نئی دہلی:دو قدیمی مساجد کے انہدام کے نوٹس پر ہائی کورٹ کی روک،ریلوے کو نوٹس جاری
نئی دہلی، 27 جولائی:
آج ملک میں کسی بھی مسجد کو غیر قانونی تعمیربتا کر یا مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کا دعویٰ کر کے تنازعہ پیدا کرنا عام ہو گیا ہے ،خواہ ہو تعمیر صدیوں پرانی ہی کیوں نہ ہو۔موجودہ حکومت میں کسی بھی تنظیم یا ادارے کی جانب سے کسی بھی تعمیر پر دعویٰ کر کے تنازعہ کھڑا کر دیا جا رہاہے ۔اسی سلسلے میں دہلی میں واقع دو تاریخی اور قدیم مسجد کا معاملہ ہے جسے محکمہ ریلوے نے غیر قانونی تعمیر بتا کر اسے منہدم کرنے کا نوٹس جاری کیا ہے ۔جبکہ مسجد انتظامیہ کے پاس اس بات کے تمام شواہد موجود ہیں کہ یہ مساجد قانونی اور صدیوں پرانی ہیں۔یہ معاملہ نئی دہلی کے آئی ٹی او پر واقع مسجد تکیہ ببر شاہ اور نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع بنگالی مارکیٹ مسجد کا ہے جسے منہدم کرنے کے لئے ریلوے نے نوٹس جاری کیا ہے ۔اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ میں دہلی وقف بورڈ نے عرضی دائر کی جس پر گزشتہ روز دہلی ہائی کورٹ نے
ریلوے کو دونو مساجد کو ہٹانے کے نوٹس پر کارروائی پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ جسٹس پرتیک جالان نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے میں اپنا موقف پیش کرے۔
رپورٹ کے مطابق یہ عرضی دہلی وقف بورڈ نے دائر کی ہے۔ وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ وجیہہ شفیق نے مسجد تکیہ ببر شاہ اور بنگالی مارکیٹ مسجد کے غیر مجاز حصے کو منہدم کرنے کے لیے ریلوے کی طرف سے جاری نوٹس پر روک لگانے کی درخواست کی۔ دونوں مساجد ریلوے لائن اور ریلوے پل کے قریب ہیں۔ وقف بورڈ نے کہا ہے کہ دونوں مساجد وقف کی ملکیت ہیں۔ وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ دونوں مساجد کے نیچے کی زمین نہ تو ریلوے کی زمین ہے اور نہ ہی مسجد غیر قانونی ڈھانچہ ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ دونوں مساجد کی دیواروں پر چسپاں کیے گئے نوٹس پر نہ تو دستخط ہیں اور نہ ہی تاریخ درج ہے۔ نوٹس میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ نوٹس کس اتھارٹی نے جاری کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں نوٹس پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ وقف بورڈ نے کہا کہ جس طرح سے نوٹس جاری کیا گیا ہے، اس سے صاف ہے کہ ریلوے دونوں مساجد کو منہدم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ریلوے کا یہ قدم من مانی اور غیر قانونی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ بنگالی مارکیٹ مسجد تقریباً 250 سال پرانی ہے اور تلک مارگ مسجد 400 سال پرانی ہے، اور ان کی دیواروں پر چسپاں نوٹسز کو منسوخ کرنے کے لئے کافی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ "دونوں مساجد صدیوں سے موجود ہیں اور گورنر جنرل ان کونسل کے درمیان اس کے ایجنٹ کے ذریعے 1945 کے دو باقاعدہ رجسٹرڈ معاہدے ہیں – دہلی کے چیف کمشنر اور سنی مجلس اوقاف کے درمیان دونوں مساجد کے سلسلے میں ان مساجد کا انتظام سنی مجلس اوقاف کو منتقل کیا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ریلوے نے اپنے نوٹس میں مساجد کو 15 دن کے اندر زمین سے ہٹانے کو کہا ہے۔”جواب دہندگان کی غیر ضروری منمانی اور غیر معقول کارروائی سے متذکرہ بالا وقف املاک کا وجود ہی خطرے میں ہے ۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ دونوں مساجد میں نمازیوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے جو روزانہ پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں اور اس کے علاوہ جمعہ اور عید کے دن بڑی تعداد میں لوگ نمازا دا کرنے پہنچتے ہیں۔
درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ اکیلے 2023 میں، کم از کم سات وقف املاک کو راتوں رات "ہنگامہ کرتے ہوئے جبراً منہدم کر دیا گیا ہے اور موجودہ معاملے میں، خدشہ یہ ہے کہ "مساجد/ وقف املاک کو کسی طرح منہدم کرنا ہے۔ معاملے کی اگلی سماعت 3 اگست کو ہوگی۔