
نئی وقف ترامیم ’’پنیہ بھارت‘‘ کے ہندتوا نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش
وقف پر حملہ: صرف قانونی جنگ نہیں، اجتماعی شعور کی بھی آزمائش ہے
نور اللہ جاوید
نئے قانون سے سچر رپورٹ کی صداقت، مزید آشکار
عیسائی اداروں کی جائیدادوں پر بھی نظر؟ عوامی بیداری کا وقت آ چکا
مسلمانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود آخرکار پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے وقف ترمیمی بل منظور ہو گیا اور اب صدرِ جمہوریہ نے بھی بلا تاخیر اس پر دستخط ثبت کر دیے ہیں۔ ان ترامیم کے قانونی پہلوؤں پر دعوت کے انہی صفحات میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔ اگرچہ حکومتی فریق مسلسل یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس بل کا مقصد وقف بورڈ کے کام کاج میں شفافیت، جواب دہی اور اسے ایک سیکولر ادارے کے طور پر قائم کرنا ہے، نیز وقف جائیداد کی آمدنی میں اضافہ کر کے عام غریب و پسماندہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچانا ہے، لیکن پارلیمنٹ میں وزیرِ اقلیتی امور کرن رجیجو نے بل پیش کرتے وقت دونوں ایوانوں میں جو تقاریر کیں، ان میں وقف بورڈ کے کام کاج میں شفافیت اور وقف املاک سے غریب مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کا کوئی عملی خاکہ نہیں پیش کیا ہے۔ صرف یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس بل کا مقصد مذہبی امور میں مداخلت کرنا نہیں ہے بلکہ زمین کے نظم و نسق کا مسئلہ ہے، اس لیے اس کا ریگولیشن ضروری ہے۔ مرکزی وزیرِ داخلہ نے یہ یقین دہانی ضرور کرائی کہ ایک بھی مذہبی مقام کو نہیں چھینا جائے گا مگر "ورشپ ایکٹ” کے باوجود ملک بھر میں تاریخی مذہبی مقامات کو متنازع بنایا جا رہا ہے، اور یہ صورت حال خود امیت شاہ کی تقاریر سے عیاں ہے۔
تاہم وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو، وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر بی جے پی لیڈروں کی تقاریر کا اگر تجزیہ کیا جائے، اور پھر اسے آر ایس ایس کے نظریہ ساز ایم ایس گوالکر اور وی ڈی ساورکر کے "بھارت کے پنیہ بھومی” نظریے کے تناظر میں دیکھا جائے تو منظر نامہ واضح ہو جاتا ہے کہ نہ تو اس کا مقصد وقف جائیداد کے معاملات میں شفافیت لانا ہے نہ ہی وقف املاک پر قبضہ ان کا اولین ہدف ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد سے وقف املاک پر ناجائز قبضے کا سلسلہ جاری ہے اور 1995 اور 2013 کے وقف قوانین میں ترامیم کے باوجود یہ سلسلہ نہیں رک سکا ہے۔ خود مدھیہ پردیش جہاں بی جے پی کی طویل عرصے سے حکومت ہے، نے 2028 میں ہونے والے مہاکمبھ میلے کی تیاری کے لیے 14 بلین ڈالر کی وقف ملکیت پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبضہ کر لیا ہے اور وقف بورڈ کو ایک روپیہ بھی معاوضے کے طور پر نہیں دیا گیا۔ (اس سے متعلق ایک الگ مضمون دیگر صفحات پر موجود ہے) اس لیے یہ کہنا کہ اس وقف ترمیمی بل کا واحد مقصد وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، سراسر غلط ہوگا۔ یہ ایک ضمنی مقصد ضرور ہو سکتا ہے۔ درحقیقت سنگھ پریوار کے "پنیہ بھومی” کے نظریے کو عملی جامہ پہنانا اس کا بنیادی مقصد ہے جس میں مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے لیے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں۔
