ برداشت کرنا ہوتا ہے۔
میاں اور بیوی کا رشتہ ایسا ہوتا ہے جس میں ایک دوسرے سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہوتی لہٰذا کوشش یہ رہے کہ اختلافات کے سامنے آنے پر انہیں حل کرنے کی سعی کی جائے۔ چھوٹی موٹی باتوں اور غیر ضروری اختلافات پر گھروں کو برباد کرنا یوں بھی کوئی عقل مندانہ بات نہیں ہے۔
یہ سچ ہے کہ گھر کو بنانے کے لیے لڑکی کو زیادہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور وہ دے بھی سکتی ہے کیوںکہ عورت کی ایک خوبی بہر حال ہے کہ وہ خود کو کسی بھی قالب میں ڈھال سکتی ہے۔ اسے اپنے شوہر کی جانب سے حمایت بھی ملتی رہے تو وہ گھر کو جنت نظیر بنا سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شوہر کو قبول کرنے کے ساتھ ہی اس سے جڑے دیگر رشتوں کو بھی دل سے قبول کرے، ان کے دکھ سکھ کو اپنا سمجھے، ان کی دل جوئی کرے، اچھے لمحات کو پیدا کرنے کی کوشش کرے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ کل ان کے دلوں پر حکم رانی کرنے والی شخصیت کسی اور کی نہیں صرف اس لڑکی کی ہوگی جسے گھر کی بہو کہا جاتا ہے۔
ll
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021