نئے ایرانی صدر کی رہنمائی میں ہند۔ایران تعلقات کا مستقبل

حکومت خواہ کسی کی بھی ہو دونوں ممالک کے تعلقات میں کبھی کمی نہیں ہوگی :ایرانی سفیر ایراج الٰہی

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

ایران میں بھارتی سرمایہ کاریوں پر امریکہ کی جانب سے دھمکی آمیز رویہ چہ معنیٰ دارد؟
اسلامی جمہوریہ پر برسوں کی پابندیوں اور مظاہروں کے بعد مسعود پیزشکیان نے مغربی ممالک تک پہنچنے اور ملک کے متنازعہ ہیڈ اسکارف قانون کے نفاذ میں آسانی پیدا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے سعید جلیلی کو شکست دے کر ایران کا صدارتی انتخاب جیت لیا ہے۔پیزشکیان نے اپنی مہم میں ایران کی شیعہ تھیوکریسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ لانے کا وعدہ کیا اور طویل عرصے سے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ریاست کے تمام معاملات کے لیے حتمی لیڈر کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ تاہم، ایک ایرانی حکومت جو اب بھی زیادہ تر سخت گیر پالیسی سازوں کے قبضے میں ہے، وہ پیزشکیان کے معمولی مقاصد کو بھی چیلنج کرسکتی ہے۔
مرحوم صدر ابراہیم رئیسی کو، جو مئی 2024 میں ایک ہیلی کاپٹر کے حادثے میں فوت ہو گئے تھے، خامنہ ای کے حامی اور سپریم لیڈر کے طور پر ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جبکہ خامنہ ای ریاست کے معاملات میں حتمی فیصلہ ساز ہیں، لیکن جو بھی شخص صدارتی عہدے پر فائز ہوتا ہے وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو یا تو محاذ آرائی یا مغرب کے ساتھ تعاون کی طرف موڑ سکتا ہے، جس پر ایرانی سفارت کاری کی پوری عمارت ٹکی ہوئی ہے۔
اگرچہ زیادہ تر ممالک میں صدور عام طور پر ریاست یا حکومت کے سربراہ یا دونوں کے طور پر حتمی اتھاریٹی ہوتے ہیں لیکن ایران میں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں سپریم لیڈر خامنہ ای موجود ہیں، جو کہ ایران میں حتمی اتھاریٹی ہیں اور ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسیاں مرتب کرتے ہیں اور تمام اہم فیصلے کرتے ہیں۔ اسی طرح کوئی یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ شاید صدارتی انتخابات محض ایک فریب ہیں اور صدر کا عہدہ محض ایک علامتی عہدہ ہے لیکن حقیقت اس سے کافی زیادہ پیچیدہ ہے۔
درحقیقت ایرانی صدر محض ایک میکانیکل بیوروکریٹ نہیں ہیں۔ ایک صدر اور اس کے وزراء کا اہم ایگزیکیٹو رول ہوتا ہے اور وہ جس طریقے سے پالیسیوں کو نافذ کرتے ہیں اور فیصلوں کو نافذ کرتے ہیں وہ نتائج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ تین ہزار سے زیادہ ایرانیوں کو انتخابات میں ووٹ دینے کے لیے بھارت میں بھی چار پولنگ اسٹیشن دلی، ممبئی، پونے اور حیدرآباد میں بنائے گئے تھے۔
عالمی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خوشگوار رہے ہیں۔ مالی سال 2022-23 کے دوران بھارت-ایران دو طرفہ تجارت 2.33 بلین ڈالر تھی، جس میں 21.76 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس مدت کے دوران، بھارت کی ایران کو برآمدات 1.66 بلین ڈالر (14.34فیصد کی ترقی) تھی اور ایران سے بھارت کی درآمدات کی مالیت بھی $672.12 ملین (45.05فیصد کی ترقی) تھی۔
ایران کو بھارت کی حمایت
مضبوط تعلقات کی بنیاد یہ بنی کہ بھارتی حکومت نے حال ہی میں ایران کو برکس کی رکنیت دلانے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا جس کے لیے ایرانی دانشوروں، سفارت کاروں اور سیاست دانوں میں برکس گروپ میں اپنے ملک کی رکنیت کے لیے وزیر اعظم مودی کی حمایت کے حوالے سے شکرگزاری کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ لمحہ سربراہی اجلاس سے ایک ہفتہ قبل ایرانی صدر مرحوم ابراہیم رئیسی نے مودی کو فون کال کی تھی۔قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے گزشتہ دنوں سفارتی سرگرمیوں کے آخری لمحات میں کافی کوششیں کیں اور ایران کی رکنیت کے لیے برکس سربراہان کے درمیان زمین تیار کی تھی۔ جب وہ جولائی 2023 کے آخر میں جوہانسبرگ میں برکس کے قومی سلامتی کے مشیروں کی میٹنگ میں برکس کی سیکورٹی اور اقتصادی تعاون کا جائزہ لینے کے لیے گئے تھے۔ تہران یہ تصور کرتا ہے کہ چابہار بندرگاہ کے مکمل ہوجانے کے بعد، بھارتی صنعت و تجارت، سرمایہ کاری اور پراجیکٹ کی برآمدات کے ذریعے بڑے پیمانے پر اندرونی علاقوں میں داخل ہوسکتی ہے۔ ایرانی فریق محسوس کرتے ہیں کہ چابہار ایران کے ساتھ بھارت کی شراکت داری کو مکمل طور پر اعلیٰ اسٹریٹجک سطح تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چابہار پراجیکٹ