ہندتوا کے ایجنڈے میں تین اہم نکات ہمیشہ سرِفہرست رہے ہیں: ایودھیا، یکساں سِول کوڈ اور آرٹیکل 370 کا خاتمہ۔ وقف کبھی ان کے واضح ایجنڈے میں شامل نہیں رہا۔ 1995 اور 2013 میں وقف قوانین میں ہونے والی ترامیم کے وقت بی جے پی نے ان کی مخالفت نہیں کی تھی۔ 2013 میں سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر سید شاہنواز حسین نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ "آپ مسلمانوں کا خیال رکھنا چھوڑ دیں، صرف وقف املاک پر ناجائز قبضہ ختم کر کے مسلمانوں کے حوالے کر دیں، یہی سب سے بڑا احسان ہوگا”۔ 2011 میں راجیہ سبھا کی سلیکٹ کمیٹی میں بی جے پی کے تین ممبران شامل تھے لیکن کسی نے اختلافی نوٹ نہیں دیا۔ اب جبکہ امیت شاہ پارلیمنٹ میں تقریر فرما رہے ہیں کہ "آپ نے 1995 اور 2013 میں جو ترامیم کیں، ہم اسی کا سدباب کر رہے ہیں” تو سوال اٹھتا ہے کہ اس وقت بی جے پی نے مخالفت کیوں نہیں کی؟
دراصل اس وقت حالات سازگار نہیں تھے اس لیے خاموشی اختیار کی گئی اور اب جب اقتدار اور طاقت دونوں میسر ہیں تو نظریے کو عملی شکل دی جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں بھارت "پنیہ بھومی” تبھی بن سکتا ہے جب یہاں ہندوؤں کا غلبہ مکمل ہو اور مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کو حاشیے پر دھکیل دیا جائے۔ وقف املاک کی وسیع موجودگی اس نظریے کی راہ میں رکاوٹ تھی اور مسلمانوں کو بے زمین کرنے کے لیے ان ترامیم کو ضروری سمجھا گیا۔
چنانچہ پہلے ناموں کی تبدیلی کا سلسلہ شروع ہوا پھر مسلم تہذیب و ثقافت پر حملے کیے گئے اور اب زمین سے محروم کرنے کی سمت قدم بڑھایا گیا ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر میں وقف املاک کو نشانہ بنایا گیا۔ وقف بورڈ کے اختیارات کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلائی گئیں اور عوام میں یہ تاثر قائم کیا گیا کہ وقف بورڈ جس جائیداد کو چاہے وقف قرار دے سکتا ہے اور اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی موجودہ عمارت کو بھی وقف قرار دینے کا دعویٰ کیا گیا جو کہ سراسر جھوٹ تھا۔ دہلی وقف بورڈ نے کبھی پارلیمنٹ پر کوئی دعویٰ نہیں کیا۔
دونوں ایوانوں سے بل کی منظوری کے بعد لگائے گئے "جے شری رام” کے نعرے صرف ایک نظریاتی فتح کا اعلان تھے۔ جیسا کہ سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے اپنے مضمون میں لکھا ہے: "وقف کا جوہر اسلامی ادارہ جاتی اسکیم میں فلاح و بہبود اور خیرات پر مبنی ہے، یہ ترامیم اس روح پر حملہ ہیں۔ زکوٰۃ، قربانی اور وقف اسلام کے فلاحی نظام کی بنیاد ہیں اور ان پر حملہ دراصل مسلمانوں کے اجتماعی کردار پر حملہ ہے۔”
