ناروے میں مسیحی برادری کا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی
اوسلو: یوروپی ناروے کے علاقے کرسچن سینڈ میں منعقدہ اسلام مخالف ریلی میں پولس حکام کی جانب سے متعدد بار انتباہ دیے جانے کے باوجود قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کے بعد ایک لاکھ آبادی پر مشتمل علاقے میں مسلمانوں کے لیے نیک جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور مقامی افراد اس نفرت پر مبنی جرم کی مذمت کر رہے ہیں۔ کرسچن سینڈ کے میئر نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے شہر کی مسلمان برادری سے اظہار یکجہتی کیا۔
میئر ہارالڈ فورے نے ناروے کے قومی نشریاتی ادارے این آر کے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’کرسچن سینڈ سب کا شہر ہے اور ہم نظم و ضبط سے چلتے ہیں تاکہ توازن برقرار رہے، اس طرح کے جرائم اشتعال انگیز اور قابل افسوس ہیں‘‘۔
جمعہ کو مقامی مسیحی برادری کرسچن سینڈ میں قائم مسجد کے باہر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی میں کھڑی ہوئی۔ کرسچن سینڈ کی مسلم یونین کے سینئر رہنما طلال عمر کا کہنا تھا کہ ’’بڑی تعداد میں عوام نے علاقے کی مسلمان برادری کی حمایت کی ہے، ان افراد میں سیاست داں، مسیحی رہنما اور عام شہری شامل تھے، جنہوں نے مقامی مسلمان آبادی سے رابطہ کرکے بتا دیا کے ناروے ان کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ’’سیان ناروے کی اصل تصویر نہیں، ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور باقی ناروے کی مسیحی اور دیگر برادری ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
یہ واقعہ 16 نومبر کو پیش آیا جب ایک غیر معروف دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم ’اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے‘ (سیان) نے کرسٹیئن سینڈ میں مظاہرہ کیا، جس کے دوران انہوں نے قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی سانحہ کی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ جب سیان کے رہنما لارس تھورسن قرآن پاک کو نذرآتش کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو ناروے میں مقیم فلسطینی نوجوان قصی راشد نے رکاوٹوں کو عبور کیا اور سیان کے رہنما کو لات مار کر گرا دیا۔ تاہم پولس نے مداخلت کرکے لارس تھورسن سمیت راشد کو بھی حراست میں لے لیا۔
مذکورہ واقعے کے بعد مسلمان برادری کو ناروے کے عوام کی حمایت حاصل ہونے لگی ہے۔