13 مئی 2024 کو بھارت نے ایران کی اسٹریٹجک چابہار بندرگاہ کے شاہد بہشتی ٹرمینل کو تیار کرنے اور چلانے کے لیے ایران کے ساتھ دس سالہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ نیا معاہدہ 2016 میں 500 ملین ڈالر کی ممکنہ بھارتی سرمایہ کاری کے وعدے کی پیروی کرتا ہے۔ یہ مئی 2016 میں چابہار بندرگاہ پر دو ٹرمینلز اور پانچ برتھوں کو تیارکرنے کے لیے کیے گئے پچھلے معاہدے کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں متعدد ناکامیوں کے بعد سامنے آیا ہے تاکہ وسطی ایشیا سے بھارت تک سامان اور گیس کی ترسیل اور دیگر بین الاقوامی کارگو کو ہینڈل کیا جا سکے۔
پی ایم مودی نے2016 میں ایران کا دورہ کیا تھا اور اصل چابہار معاہدے کو مکمل کرنے اور ایک بین الاقوامی ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کوریڈور معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تہران نے بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے کے لیے تیار کیا ہے۔ لیکن تہران پر امریکی پابندیوں نے نئی دہلی کو عارضی طور پر اس پراجیکٹ کو روکنے پر مجبور کردیا ہے۔ آخرکار بھارت نے امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے پر بات چیت کی تاکہ بندرگاہ میں بھارتی سرمایہ کاری کی اجازت دی جاسکے۔
مارچ 2023 تک تہران نے بھارت سے چابہار بندرگاہ کو باہمی فائدہ مند تجارت کے لیے استعمال کرنے کا مطالبہ کیا، جس میں ایرانی تیل کی بھارتی درآمدات بھی شامل ہیں، جسے نئی دہلی نے امریکہ کی جانب سے پابندیوں کی چھوٹ میں توسیع کرنے سے انکار کرنے کے بعد معطل کر دیا تھا۔انڈین پورٹس گلوبل لمیٹڈ اور ایران کی پورٹ اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن کی طرف سے مئی میں دستخط کیے گئے تازہ ترین معاہدے میں، شاہد بہشتی ٹرمینل کی توسیع پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جس میں انڈین پورٹس گلوبل کی جانب سے 120 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اور 250 ملین ڈالر کی کریڈٹ ونڈو شامل ہے، جس کے ذریعے نئی سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ، معاہدے پر دستخط کے بعد، امریکہ نے دھمکی دی کہ بھارت کو ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن بھارت نے ابھی تک ان دھمکیوں کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
جہاں تک ہند-ایران تعلقات کے مستقبل میں توقعات کا سوال ہے، تو اس کا ایک مثبت اشارہ حال ہی میں بھارت میں ایرانی سفیر، ایراج الٰہی کے ایک اخباری انٹرویو میں مل جاتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’’اقتدار میں کوئی بھی آئے بھارت اور ایران کے باہمی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ساتھ ہی خارجہ پالیسی میں کسی تبدیلی کا امکان بھی نہیں ہے، جس کی قیادت سپریم لیڈر اور اعلیٰ درجے کے سیاستدانوں کے مختلف ادارے کرتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ایرانیوں کا ایک بڑا طبقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر وہ مغرب کے ساتھ دوبارہ رابطہ کریں تو بھی ایران کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں۔‘‘ یعنی ایرانی قائدین کا ماننا ہے کہ اگر ایران علاقائی سطح پر علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر رکھتا ہے تو وہ امریکی پابندیوں کا سامنا بھی قدرے بہتر طور پر کرسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہند-ایران تعلقات میں کمی کے بجائے ان کے اور زیادہ بہتر ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
***

 

***

 ایران میں نئے صدر،مسعود پیزشکیان کے منتخب ہونے کے بعد ہند-ایران کے دو طرفہ باہمی تعلقات کے بارے میں اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں تاہم، ہمیں اس بارے میں کسی تبدیلی کی توقع نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دونوں ممالک ایک ساتھ چلنے کی ضرورت کو بہتر سمجھتے ہیں اور موجودہ حکومت کے تحت ماضی قریب میں یہ دو طرفہ تعلقات واقعی مضبوط ہوئے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024