اسی تناظر میں عالم اسلام کے معروف دانشور ڈاکٹر محمد السلومی کی کتاب Innocent Victims in the Global War on Terror کا تذکرہ اہم ہے۔ اس میں 9/11 کے بعد مغربی دنیا میں اسلامی رفاہی اداروں کے خلاف چلائی گئی مہم کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ جس طرح بین الاقوامی سطح پر رفاہی اداروں کو غیر مؤثر بنانے کی کوششیں کی گئیں، اسی طرز پر وقف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اسی ذہنیت کے تحت وقف ترمیمی بل میں یہ شرط شامل کی گئی ہے کہ وقف کرنے والا کم از کم پانچ سال قبل اسلام قبول کر چکا ہو اور "باعمل مسلمان” ہو۔ مگر باعمل مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ اس پر خاموشی ہے، تاکہ افسران اپنی سہولت کے مطابق اس کی تشریح کر سکیں اور مسلمانوں میں خیرات و فلاح کی روح کو کمزور کیا جا سکے۔
اب جب کہ وقف ترامیم قانون بن چکا ہے، کئی سوالات سامنے آتے ہیں: آگے کی راہ کیا ہوگی؟ کیا وقف املاک محفوظ رہ سکیں گی اور ان کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ مسلم تنظیمیں اور جماعتیں کیا کردار ادا کریں گی؟ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جس جرأت مندی سے وقف کا مقدمہ لڑا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ بورڈ کی قیادت نے یوگی آدتیہ ناتھ جیسے سخت گیر لیڈر کی پالیسیوں کے خلاف جو عزم ظاہر کیا ہے وہ قابلِ تقلید ہے۔ اب عام مسلمانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ بورڈ پر اعتماد کرتے ہوئے وقف املاک کے تحفظ کی جدوجہد میں شامل ہوں۔
مودی حکومت کے 12 سالہ دور کو مسلم مخالف قانون سازی کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ یو اے پی اے میں سختی، تین طلاق، شہریت ترمیمی قانون، کشمیر سے دفعہ 370 کی منسوخی اور اب وقف ترمیمی بل—یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان میں سے بیشتر قوانین کا اثر انفرادی سطح پر پڑتا تھا مگر وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کو نشانہ بناتا ہے اس لیے یہ سب سے سنگین قانون ہے۔
ہندتوا حامی اور بی جے پی لیڈروں کا جہالت پر مبنی یہ پروپیگنڈہ رہا ہے کہ اسلام میں وقف کا کوئی تصور نہیں ہے اور اسلامی دنیا میں وقف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جہالت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ اسلامی تاریخ سے ناواقفیت کا مظہر ہے۔ مسلم معاشرے کی تاریخ کے تمام ادوار میں اوقاف کو پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ مسلمانوں کے عروج و زوال کے دوران بھی وقف املاک محفوظ رہی ہیں۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ وقف ایک مضبوط بنیاد تھی جس پر اسلام کے عہدِ زریں میں اسلامی تہذیب کی تعمیر ہوئی۔ پوری دنیا، خاص طور پر یورپ اس بے مثال تجربے سے مستفید ہوا ہے۔ بھارت میں بھی اوقاف کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی مسلمانوں کی تاریخ ہے۔ اسلامی اوقاف سے صرف مسلمانوں نے نہیں بلکہ بھارت کے تمام شہریوں نے استفادہ کیا ہے۔
’’پنیہ بھارت‘‘ کا تصور اور نظریہ ہی سراسر بھارت کی آئینی روح کے خلاف ہے، تو ظاہر ہے کہ اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو بھی قدم اٹھایا جائے گا وہ مکمل طور پر غیر آئینی ہوگا۔ چنانچہ وقف میں جو ترامیم کی گئی ہیں اگر ان کو آئین کی بنیادی روح کے کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ ترامیم کوڑے دان میں پھینکنے کے لائق ہیں۔ یہ ترامیم بھارت کے حکم رانوں کی آئین کے تئیں وفاداری کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ تکثیری جمہوری ملک کا پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ تمام مذاہب برابر ہیں، ریاست کسی بھی ایک مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔ چنانچہ مذہبی اداروں کا نظم و نسق اس مذہبی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ ہندوستان میں جہاں اکثریت ہندوؤں کی ہے یہ اصول نہ صرف ہندو مذہبی و خیراتی اداروں پر نافذ ہوتا ہے بلکہ اقلیتی مذاہب کے اداروں پر بھی۔ آئین کے آرٹیکل 26 میں یہی کہا گیا ہے:
مذہبی امور کے انتظام کی آزادی:
(الف) مذہبی اور رفاہی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنا اور برقرار رکھنا؛
(ب) مذہب کے معاملات میں اپنے امور خود چلانا؛
(ج) منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا مالک ہونا اور حاصل کرنا؛
(د) قانون کے مطابق ایسی جائیداد کا انتظام کرنا۔
آرٹیکل 26 کے تحت ہندو مذہبی اور خیراتی ادارے صرف ہندو ہی چلاتے ہیں۔ حال ہی میں آندھرا پردیش میں واقع تروپتی-تروملا دیوستھانم کے غیر ہندو ملازمین کو نکال دیا گیا۔ اسی طرح سبری مالا مندر کے انتظامی بورڈ میں مقامی ممبر اسمبلی کا ممبر ہونا لازمی ہے۔ اگر وہ مسلم ممبر ہو تو اسے بورڈ کا رکن نہیں بنایا جاتا۔ وشنو دیوی مندر کے بورڈ کا سربراہ جموں و کشمیر کا گورنر ہوتا ہے لیکن اگر گورنر مسلم ہو تو وہ کسی غیر مسلم کو اپنی جگہ نامزد کرتا ہے۔ لیکن وقف بورڈ کی تشکیل میں دو غیر مسلموں کی شمولیت کو یقینی بنایا گیا ہے جو کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔ یہ ایک آئینی سیاسی جماعت سے توقع نہیں کی جا سکتی۔
مذہبی اداروں میں سرکاری مداخلت اور غیر مذہب کے ماننے والوں کی شمولیت کے نقصانات کا اندازہ بدھ گیا مندر ایکٹ 1949 سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت بدھ گیا، جو بدھ مت کا سب سے مقدس مقام ہے، اس کے انتظام کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں چار ہندو اور چار بدھسٹ رکن شامل ہوتے ہیں۔ اس ایکٹ کے خلاف بدھسٹ برادری کئی مہینوں سے ملک بھر میں احتجاج کر رہی ہے، کیونکہ ہندو ارکان نے بدھ گیا میں اپنے مندر بنا لیے ہیں اور وہ تمام رسم و رواج شروع کر دیے ہیں جن کے خلاف خود گوتم بدھ نے جدوجہد کی تھی۔
وقف ترامیم کے دیگر خطرناک پہلو:
1. کوئی بھی شخص وقف نہیں کر سکتا۔ صرف وہی شخص وقف کر سکتا ہے جو ثابت کرے کہ وہ کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہے۔ مگر ’’بامعنی مسلمان‘‘ ہونے کے ثبوت کیا ہوں گے؟ اس پر خاموشی ہے۔ ایک مسلمان مندر کو عطیہ دے سکتا ہے، مگر وقف نہیں کر سکتا؟ اور مسلم ہونے کے باوجود شرط عائد کی گئی ہے!
2. وقف کے خالق کو یہ بھی ظاہر کرنا ہوگا کہ وقف کی تخلیق میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔
3. ترمیمی بل کے نفاذ کے بعد "صارفین کے ذریعہ وقف” (waqf by user) ممکن نہیں ہوگا، حالانکہ عدالتوں نے اسے تسلیم کیا ہے۔
4. اگر کسی وقف جائیداد پر یہ دعویٰ ہو کہ وہ "سرکاری” جائیداد ہے تو انکوائری ایک سینئر سرکاری افسر کرے گا، جو خود ہی فیصلہ کرے گا اور ریونیو ریکارڈ میں تصحیح بھی کرے گا۔ کیا یہ "اپنے ہی مقصد میں جج” ہونے کی مثال نہیں؟ کوئی جواب نہیں!
5. ریاستی وقف بورڈ کے ارکان کے مسلمان ہونے کی شرط حذف کر دی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ غیر مسلم بھی مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ کیا یہی اصول ہندو اداروں پر بھی لاگو ہوگا؟ کوئی جواب نہیں۔
6. وقف املاک کی بازیابی کے لیے "حد بندی ایکٹ” (Limitation Act) لاگو کیا جا رہا ہے جو پہلے لاگو نہیں تھا۔
ان نکات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ وقف املاک پر قبضہ مزید آسان ہو جائے گا۔ یہ ترامیم سیکولر گورننس کے تصور سے حکومت کی پسپائی کی علامت ہیں۔ انگریزی دور حکومت میں بھی مذہبی آزادی کا احترام تھا اور مذہبی اداروں کو خود مختاری حاصل تھی۔ نئی ترامیم ان تحفظات کو کم کرتی ہیں جن سے مسلم اوقاف صدیوں سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔
"وقف بائی یوزر” کو ختم کر دیا گیا ہے، جب کہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو ایسی قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یہ لمیٹیشن ایکٹ صرف مسلم خیراتی املاک پر لاگو ہوگا۔ اس سے نہ صرف وقف کا تحفظ کمزور ہوتا ہے بلکہ وقف عطیہ دہندگان پر غیر ضروری بوجھ بھی ڈالتا ہے کہ وہ اپنے عقیدے کی پانچ سالہ گواہی دیں۔ اسلامی قانون میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔ یہ عطیہ کسی غیر مسلم کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے۔
یہ تبدیلی مسلم کمیونٹی کے اپنے مذہبی املاک کو خودمختار طریقے سے منظم کرنے کے آئینی حق کو نقصان پہنچاتی ہے اور طاقت کے توازن کو حکومتی مداخلت کے حق میں جھکا دیتی ہے۔ یہ وقف گورننس کے سیکولر، کمیونٹی گفت و شنید کے ماڈل کو مؤثر طریقے سے ختم کرتی ہے اور اس کی جگہ اوپر سے نیچے، ریاست کے مسلط کردہ نظام کو حاوی کرتی ہے۔ بہت سے لوگ اسے نوآبادیاتی دور میں کیے گئے قانونی وعدوں اور ریاست و مسلم کمیونٹی کے درمیان اعتماد کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ پہلے ہی سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ وقف املاک کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال کو اجاگر کر چکی ہے، اور نئے قانون سے اس رجحان کے مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نئے وقف قوانین تاریخی طور پر سیکولر اور جامع ٹرسٹ قوانین کی روایت سے ایک سنگین انحراف ہیں۔ وقف بورڈ اور سنٹرل وقف کونسل پر حکومت کی گرفت مضبوط ہو جائے گی، جو ملک کے ٹرسٹ ریگولیٹری اور فیصلہ سازی کے نظام پر ایک بدنما داغ ہوگا۔ نئے وقف ترامیم اس بات کی مثال ہیں کہ کس طرح مناسب تحقیق، مشاورت یا اتفاقِ رائے کے بغیر کی گئی قانونی اصلاحات صرف ایک خاص کمیونٹی ہی کو متاثر نہیں کرتیں، بلکہ ان کے اثرات ملک کے تمام طبقات پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ اور اس کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں—آر ایس ایس کے ترجمان اخبار آرگنائزر کی ویب سائٹ پر عیسائی اداروں کی جائیداد سے متعلق مضمون کی اشاعت کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے، جس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔
اس نئے وقف ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ اس پر کب سماعت کرے گی اور کیا جلد سماعت ہوگی—اس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے سپریم کورٹ اور ملک کی دیگر عدالتوں کی روش کو دیکھتے ہوئے فی الحال امید کا کوئی چراغ روشن ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے صرف قانونی جدوجہد پر انحصار کرنے کے بجائے، رائے عامہ ہموار کرنے کی تحریک جاری رکھنا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں نئے ترامیم کے بعد وقف املاک پر ممکنہ قبضے کی جو مہم شروع ہو سکتی ہے، اسے کس طرح روکا جائے—اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے اور وقف املاک کی باقاعدہ رجسٹریشن کو لازمی بنانے کی کوششیں بھی فوری طور پر شروع کی جانی چاہئیں۔ وقف کی حفاظت مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے یک طرفہ نہیں بلکہ ہمہ جہت اور منظم کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے اور اس کے لیے مسلمانوں کو بحیثیت امت وسط اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
***
***
اس نئے وقف ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ اس پر کب سماعت کرے گی اور کیا جلد سماعت ہوگی—اس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے سپریم کورٹ اور ملک کی دیگر عدالتوں کی روش کو دیکھتے ہوئے فی الحال امید کا کوئی چراغ روشن ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے صرف قانونی جدوجہد پر انحصار کرنے کے بجائے، رائے عامہ ہموار کرنے کی تحریک جاری رکھنا ضروری ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025